چائے خانہ آج پھر گرم ہے۔ بھاپ اٹھ رہی ہے، مگر ذائقہ بدل گیا ہے تلخی زیادہ، مٹھاس کم، اور ہر کپ میں سیاست کی کڑواہٹ گھلی ہوئی۔ یہاں بحث وہی ہے جو پارلیمان کے ایوانوں میں دبی پڑی ہے، ترمیمیں، سودے اور طاقت کے نئے کھیل۔
ستائیسویں ترمیم کا پاؤڈر اس زور سے گھولا جا رہا ہے جیسے عوامی مرضی کوئی اضافی جزو ہو۔ طاقتور حلقے اسے “اصلاح” کہہ کر پیش کر رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا چولہا بند ہو چکا ہے، اور عوام کا ایندھن روز بروز ختم ہو رہا ہے۔
پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کی سیاست آئین شکن سمجھوتوں کی علامت بن چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ طاقتوروں کی سہولت کاری کے لیے دستیاب پائے گئے، اور پیپلزپارٹی کے رہنما مفاہمت کے نام پر اصول بیچتے رہے۔ رہی بات مسلم لیگ (ن) کی تو اس کے جمہوریت والے دعوے اب محض ماضی کی بازگشت رہ گئے ہیں ۔اقتدار کے لالچ نے اسے جمہوریت شکنوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔
ادھر پنجاب کی فضا میں وکلاء نے نیا طوفان برپا کیا۔ پنجاب بار کونسل کے حالیہ انتخابات میں لاہور ڈویژن، خصوصاً قصور سیٹ پر سردار نبی احمد ایڈووکیٹ نے ریکارڈ ووٹ لے کر وہ تاریخ رقم کی جس نے طاقتور حلقوں کو چونکا دیا۔
پنجاب بھر میں ریکارڈ ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے نبی احمد نے نہ صرف ملک برادران کی سیاست کا قہوہ پینے کے قابل نہیں چھوڑا،
بلکہ یہ پیغام بھی دے دیا کہ وکلا برادری اب کسی طاقتور ڈھانچے کے سامنے چائے کی چمچ بن کر نہیں بیٹھے گی۔ ینگ وکلاء اور تحریک انصاف کے حامیوں نے ثابت کر دیا کہ اب فیصلے صرف فائلوں میں نہیں، شعور کے چہروں پر لکھے جا رہے ہیں۔
مگر اس منظر کے ساتھ ایک اور آئینہ بھی ہے ۔خیبر پختونخواہ کی حکومت۔ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد اپنی جگہ درست، مگر عوامی فلاح کے بنیادی کاموں پر دوہری توجہ نہ دی گئی تو یہ تبدیلی نعرے تک محدود رہ جائے گی۔ اسکول، صحت، روزگار اور انصاف جیسے شعبوں پر فوکس نہ بڑھایا گیا تو نئی نسل کا اعتماد بھی کمزور ہو گا۔
قصور ضلع کی سیاست اور افسر شاہی کا حال بھی مختلف نہیں۔ کوآرڈینیشن کمیٹیاں اکثر فیصلوں کے بجائے تصویروں کا مرکز بن چکی ہیں۔ اجلاس، مراسلے اور نوