کوپ 29 میں “لاس اینڈ ڈیمج فنڈ” کے قیام پر زور،یہ فنڈ کیا ہے؟

رپورٹ:جہانگیر خان

سنہ 2022 میں  مصر کے شہر، شرم الشیخ  میں منعقدہ کانفرنس آف دی پارٹیز (کوپ27) میں یہ معاہدہ  طے پایا گیاتھا کہ ترقی یافتہ ممالک سالانہ فنڈ اکٹھا کریں  گے تاکہ،  کم آمدنی والے ترقی پزیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیش آنے والی  قدرتی آفات   کے ممکنہ  نقصانات  سے بچایا جا سکے  اور ان کا ازالہ کیا جاسکے۔

 اس فنڈ کو “لاس اینڈ ڈیمج فنڈ” کا نام دیا گیا، جسے  موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق چیلنجوں کا سامنا کرنے والے کمزور  ترقی یافتہ ممالک کو مدد فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ۔اس  موسمیاتی مالیاتی میکانزم کے نفاذ میں سہولت فراہم کرنے کے لیے، ایک عبوری کمیٹی تشکیل دی گئی ، جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پزیر دونوں    ممالک کے 24  نمائندے شامل کئے  گئے۔

سال،  2023 میں دبئی میں منعقدہ کوپ 28 کے موقع پر فریقین نے کانفرنس کے پہلے دن،   لاس اینڈ ڈیمج فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر تقریبا پچھلی تین دہائیوں سے مسلسل  بحث ومباحثے جاری تھے۔  اس فیصلے کے ایک حصے کے طور پر، ورلڈ بینک کو مدعو کیا گیا تھا کہ “فنڈ کو چار سال کی عبوری مدت کے لیے ،ورلڈ بینک کی میزبانی میں مالیاتی انٹرمیڈیری فنڈ (FIF) کے طور پر فعال کیا جائے” ، جو کہ ورلڈ بینک کی طرف سے پوری کی جانے والی شرائط کے ساتھ مشروط ہوگا۔

“پارٹیز”  سے  مراد وہ  200  ممالک ہیں جنہوں نے سال 1992 میں ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے، جسے”اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن آن کلائیمیٹ چینج”کا نام دیا گیا۔ ان تمام ممالک کے سربراہان   ہر سال سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ خطرات سے نمٹنےپر غور کرتے ہیں ۔

لاس اینڈ ڈیمج سے کیا مراد ہے؟

“لاس  ایند ڈیمج” سے مراد مسلسل  موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیش آنے والے نقصانات ہیں، جن میں انسانی جانوں کا ضیاع، انفراسٹرکچر، زمینوں اور فصلوں  کا نقصان اور ماحولیاتی نظام کا بگاڑ شامل ہیں ۔

کوپ 27 میں لاس اینڈ ڈیمج فنڈ سے متعلق کیا فیصلے ہوئے؟

اس کانفرنس میں سب سے بڑا  سوال یہ تھا کہ، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہ ممالک  کے لیے قائم فنڈ میں نقصان کے معاوضے کے لیے پیسے کون  اور کتنے دے گا؟  کافی بحث و مباحثے کے  بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ، وہ ترقی یافتہ ممالک جن کا ماحولیاتی آلودگی میں زیادہ کردار ہے، وہ ان تمام ترقی پزیر ممالک کو فنڈز مہیا کریں گے جو ماحولیاتی تبدیلی کے نقصانات سے دوچار ہیں۔ مذاکراتی میز پر فاسل فیولز کے استعمال کے حوالے سے بھی غور کیا گیا اور گیس، تیل اور کوئلے کے استعمال میں  مرحلہ وار کمی لانے کا عہد کیا گیا۔

اب تک عمل درآمد کیوں نہ ہوسکا؟

فنڈ کا معاہدہ تو ہوا لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ یہ فنڈ کیسے کام کرے گا اور  امیر ممالک کس طرح فنڈ دیں گے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ،  پہلے انہیں اس بات پر متفق ہونا چاہیے کہ ،کتنا  فنڈ دیا جائے گا، کون حصہ ڈال رہا ہے اور رقم کیسے خرچ کی جائے گی؟  امیر ممالک نے گذشتہ 30 برسوں سے اس  بحث کو اس لئے  نظر انداز کیا کیونکہ، انھیں اس بات کا ڈر تھا کہ ،ماضی میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ان کا کردار منفی رہا ہے اس لیے انھیں اس ضمن میں صدیوں تک معاوضہ ادا کرنا پڑے گا  اور ترقی یافتہ ممالک ادائیگیوں کو معاوضے کے طور پر تیار کرنے اور ان شرائط پر موسمیاتی تبدیلی کی ذمہ داری قبول کرنے سے محتاط تھے۔

حال  ہی میں آذربائیجان کے شہر، باکو میں منعقدہ کوپ 29 میں کئی بڑے ممالک کے سربراہان شریک نہ ہوئے جن  میں امریکی صدر جو بائیڈن، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی،  چینی صدر شی جن پنگ ، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون ،  یورپی کمیشن کے صدر  ارسولا وان ڈیر لیین اور  جرمنی کے اولاف شولز شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ، بڑے ممالک کے سربراہان  کی عدم موجودگی کے باعث  کانفرنس اور لاس اینڈ ڈیمج فنڈ پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

یاد رہے، امریکہ نے پہلے ہی  صنعتی اخراج کے لیے ازالہ دینے سے انکار کیا ہے، یونائیٹڈ کنگڈم اور  دیگر ممالک نے بھی خدشات ظاہر کئے ہیں کہ، وہ شاید  اپنے علاقائی مسائل کی وجہ سے پرانے  وعدوں کی پاسداری نہ کر سکیں۔

رواں سال،  باکو کانفرنس میں شرکت کرنے والے کئی ترقی پزیر ممالک کے سربراہان نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ، ماضی میں کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں  ورنہ آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں