نفاق اور انفاق

قیام پاکستان کے وقت ہمارے باپ دادا کے درمیان کسی قسم کی منافرت یا عداوت نہیں تھی ، ان کے ہاتھوں میں اسلامیت اور پاکستانیت کے پرچم تھے جبکہ ہر کسی کا دل پاکستان کیلئے دھڑکتا تھا۔ ہر کوئی آزادی کیلئے جدو جہد کو سعادت بلکہ عبادت سمجھتا تھا۔ مسلمانان ہند کے درمیان مثالی اتحاد نے جہاد کا کام کیا اور ان کے مد مقابل دشمن مرعوب بلکہ مغلوب ہوتے چلے گئے ۔ ہمارے عظیم قائد کی قیادت میں ہر رنگ کے لوگ تحریک میں متحرک تھے ، ان کی بولیاں ” مختلف تھیں لیکن یہ ” ٹولیاں” تحریک پاکستان کا ہر اول دستہ تھیں۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ یہ نعرہ مستانہ زبان زدعام تھا، اس عہد کے افراد کو عہدوں سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ غلامی کی بیٹریاں توڑنے اور دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان بنانے کا جنون ان کے خون میں شامل تھا۔ جس کو انگلش زبان کی سمجھ نہیں تھی وہ بھی قائد کا ہر خطاب بخوبی سمجھتا تھا۔ قائد کی صورت میں سود و زیاں سے بے نیاز سنجیدہ ، زیرک اور تخلص قیادت نے منتشر ہجوم کو بھی ایک منظم قوم بنا دیا تھا، تحریک پاکستان کی روشن تاریخ اس بات کی شاہد ہے۔

حضرت محمد اقبال، حضرت محمد علی جناح اور مادر ملت فاطمہ جناح نے اپنے اپنے منفرد انداز سے ہمارے بڑوں کو اتحاد و یکجہتی کا جو بیش قیمت نصاب دیا تھا اس نے تحریک قیام پاکستان کو خوب سیراب کرتے ہوئے اس اجتماعی خواب کو شرمندہ تعبیر کر دیا۔ مخلص و مد بر فاطمہ جناح ہمارے قائد کی ” ہمشیر ” اور ” مشیر ” تھیں، فاطمہ جناح کی قیادت میں قیام پاکستان کیلئے خواتین کا کلیدی کردار پاکستانیوں کیلئے سرمایہ افتخار ہے۔ قائد کے افکار کا جو قاعدہ ہمارے بڑوں کو از بر تھا وہ بدقسمتی سے ہم نے فراموش اور ایک دوسرے کو خاموش کر دیا، یاد رکھیں قائد کی وصیت ” اور ہر ایک ” نصیحت” میں پاکستان کے استحکام اور دوام کا راز پنہاں ہے۔

عہد حاضر میں ہمارے زیادہ تر سیاسی بونوں کو قیام پاکستان کا نظریہ اور فلسفہ تک یاد نہیں، انہیں بے سروپا باتوں اور ایک دوسرے کی غیبتوں کے سوا کچھ نہیں آتا۔ بڑی بڑی ڈینگیں مارنیوالے بااختیار شعبدہ باز شب و روز پاکستان اور پاکستانیوں کو نوچ رہے ہیں۔ اگر مختلف نظریات پر کار بند سیاستدان اپنے درمیان کئی دہائیوں سے جاری شدید نفرت کا تابوت عارضی طور پر سمندر برد کرتے ہوئے محض احتساب سے بچاؤ یا پھر ” ونڈ کھاؤ کھنڈ کھاؤ” کی بنیاد پر اقتدار کیلئے آپس میں اتحاد کر سکتے ہیں تو پھر عوام کو ایک قومی ایجنڈے پر متفق اور متحد کیوں نہیں کیا جاتا۔ میں وثوق سے کہتا ہوں قائد کے افکار سے انحراف کر نیوالے تعمیر ریاست اور تعمیری سیاست میں اپنا کوئی مثبت کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اگر پاکستان کے پہاڑوں پر دندناتے مٹھی بھر گمراہ عناصر بات چیت سے راہ راست پر نہیں آتے تو اس صورت میں ریاست ان کیخلاف راست اقدام یقینی بنائے۔ کوئی گمراہ فرد چند کوڑیوں کے عوض اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر ہمارے ہم وطنوں کی جان لے یہ ہمیں ہرگز گوار انہیں۔ یادرکھیں سات دہائیاں قبل جوانتہا پسند ہندو اوران کے ہم خیال قیام پاکستان کے دشمن تھے آج ان کی باقیات استحکام پاکستان کی دشمن ہیں، وقفہ وقفہ سے بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں ہونیوالی دہشت گردی کو کچلنا صرف پاک فوج نہیں ہم پاکستانیوں کا بھی فرض ہے۔ ہمارے لوگ ملک سے دہشت گردی کا روگ مٹانے کیلئے پاک فوج کا بھر پور ساتھ جبکہ اپنی محافظ اور محبوب افواج کیخلاف ہر کسی کا منفی پروپیگنڈا مسترد کر دیں۔ دشمن ایک طرف بزدلی سے ہم پر وار کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے وظیفہ خور منفی پروپیگنڈا سے ہمارے درمیان نفاق پیدا کرتے ہیں۔ یاد رکھیں صوبائیت اور منافرت ہماری ریاست اور قومی حمیت کیلئے زہر قاتل ہے۔ دشمن اور اس کے گمراہ سہولت کار پاکستان اور پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں لیکن ہمارے میڈیا کا رویہ دیکھیں جو کہتا ہے، دہشت گردوں نے سات پنجابیوں کو ماردیا”۔

مہذب معاشروں میں کسی انسان کو دوسرے انسان کو جان سے مارنے کی اجازت جبکہ کسی قاتل کو رعایت نہیں دی جاسکتی لیکن کیا چاروں صوبوں میں مقامی لوگ ایک دوسرے کا باہمی دیرینہ دشمنی کے نام پرقتل عام نہیں کرتے ، کیا ان کا یہ اقدام دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔ کیا ہمیں قیام پاکستان کے بعد ہمارے باپ دادا کی ہجرت یاد نہیں ، اس ہجرت کے دوران بھی بدترین قتل عام ہوا تھا اور اس میں بھی پاکستانیوں کو شہید کیا گیا تھا۔ خونیں ہجرت کے دوران کسی کا رنگ یا اس کی زبان دیکھتے ہوئے اس پر رحم نہیں کیا گیا تھا۔ دشمن شروع دن سے ہم پاکستانیوں کو مار رہا ہے جبکہ ہم نفاق ، نفرت ، منافرت اور صوبائیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ہمارے ہم وطنوں اور زیادہ تر واقعات میں ایک ہی خاندان کے درمیان دیرینہ دشمنی کی آڑ میں جب دونوں طرف سے کئی کئی لوگ مارے جاتے ہیں تو اس وقت صوبائیت یا ان کی مادری زبان کا نام کیوں نہیں لیا جاتا لیکن اگر دشمن ریاست کے سپانسرڈ دہشت گرد ہمارے ہم وطنوں کو شہید کر دیں تو ہم اس پر فوری صوبائیت کی مہر ثبت اور ڈھٹائی سے پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں ۔ قیام پاکستان سے اب تک مختلف محاذوں پر ہمارے ہزاروں فوجی جانبازوں نے جام شہادت نوش کیا لیکن ان میں کس شہید کا تعلق کس صوبہ سے تھا اس کا ڈھنڈور انہیں پیٹا گیا۔

پاکستانیوں نے بحیثیت قوم پاکستان کو اپنے خون سے سینچا ہے لہذاء اتحاد ویکجہتی کی سچائی اور اس کے ثمرات کو یا درکھیں جبکہ ہر سطح پر نفاق اور منافرت سے گریز کریں کیونکہ ہمارا دشمن ہمارے درمیان دراڑ پیدا کرتے ہوئے ہمیں تقسیم اور کمزور کرنا چاہتا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں صوبائیت اور منافرت کی بنیاد پر باہمی نفرت اور عدم برداشت ہر قسم کی دہشت گردی سے بڑی دہشت گردی ہے۔ دہشت گرد پاکستان اور پاکستانیوں کے دشمن ہیں، وہ کسی صوبہ اور وہاں مقیم پاکستانیوں کے دوست نہیں۔ جس طرح یہود و ہنود اور نصاری اسلام پر منظم حملے کرتے ہیں ، وہ ہمارے مسلک کی بنیاد پر ہم میں سے کسی پر رحم نہیں کرتے۔ اس طرح پاکستان کا کوئی دشمن پاکستانیوں کے ساتھ صوبائیت کی بنیاد پر ہاتھ ہلکا نہیں رکھتا۔ اللہ نہ کرے اگر پاکستان میں عدم استحکام پیدا ہوا تو اس سے ہمارا ہر ہم وطن براہ راست متاثر ہوگا لہذاء اگر پاکستان کے چاروں صوبوں میں کسی بھی مقام پر دہشت گردی ہوتی ہے تو شہیدوں کا ان کے صوبوں کی بنیاد پر نام لیا جانا ہرگز دانائی نہیں۔ ہماری ریاست، سیاست اور صحافت صوبائیت کی بنیاد پر باہمی تعصبات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یادرکھیں بلوچستان کا دشمن یقین باقی پاکستانیوں کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔

بلوچستان میں ہونیوالی حالیہ دہشت گردی کے بعد میڈ یا پر پنجابیوں کو ناحق مارا گیا کی بحث فوری بند کی جائے کیونکہ دہشت گردوں نے بیگناہ پاکستانیوں کو مارا ہے ، اس قسم کی منفی بحث میں شریک افراد ہماری دشمن ریاست سمیت اس کے سہولت کار دہشت گردوں کا کام آسان کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ہر شہری کا ناحق قتل قابل مذمت اور اس کا قاتل قابل گرفت ہے۔ ہم پاکستان اور پاکستانیوں کا صوبائیت یا منافرت کی بنیاد پر بٹوارہ نہیں کریں گے کیونکہ یہ ہمارے دشمن کا ایجنڈا ہے۔ دنیا میں ہمیں صوبائیت نہیں پاکستانیت کی بنیاد پر شناخت کیا جاتا ہے۔ جہاں پاکستان کے قومی مفاد، وقار اور قومی حمیت کی بات ہو وہاں ” برادری” کارڈ استعمال کرنا ہرگز ” برد باری” نہیں۔

اسلام کا مفہوم امن اور سلامتی ہے، اسلام اعتدال پسندی کا داعی ، انتہا پسندی کا حامی نہیں تاہم غزہ اور مقبوضہ کشمیر کی طرح جہاں بھی بیگناہ مسلمانوں کو ناحق مارا جائے گا وہاں اسلام انتقام کی اجازت دیتا ہے۔ کوئی مسلمان شدت پسند اور کوئی شر پسند مسلمان نہیں ہوسکتا۔ پہاڑوں پر جانیوالے گمراہ عناصر کا اسلامیت اور پاکستانیت سےکوئی تعلق نہیں لہذاء کوئی ان کے گناہوں کا ملبہ بلوچستان یا پاکستان پر نہیں گراسکتا۔ پاکستان میں دندناتے دہشت گردوں کی ڈوریاں ایل اوسی کے اس پار سے بلتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں، جب پنجاب میں دہشت گردی کے نتیجہ میں ہمارے مقامی لوگ شہید ہوتے ہیں تو چھ پنجابی شہید” یہ نہیں کہا جاتا۔ اس طرح سندھ، بلوچستان اور خیبر پختو نخوا میں دہشت گرد پاکستانیوں کو شہید کر دیں تو ان شہیدوں کی قومیت نہیں بتائی جاتی لہذاء میڈیا کے مخصوص افراد محض عوام کا دھیان کھینچنے کی نیت سے وقتی بہیجان پیدا کرنے کیلئے پاکستانیت کے سینے میں صوبائیت اور منافرت کا خنجر پیوست کرنا بند کر دیں۔ منافرت ،صوبائیت اور تعصبات کو ہوا دینا ملک دشمنی کے سوا کچھ نہیں ۔ یاد رکھیں ہمارے بزدل دشمن کیلئے ہم پاکستانیوں میں کوئی فرق نہیں ہے تو پھر ہم کیوں اتفاق اور “وفاق ” کا دامن چھوڑ کر “نفاق” کا تاریک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر بحیثیت قوم ہم اجتماعی کامیابی وکامرانی کیلئے ” اسلام ” اور “اسلام آباد کو اپنی عقیدتوں اور اپنے عقیدوں کا محور و مرکز بنائے رکھیں تو ہزاروں ملعون “مودی ” بھی ہماری ” نابودی ” میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اسلام نے ہمیں “نفاق” سے بیزاری اور “انفاق ” کی پاسداری کا درس دیا ہے۔ آپ کی جو لفاظی دوسروں کا وجود چھلنی کر دے وہ ہر گز استعمال نہ کریں۔ جو ” اسلام ” اور “اسلام آباد” کی مضبوطی کے خواہاں ہیں وہ ہر سطح پر اسلامیت، انسانیت اور پاکستانیت کو فروغ دیں۔ ہر کسی کیلئے اس کی ” برادری” اہم ہے لیکن اس وقت ہمیں ” بردباری” اور قومی رواداری کا علم بلند کرنا ہوگا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں