مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ میں کمی کا امکان ہے۔ شنید ہے کہ اسرائیل اور لبنان جنگ بندی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے ایکسئیس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا ایک مسودہ تیار ہو چکا ہے، چند وجوہات کی بنا پر ابھی تک اِس پر دستخط نہیں ہو سکے۔آج ہم جانیں گے کہ اگر اِس جنگ کا خاتمہ ہوا تو ، اِس کے مشرقِ وسطیٰ اور عالمی سطح پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔
اسرائیل اور لبنان کے درمیان جاری جنگ میں اب تک 3500 لبنانی جاں بحق جبکہ 15 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے بھی 160 سے زائد فوجی جاں بحق ہوئے۔اگر یہ جنگ بندی ہو گئی تو دونوں ممالک کے لاکھوں بے گھر افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں گے۔
اسرائیلی افواج کا لبنان سے انخلا، امریکہ کا کیا کردار ہوگا؟
معاہدے کے مسودے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے لیے 60 دِنوں کا عبوری دورانیہ رکھا جائے گا۔ اِس مدت میں اسرائیلی فوج لبنان کو خالی کرے گی، جبکہ لبنانی فوج سرحدوں پر دوبارہ تعینات ہوگی۔ مسودے کے مطابق لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کو بھاری ہتھیاروں کے ساتھ لٹانی دریا کے شمال میں منتقل ہونا ہوگا۔
معاہدے کے مسودے کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کے لیے ایک نگران کمیٹی بنائے جائے گی ، جِس کی قیادت امریکہ کے سپرد ہوگی۔ اِس کمیٹی کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ لبنان سے اسرائیلی فوجیوں کے محفوظ انخلا کو یقینی بنائے گی۔امریکہ نے اسرائیل کو ایک خط لکھا ہے۔ خط میں یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اسرائیل کو فوری خطرات سے نمٹنے کے لیے فوجی کاروائی کی اجازت دی جائے گی۔
اگر لبنانی فوج خطرات سے نمٹنے میں ناکام ہوئی تو اسرائیل اِس کے جواب میں امریکہ سے مشاورت کے بعد کاروائی کرے گا۔
معاہدے کو درپیش سفارتی تناؤ
اِس جنگ کا آغاز حزب اللہ کی جانب سے کیا گیا۔ 8 اکتوبر 2023 کو حزب اللہ نے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل پھینکے جِس سے اسرائیل کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ اُس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان معمولی جھڑپوں کا سلسلہ چلتا رہا ۔ یکم اکتوبر 2024 کو اسرائیل نے حزب اللہ پر زمینی حملہ کیا، جِس سے صورتحال مزید بگڑ گئی ۔جنگ کے نتیجے میں لبنان کے 97 ہزار افراد بے گھر ہوئے، جبکہ اسرائیل کے 60 ہزار افراد کو بھی اِسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیل اور لبنان کے درمیان جاری جنگ بندی میں سفارتی تناؤ اِس وقت بڑھا جب انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجامین نیتن یاہو اور سابق وزیرِ دفاع یوآو گیلانٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ فرانس کی آئی سی سی کےفیصلے کی حمایت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا کیوں کہ لبنان کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے فرانس کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی کوششوں سے اِس بحران کا خاتمہ ہوا،اسرائیل نے فرانس کو نگرانی کے عمل میں شمولیت کی اجازت دے دی۔
معاہدے پر ابھی تک دستخط کیوں نہیں ہوئے؟
اسرائیلی حکام کی جانب سے موجودہ صورتحال کو “مثبت ” قرار دیا گیا ہے، تاہم اُن کا کہنا ہے کہ کچھ مسائل ابھی حل طلب ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجامین نیتن یاہو 26 نومبر کو کابینہ سے مشاورت کریں گے۔ اگر اسرائیل کی دفاعی کابینہ کی جانب سے معاہدے کی منظوری دے دی گئی تو معاہدے پر جلد دستخط کر دیے جائیں گے ۔
دوسری جانب لبنانی حکام بھی معاہدے پر دستخط کے لیے پرعزم ہیں۔