ازبکستان، وسطی ایشیا اور دُنیا بھر کی خبریں اُردو میں نشر ہونگی
ذبیح اللہ بلگن کو چئیرمین اور راشد محمود کو صدر منتخب کر لیا گیا
تاشقند اسلام آباد کا بھائی چا ده برابر ترقی کر رہا ہے۔ جب سے از بکستان میں صدر شرکت مرزائیوف کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ پاکستان کی طرف خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ اگرچہ عمران خان کے دور میں بھی خان صاحب یہاں آئے تھے اور ان کی سہ فریقی میٹنگ یہاں تاشقند میں میزبان حکومت کی جانب سے منعقد کی گئی تھی، لیکن خان صاحب کی ایک عادت ہے کہ ہر ایک سے اکھڑی اکھڑی بات کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔یہی حال اُنہوں نے افغان صدر سے کیا، جِس سے میزبانوں کو بہرحال پریشانی ہوئی۔
بہر حال ہمارے میزبان مہمانوں کے لئے میٹھے اور صبر والے ہوتے ہیں۔ اب جب سے پاکستان میں جناب شہباز شریف کی حکومت ہے تب سے ہماری حکومت خاص طور پر وزیر اعظم اور ان کا عملہ بھی میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے اور وسطی ایشیائی لیڈر تو کرتے ہی میٹھی باتیں ہیں۔ راقم کو اس خاص اجلاس کی رپورٹنگ کا موقع ملا جب پاکستان اور بھارت کو ایک ہی وقت میں ایس سی او کا ممبر بنایا گیا اور یہ ازبکستان کے سابقہ مرحوم صدر اسلام کریموف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ہوا۔خوش قسمتی سے اس خاص اجلاس میں راقم کو جو نشست ملی وہ صدر اسلام کریموف کے عین سامنے 2 میٹر دور تھی۔ یہاں دہشت گردی کا زیادہ خطرہ نہیں ہوتا، اس لئے راہنما حضرات عوام سے زیادہ دور نہیں رہتے ۔ صدر شی جن پنگ بیٹے تھے اور دونوں حضرات کی اس مشترکہ پر یس کا نفرنس میں پاکستان بھارت کی ممبر شپ کا اعلان کیا گیا ۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ چونکہ چینی صدر تین روزہ دورے پر بھی تھے اس لئے انہیں ازبکستان کی سیر بھی کرائی گئی۔ آخر میں کیوں یہ بات کر رہا ہوں۔ ایک تو یہ کہ صدر اسلام کو کریموف کو چین کی تاریخ جغرافیہ اور ثقافت کا گہرا علم تھا دوسری طرف صدر شی جن پنگ بھی وسطی ایشیا خاص کر از بکستان کا گہرا علم رکھتے تھے گویا دونوں صدور نہلے پر دہلا تھے ۔ اگر ایک لیڈر میزبان لیڈر اور ا سکے ملک و قوم کے بارے میں کوئی ایک تعریفی جملہ کہتا تو میزبان مہمان کے ملک و قوم کے بارے میں دل کھول تعریف و توصیف کرتا۔ اور یہ کوئی غلط نہ ہوتا بلکہ دونوں راہنما در اصل ایک دوسرے کے بارے میں علم اور جان پہچان کی بازی لے جا رہے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب از بکستان پاکستان کے تعلقات بڑی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں کہ ہر دو اطراف میٹھی اور شہد جیسے جذبات رکھتے ہیں ۔
مجھے یہ کہنے دیجئے کہ
جب و سطی ایشیا نیا نیا آزاد ہوا تھا تو پاکستان کے راہنماؤں نے یہاں کافی دورے کیے۔ تب ہمارے ان ممالک میں سفارتخانے ابھی کھلنے کے مراحل میں تھے اور تابانی کارپوریشن کے دفاتر ان سے پہلے یہاں کام کر رہے تھے۔ لہذا بہت سارے سرکاری کام یا مراحل غیر سرکاری طور پر ہمارے دفاتر کو حل کرنا ہوتے اکثر اوقات مجھے سرکاری ملاقاتوں میں ترجمے اور انتظام کا فرض ادا کرنا ہوتا۔ مجھے حیرت ہوتی کہ ہمارے لیڈر میزبان ملک کے بارے میں بہت
