جنگ نیوز روم میں گزرے ایام

( عامر خاکوانی کی صحافتی یاداشتیں، دوسری قسط )

سال دوہزار تھا، تاریخ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، مگر یہ جنوری فروری ہی تھا۔ روزنامہ جنگ لاہور کے نیوز روم میں ہم پانچ نئے سب ایڈیٹر داخل ہوئے۔

فائیو مسکیٹرز
خاکسار نے کبھی کسی اخبار کے نیوز روم یا نیوز ایجنسی میں تو درکنار، اخبار کا دفتر تک نہیں دیکھ رکھا تھا۔ میرا کل تجربہ اردو ڈائجسٹ کا تھا، جس میں آرٹیکل لکھتا رہا، عالمی انگریزی اخباروجرائد سے تراجم کئے ، کتابوں کی تلخیص کی اور بعد میں مضامین کی ایڈیٹنگ، پروف ریڈنگ وغیرہ سے لے کر پورا ڈائجسٹ تیار کرانا۔ ایک اچھے قاری کے طور پر اخبار پڑھنے کا ضرور تجربہ تھا، مگر یہ پتہ نہیں تھا کہ خبر کیسے بنائی جائے، دو کالمی خبر کی سرخی میں کتنے الفاظ آتے ہیں، تین کالمی خبر کی سرخی میں کس قدر الفاظ آئیں گے وغیرہ وغیرہ۔

ہم پانچ میں سے ایک غلام محی الدین جو آج کل ایکسپریس لاہور کے میگزین انچار ج ہیں،انہیں جنگ لاہور آنے سے پہلے چند سال کا جنگ کوئٹہ کے نیوزروم اورروزنامہ پاکستان کے نیوز روم میں کام کرنے کا تجربہ تھا۔ شاہد چشتی بھی مختلف اخبارات میں کام کر چکا تھا۔

عبدالقدوس جو عقاب صحرائی کے نام سے بھی مشہور تھا، بڑاہنرمند اور لائق صحافی ہے ۔ نوائے وقت میں وہ کئی سال نیوز روم میں گزار چکا تھا۔ اچھا لکھنے والا تھا، بعد میں اس نے ایک عمران سیریز ناول بھی لکھا، ق لیگ کے میڈیا سیل میں کام کیا اور پھر اپنے آبائی شہر رحیم یار خان چلا گیا، جنگ کا نمائندہ بن گیا، اپنا اخبار نکالا اور خاصے پنگے بھی لئے، آج کل سر پر اٰیک خاص وضع کی سرخ ٹوپی پہنے فقیر عبدالقدوس سرخ پوش کہلاتا ہے۔ عقاب صحرائی پورا کیریکٹر ہے، جوش کی کتاب یادوں کی برات کے منفرد کرداروں جیسا ایک کردار، دل کا ہیرا ۔ افسوس لاہور نہیں رہ سکا ۔ چوتھے انور خان تھے، یہ شائد کے پی آئی سے آئے تھے۔ جنگ میں کئی سال رہے ، بعد میں پی آر او بن گئے، آج کل بھی شائد اسی شعبے میں ہیں۔

خاکسار اردو ڈائجسٹ سے روزنامہ جنگ کے نیوز روم گیا، وہاں سے پھر ایکسپریس کا میگزین انچارج بن گیا اور دس سال گزارنے کے بعد پانچ سال روزنامہ دنیاپھر سات سال نائنٹی ٹو نیوز کی میگزین ایڈیٹری اور کالم نگاری ۔ آج کل ورک فرام ہوم ڈیجیٹل میڈیا میں کالم نگاری ۔

نیوز روم کا غیر ہمدردانہ ماحول
جنگ کا نیوز روم تب بہت ہی پریشان کن ، تکلیف دہ اور اچھی خاصی دفتری سازشوں کا گڑھ تھا۔ کم از کم میرے لئے تو سب کچھ نیا اور عجیب تھا۔ میں ایک چھوٹے دفتر سے آیا تھا، جہاں بہرحال ایک یگانگت والا ماحول تھا، مالکان سے انہیں شکوے ضرور تھے، مگر آپس میں سازشی ماحول نہیں تھا۔