کمزور معلومات رکھتے۔ بات تاجکستان میں ہو رہی ہوتی تو نام از بکستان کے شہروں کالے رہے ہوتے۔ اس طرح دیگر معاملات میں بھی یہ ہی حال ہوتا ۔ راقم اپنی طرف سے توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا لیکن کہیں نہ کہیں ہم پکڑے جاتے ۔ خیر اس زمانے میں وسطی ایشیا کے بارے میں ہمارے صحافی حضرات ، افسران اور لیڈران بھی کہیں نہ کہیں پی ٹی وی پر اُلٹا سیدھا نام لے ہی لیتے۔
شروع میں تو میں تصیح کرنے کی کوشش کرتا لیکن بعد میں میں عادی ہو گیا اور بڑے لوگوں کو ان کے حال پر ہی چھوڑ دیا کیونکہ طوطی کی آواز پر کوئی بھی کان نہ دھرتا ۔ اب زمانہ آگے بڑھ گیا ہے اور سفارتی علم بھی ترقی کر رہا ہے۔ وہ وقت ایسا ہی تھا ۔ وسطی ایشیا کے وزیر وغیرہ اپنے اپنے میدان ہائے علم میں پی ایچ ڈی تک علم رکھتے جبکہ ہمارے وزرا اس معاملے میں کمزور ہوتے ، لہٰذا زیرِبحث موضوع کی گہرائی میں جاتے تو ہمارے لوگ بحث کو جلد ختم کرنے کی کوشش کرتے، جبکہ میزبان وزراء زیادہ گہرائی سے بات کرنا چاہتے ۔ بعض اوقات تو وزیر صاحب، سیکرٹری صاحب، وہ اپنے سے نیچے اور وہ مزید نیچے والے افسر سے پوچھ رہے ہوتے ، یوں زیرِ بحث موضوع اسی طوالتِ انتظارِ علم میں غائب ہو جاتا۔
زمانہ یقیناً آگے بڑھ گیا ہے۔ اب ہمارے سفارت کا راہم فرائض سے اچھی طرح نپٹ رہے ہیں اور وہ پاکستانی لوگ جو یہاں تاشقند و سمرقند، بخارا و فیدا اور باہر کے وطن فرغانہ وادی
میں کام کر رہے ہیں وہ نہ صرف اپنے وطن کی محبت سے سرشار ہیں بلکہ میزبان ملک سے بھی گہری محبت رکھتے ہیں یہاں کوئی ایسا جھگڑا نہیں جو کہ دوسرے ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں
میں نظر آتا ہے۔ یہاں سب پاکستانی اپنے اپنے انداز میں خدمت وطن میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب. شفقت علی شیخ صاحب یہاں سفیر اول تھے جب از بکستان کے مشہور اردودان
و شاعر محمد جانوف کو جنہیں ہم سب استاد جی کہتے تھے پاکستان کی طرف سے ان کی اردو کے لئے خدمات کے لیے ستارہ امتیاز دیا گیا ۔ جو کہ ان کی موت کے بعد ان کی بیٹی سیارہ نے وصول کیا ۔ استاد جی کا پورا نام تو رحمان بردی محمد جانوف تھا لیکن استاد جی کہنا ہی کافی تھا۔ ہر شخص یہ جانتا تھا کہ وسطی ایشیا میں اردو کا ستون عظیم تریہی دھان پان ، اونچا لمبا شخص ہے ۔بیٹی کا نام سیاره محمد جانووا تھا۔ آصف علی زرداری جب صدر بن گئے توان کے ہاتھوں سے پاکستان کا دو سرا ستارہ امتیاز پروفیسر طاش مرزا المرزائیت کو دیا گیا۔ پرو فیسرصاحب کو ازبکستان میں پاکستانی اور پاکستان میں از بک سمجھا جاتا ہے اور یہ ان کی اردو زبان کی خدمات کے لئے ہے۔ انہوں نے کئی کتابیں اور اردو روسی لغات بھی تیار کی ۔ اسوقت وسطی ایشیا میں ہر طرف ان کے شاگرد گھوم پھر رہے اور اردو کا نام روشن کر رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے تیسرا ستارہ امتیاز ہمارے موجودہ سفیر پاکستان کے ہاتھوں سے تاشقند اورینٹل انسٹی ٹیوٹ کی اردو کی پر وفیسر مہیا خانم کو دیا گیا ۔