جنگ میں اس کے برعکس تھا۔مالکان سے شدید شکوے بلکہ بلند آواز جنگ کے مالک کی “مدر سسٹر” کی جاتی ۔ آپس میں بھی خاصے مسائل چل رہے تھے۔ سینئرز کی باہمی کھینچا تانی اپنی جگہ، جونئیرز میں سے بھی کوئی کسی کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں تھا۔ نیوز روم میں کیمرے لگے ہوئے تھے، کہا جاتا تھا کہ نگرانی ہوتی ہے۔ پتہ چلا کہ پہلے میر شکیل الرحمن نے وہاں مائیک بھی لگوائے تاکہ سن سکیں کہ کیا سازشیں ہو رہی ہیں۔ وہ تو نیوز روم کے سب ایڈیٹرز نے ایسی دریدہ دہنی اور بدزبانی کا مظاہرہ کیا، مالکان کو ایسی ایسی ننگی گالیاں دی جاتیں کہ سننے والوں کے ہوش اڑ جاتے، یوں مائیک بند کرا دئیے گئے۔

مجھے یاد ہے کہ میں پہلے دن گیا تو گواچی گاں کی طرح نیوز روم میں گھومتا رہا، کسی نے مجھے یہ تک نہیں بتایا کہ کہاں بیٹھنا ہے، کیا کرنا ہے۔ آخر اسلم ملک صاحب نے توجہ کی، سوال جواب کیا ، پتہ چلا کہ بہاولپور سے تعلق ہے، اردو ڈائجسٹ میں کام کرتا رہا ہوں تو انہوں نے مجھے کمال مہربانی سے اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھا لیا۔ ایک دو خبریں بھی اٹھا کر دیں کہ بنائو۔

اگلی قسط میں نیوز روم کا تفصیلی نقشہ کھینچا ہے۔ سردست اتنا سمجھ لیں کہ ایک نیم دائرہ سا تھا اور مرکز میں نیوز ایڈیٹر اپنے کروفر کے ساتھ براجمان تھے۔ میں نے خبر بنا کر سرخی لگائی اور ان کے آگے رکھ دی۔ انہوں نے دیکھے بغیر ہی کمپوزنگ کے لئے بھجوا دی۔ میں منتظر تھا کہ کب خبر آئے، وہ بن کر آئی، نیوز ایڈیٹر نے اس پرنظر ڈالی اور نہایت بے اعتنائی سے نیچے رکھی ڈسٹ بن میں پھینک دی۔ میرے دل کو گھونسہ سا لگا۔ یہی حال ایک دو دن تک ہوتا رہا۔ سب عجیب نظروں سے دیکھتے، کوئی بات کرنے کو تیار نہ ہوتا۔ سکھانا یاکچھ بتانا تو دور کی بات ہے۔

اسلم ملک واحد آدمی تھے جو نیوزروم میں میری پناہ گاہ تھے۔ وہ دبنگ آدمی تھے، کسی سے ڈرے بغیر بلند آواز میں میرے ساتھ سرائیکی بولتے۔ رات بارہ ساڑھے بارہ بجے جب کام ختم ہوگیا تو انہوں نے مجھےاشارہ کیا کہ گھر چلے جائو۔ مجھے تب پتہ نہیں تھا کہ شفٹ دو بجے ختم ہوتی ہے، خیر ہماری حاضری بھی نہیں ہوتی تھی۔

نیوز ایڈیٹر کی سردمہری اور شان بے نیازی برقرار رہی۔ عجیب رویہ تھا ان کا۔ ایک جونیئر موسٹ سب ایڈیٹر ان کے پاس آیا ہے، اگر وہ چند لمحے نکال کر اس کی حوصلہ افزائی کر دیتے، کچھ بتا دیتے، تھوڑا سا سمجھا دیتے یا کسی دوسرے سینئر کے ساتھ ہی لگا دیتے تو کتنا اچھا لگتا اورآج بھی مجھے وہ سب یاد رہتا۔ دوسرے دن میری ایک خبر ملتان ایڈیشن میں لگی۔ سنگل کالمی خبر تھی، مگر اخبار نکال کر اسے دیکھا اور خوشی ہوئی۔ پھر رفتہ رفتہ چھوٹی موٹی خبرلگنے لگی۔

قائداعظم “فیورٹ سیاستدان”
نیوز ایڈیٹر صاحب کی پرسنالیٹی البتہ تب متاثر کن تھی۔ وہ ہر وقت منہ میں پان رکھتے ، بات کسی سے نہ کرتے ۔ کوئی بولتا تو اسے بڑی بڑی غصیلی آنکھوں سے دیکھتے۔ ایک روز دلچسپ ماجرا ہوا۔ وہاں ایک اسسٹنٹ یا کلرک سمجھ لیں، وہ نیوز ایڈیٹر کا بڑا چہیتا تھا۔ اس کے پاس میں بیٹھا تھا، میں نے ویسے پوچھا کہ سر کا فیورٹ صحافی یا سیاستدان کون ہے۔ کہنے لگا قائداعظم۔ میں سچ مچ متاثر ہوا کہ یہ دبنگ سا آدمی لگتا تو کڑک اور سخت ہے، بااصول بھی ہو گا۔ جس کا فیورٹ قائداعظم ہو، اس کے بااصول ہونے میں کیا شک؟ اتنے میں اس لڑکے علی رضا نے ہنس کر دیکھا اور جیب سے نوٹ نکال کر قائداعظم کی تصویر دکھائی کہ یہ والا قائداعظم پسند ہے۔ میں ہکابکا رہ گیا۔ معلوم نہیں کیا سچ کیا غلط ، مگر ان کا سب امیج ہوا ہوگیا۔

ہم رکھنے نہیں نکالے جانے کے لئے بھرتی ہوئے تھے
بعد میں پتہ چلا کہ جنگ نیوز روم کے لئے تین سب ایڈیٹر رکھنے تھے، انہوں نے دانستہ پانچ رکھ لئے ، ارادہ تھا کہ چند دنوں کے بعد دو جونیئر سب ایڈیٹر فارغ کر دیں گے اور ٹاپ مینجمنٹ کو کہہ دیں گے کہ تجربہ کار اور اہل تین سب ایڈیٹر رکھ لئے گئے۔ یعنی میں اور انور خان ہم بے چارے سٹپنی کے طور پر سلیکٹ ہوئے تھے اور مقصد نکال دینا ہی تھا۔ ویسے یہ کس قدر گھٹیا سوچ تھی کہ اچھے خاصے بندے کو اپنی جاب چھوڑ کر جوائن کرا لو اور چند دن بعد نکال دو ۔
وہ تو خیر جنگ کا نہایت سست رفتار اور بکواس قسم کا سسٹم ہمیں فائدہ دے گیا۔ جو کام ایک ہفتے میں ہونا تھا، وہ ڈھائی تین مہینے تک طول کھینچ گیا۔ ڈھائی تین ماہ بعد ہمیں کانٹریکٹ لیٹرز ملے۔ تین سب ایڈیٹرز کو پچھہتر سو کے لیٹر ملے اور ہم دونوں جونیئرز کو پنتالیس سو۔ مقصد یہی تھا کہ یہ چھوڑ کر چلے جائیں۔

ویسے یہ کانٹریکٹ لیٹر کی بھی دلچسپ کہانی تھی۔ ہمیں جنگ کا لیٹرنہیں ملتا تھا، کسی نامعلوم سی کمپنی کا آٹھ مہینے کا لیٹر ہوتا۔ پھر ایک مہینہ بغیر کانٹریکٹ کے کام کرتے اور مہینے بعد نیا لیٹر ملتا۔ پتہ چلا کہ لیبر لا کے مطابق نو مہینے کا کانٹریکٹ ہو تو پھر ریگولر کرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے ایک مہینے کا گیپ دے کر قانونی سقم پیدا کیا جاتا۔ یہ عجب تماشا تھا۔

یاد رہے کہ میں اردو ڈائجسٹ سے چھ ہزار روپے لے رہا تھا۔ جنگ نے ملازمت کا لیٹر دینے میں تاخیر کی تو میں نے اردو ڈائجسٹ کی جاب جاری رکھی۔ یہ بھی ایک بڑی مشکل تھی۔ میں صبح نو بجے اردو ڈائجسٹ جاتا، وہاں پانچ بجے ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد دو ویگنیں بدل کر جنگ کے دفتر پہنچتا جہاں چھ بجے پہنچنا لازمی تھا۔ رات دو بجےچھٹی کے بعد سیدھا گھر جا کر سو جاتا تاکہ پانچ چھ گھنٹے سو کر صبح آٹھ بجے اٹھ کر سمن آباد میں اردو ڈائجسٹ کے دفتر جا سکوں۔ جہاں اپنے انداز سے خوب نچوڑا جاتا۔

اپنے آپ کو منوانے کی جنگ
جنگ لاہور کا کوئی ایڈیٹر نہیں تھا، ایک ایڈیٹوریل کمیٹی تھی جس میں ایڈیٹرنیوز، ایڈیٹر رپورٹنگ، ایڈیٹر نمائندگان وغیرہ تھے، ایک چیئرمین ایڈیٹوریل کمیٹی تھا۔ تب ایڈیٹر رپورٹنگ انجم رشید چیئرمین ایڈیٹوریل کمیٹی تھے۔ بعد میں یہ ذمہ داری ایڈیٹر نیوز عثمان یوسف کو مل گئی اور پھر آج کل شائد بیدار بٹ ہی ہیں۔

انجم رشید نے مجھے بلایا اور وہ کانٹریکٹ دیا۔ میں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے بھی اتنے پیسے لگائے جائیں جتنے دوسروں کے ہیں۔ انجم رشید نے کہا کہ آپ کے بارے میں ایسسمنٹ رپورٹ ہی ایسی تھی ، اس لئے کم لگائے۔ اگر نہیں پسند تو آپ چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ ایسسمنٹ رپورٹ کب بنوائی گئی ؟ انجم رشید نے کہاپہلے ہفتے میں۔ مجھے موقعہ مل گیا۔ ایل ایل بی کر رکھا تھا، ایک سینئر وکیل کا بیٹا تھا،وکالت کاتھوڑا بہت تجربہ بھی تھا۔ میں نے کہا آپ اگر پہلے ہفتے ایسا کرتے تو مجھے اعتراض نہ ہوتا، تب یہ بات درست تھی۔ آج مگر درست نہیں۔ میں نے پچھلے دو ڈھائی ماہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور اب میری اہلیت کسی بھی طرح ان باقی تین سے کم نہیں۔ میں نے موقف اختیار کیا کہ جب آپ فیصلہ آج کر رہے ہٰیں تو پھر ایسسمنٹ رپورٹ بھی آج کی ہونی چاہیے، تین ماہ پہلے کی رپورٹ کیوں ؟

انجم رشید یہ سن کر ہکابکا رہ گئے، کہنے لگے کہ آپ ان کے برابر اتنا جلد کیسے ہوسکتے ہیں ؟میں نے کہا، آپ میراباقیوں کے ساتھ ٹیسٹ لے لیں۔ اگر میری بنائی ہوئی خبر ان سےبہتر نہ ہوئی تو مجھے نہ رکھئے گا۔ دوبارہ بات دہرائی کہ میں نے ان جیسی خبر نہیں کہی ، ان سے بہتر سرخی ، بہتر خبر کی ایڈیٹنگ کی بات کی ہے۔ ایک اور پوائنٹ اٹھایا کہ اگر میں نے ڈھائی تین ماہ میں اتنا سیکھ لیا ہے تو ان سے میں لازمی بہتر ہوں کیونکہ انہیں تو کئی سال نیوز روم میں ہوچکے ہیں۔

خیر میرے اس تھوڑے پراعتماد، تھوڑے مبالغہ آمیز دعووں سے وہ چکرا گئے۔ انہوں نے سر پکڑ لیا اور مجھے واپس جانے کا کہا۔ دراصل میں نے ان ڈھائی تین ماہ میں واقعی بہت کچھ سیکھا تھا۔ خبروں کی سرخیاں جمانا، خبر کو سلیقے سے ایڈٹ کرنا ، کم سے کم لفظوں میں خبر بنانا وغیرہ۔ ترجمہ تو میرا پہلے سے اچھا تھا، اس لئے اے ایف پی کی خبر بنانا میرے لئے مسئلہ نہیں تھا جبکہ اکثر سب ایڈیٹر اس سے گھبرا جاتے تھے۔

نیا لیٹر مگر مایوس کن مستقبل کی خبریں
اس واقعے کے چند دنوں بعد ہمیں نیا لیٹر مل گیا، اب تنخواہ باسٹھ یا تریسٹھ سو مقرر ہوئی۔ اس بار خاموش ہوگیا کہ چلو جنگ کا باقاعدہ سب ایڈیٹر تو بن گیا ہوں۔ آگے جا کر بہتر ہوجائے گی۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ یہاں سال کے بعد صرف ایک سو بیس روپے اضافہ ہونا ہے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ نیوز روم سے میگزین سیکشن میں جایا جا سکے۔ دراصل جنگ نیوز روم جانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ایک بار ادارے کے اندر تو جایا جائے، پھر اپنے پسندیدہ میگزین سیکشن جانے کی کوشش کروں گا۔

جنگ میں جا کر پتہ چلا کہ یہ ناممکن ہے۔ میگزین والے تو نیوز روم والوں کی کوئی تحریر تک نہیں لگاتے تھے کہ کہیں یہ ادھر وارد نہ ہوجائیں۔ پتہ چلا کہ جنگ کے نیوز روم سے میگزین میں بھیجنا میر شکیل الرحمن تک کے لئے شائد آسان نہیں۔ ترقی کے لئے جنگ چھوڑنا ہی پڑتا تھا۔ بعد میں ہم نے ایسا ہی کیا اور خوش قسمتی سے مجھے ایکسپریس کا میگزین انچارج بنا دیا گیا۔ یہ مگر الگ کہانی ہے۔

سٹی ڈیسک پر کام
مجھے جلد سٹی ڈیسک پر بھیج دیا گیا۔ ندیم اشرف شیخ سٹی ایڈیٹر تھے، ان کےساتھ اے ڈی راشد تھے، میرے ساتھ ان کی اچھی بن گئی۔ ندیم اشرف دلچسپ آدمی تھے۔ وہ مجھ سے ابتدا میں سروس کی خبریں بنواتے۔ فوتیدگی، تلاش ورثآ وغیرہ کی دو تین سطری خبر۔ یہ بیکار خبریں مجھے بنانے کے لئے دیتے اور پھر فرماتے کہ یہ بڑی اہم خبریں ہیں، احتیاط سے بنانا۔ مجھے ہنسی آ جاتی۔ حال یہ تھا کہ اگر کوئی اکا دکا انگریزی کی اے پی پی ، یا پی پی آئی کی سٹی کے حوالے سے خبر آ جاتی تو وہ بھی بھائی صاحب خود نہ بنا پاتے، وہ میرے حوالے کی جاتی۔ خود سٹی پیج کی تقریبات کی خبریں، بیانات، کرائم وغیرہ بناتے۔

جنگ کے سٹی ڈیسک جا کر پتہ چلا کہ یہ تو سونے کی کان ہے۔ سٹی ایڈیٹر تو ہزاروں روز کی دیہاڑی لگا سکتا ہے، لاکھوں روپے ماہانہ بنا لیتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ سفارشیں اور کوششیں کر کے سٹی ایڈیٹر بنتے۔ دراصل تب جنگ اخبار کی بہت زیادہ اہمیت تھی، تاجر تنظیموں کے عہدے دار اپنی تصاویر لگوانے کے مرے جاتے تھے۔ فوٹوگرافر ان سے فی خبر یا فی تصویر پانچ ہزار، دس ہزار روپے پکڑ لیتے اور پھر سٹی انچارج کے ساتھ مل کر یہ سب دھندا چلتا۔ گندا تھا، مگر دھندا تھا۔

ادھر ہم جو صحافت میں آئے ہی مشن لے کر تھے کہ نہ کچھ غلط کرنا ہے نہ سوچنا ہے۔ مجھے ان چیزوں کا ویسے شروع میں پتہ ہی نہیں تھا۔ ویسے بھی میں کام سے کام رکھتا۔ فارغ وقت میں اخبارات پڑھتا رہتا، تب وہاں غیر ملکی اخبار بھی آتے تھے۔ وہ بھی دیکھتا رہتا۔ ایک دو بار مجھے باہر سے لوگ آ کر سٹی ڈیسک پر ملے اور آواری ہوٹل ، پی سی میں چائے کی پیش کش کی۔ میں نے انہیں صاف جواب دیا کہ بھائی صاحب یہ بیٹھے ہیں سٹی انچارج ان سے بات کر لیں۔ میں یہ نہیں کیا کرتا۔

اسی وجہ سے مجھ سے ہر سٹی ایڈیٹر بہت خوش تھا۔ مجھے وہ سٹی ڈیسک سے جانے ہی نہیں دیتا۔ ندیم اشرف کے بعد عزیز صاحب سٹی انچارج بنے، وہ بھی مجھے کسی دوسرے ڈیسک پر نہ جانے دیتے۔ ادھر میری خواہش تھی کہ مین ڈیسک پر جائوں کیونکہ اندازہ تھا کہ اصل سب ایڈیٹر وہی ہے جس نے مین ڈیسک پر کام کیا، جہاں اچھی بڑی خبریں ملتی ہیں، بڑے ایشوز کی ہینڈلنگ، فرنٹ بیک کی خبریں وغیرہ۔ مجھے مگر اگلے دو سال تک کسی نے ہلنے نہ دیا۔ ہر تین ماہ بعد نیا ڈیوٹی روسٹر بنتا اور عامر خاکوانی ہر بار سٹی ڈیسک پر ۔

جنگ میں ایک رولا افسروں کو خوش کرنا بھی تھا۔ بعض خبریں شفٹ انچارج دیتا، کوئی نیوز ایڈیٹر، پولیس یا انتظامیہ کے بعض افسران کی پریس ریلیز ایڈیٹر نیوز عثمان یوسف کے دستخط سے آتیں، بعض خبریں میر شکیل الرحمن جنہیں ایم ایس آر کہا جاتا تھا ان کا پی اے فیاض اوپر سے بھیجتا۔ ٹاپ فلور پر شکیل صاحب کا دفتر تھا مگر وہ کراچی رہتے تھے۔ ادھر ادھر کی سفارشی خبریں بھی آ جاتیں۔ ان سفارشی خبروں کا ایک باقاعدہ رجسٹر بنایا جاتا اور اہتمام کے ساتھ یہ سب خبریں لگوائی جاتیں۔ میری یاداشت بہت اچھی تھی، مجھے سب خبریں یاد رہتیں اور میں انہیں لازمی لگوا دیتا۔ اس سے بھی سٹی ایڈیٹر بڑا خوش تھا۔

سٹی ڈیسک پر میں نے “پارٹی”کی اصطلاح سنی۔ فلاں میری پارٹی ہے، وغیرہ ۔ مطلب یہ کہ اس سے میں پیسے وصول کرتا ہوں، اس کا مجھ سے تعلق ہے، کوئی اور بیچ میں نہ آئے۔ میں واحد آدمی تھا جس کی کوئی پارٹی نہیں تھی۔ مجھے نیوز روم کے بعض سب ایڈیٹر سمجھانے آتے کہ تم کیوں بے وقوف بنے ہو، سٹی پر بیٹھے ہو، کچھ پارٹیاں اپنی پکی کر لو، تنخواہ ویسے ہی کم ہے ، چند ہزار مزید بن جائیں گے۔ ہم نے کہا نہیں بھیا جی یہ ہم سے ہونے والا نہیں۔
(جاری ہے )

Author

اپنا تبصرہ لکھیں