اردو کے بارے میں ایک نئی پیش رفت بھی ہوتی ہے۔
تاشقند میں از بک اردو دانوں اور مقامی پاکستانیوں کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک دوستی کی ادبی انجمن کی تشکیل کی گئی۔ در اصل یہ ایک میڈیا پلیٹ فارم ہوگا۔ جس میں دنیا بھر کی خبریں اردو میں نشر ہوں گی ۔ تاشقند اردو کے چئیرمین ذبیح اللہ بلگن جبکہ صدر راشد محمود ہونگے۔ اِس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ذبیح الله بلگن نے کہا۔ “ہم تاشقند اردو میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا بھر میں موجود تئیس کروڑ اردو بولنے والوں تک از بکسان اور پاکستان کا مثبت چہرہ اور تعارف کرائیں گے انہوں نے کہا کہ
تا شقند ارد و جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اور انتہائی پیشہ ور ماہرین کی ٹیم کے ساتھ میدان صحافت میں اترا ہے۔ بہت جلد اس سروس کا باقاعدہ آغاز کر دیا جائے گا ۔ ہم پاکستانی
صحافیوں کو ازبکستان اور از بک صحافیوں کو پاکستان کے دور ے کر وائیں گے تاکہ دونوں ممالک کے لوگوں کو قریب آنے کے مواقع ملیں۔ تاشقند اردو کے صدر راشد محمود نے کہا از بکستان میں بہت کمی محسوس کی جا رہی تھی کہ اردو کمیونٹی کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور ازبکستان
کی خبریں دنیا بھر کے اردو بولنے والوں تک رسائی حاصل کریں ۔
ہم نے تاشقند اردو کی بنیاد رکھ کر یہ خواب سچ کرنے کی کوشش کی ہے اس موقع پر دینی شرف مرزائیوف نے کہاہم از بکستان میں تاشقند اردو کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ہم مقامی اردو دان آپ کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ تاشقند اردو کا اجرا بہت خوش آئند ہے ۔ تاشقند اردو کے اجرا کے موقع پر پاکستانی فوڈ ڈنر حاضرین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ یہ ڈنر ٹاٹا ہوٹل کے ریستوران راج کپور میں منظم کیا گیا۔
ڈنر میں پاکستانی دوستوں کے ساتھ ساتھ پروفیسر شرف مرزائیوف، پروفیسر بختیار، پروفیسر امید ، پروفیسر مغیرہ پر وفیسر ناظمہ اور پروفیسر کبیدہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ایک لمبے عرصہ کے بعد ذبیح الله بلگن اور راشد محمود کی کوششوں نے اردو کو تاشقند میں ایک نیا جنم دیا ہے۔ یہ کوشش قابل تعریف ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ سفارتخانہ پاکستان بھی ان حضرات کی اس ادبی و صحافتی کاوش میں حوصلہ افزائی کرے گا ۔ ماضی بعید یعنی سوویت دورمیں از بکستان سے اردو کتا بیں نیز اردو رسالے بھی شائع ہوتے تھے۔ ریڈیو تاشقند سے اردو سروس بھی جاری تھی اور اردو سکھانے والے چار سکول بھی تھے۔ لیکن صرف چند پاکستانی تھے ۔ راقم اور میری زوجہ ہم اردو ادارے میں کام کرتے تھے اور اردو کو روشناس کرنے کی اپنی سی کاوش کرتے تھے۔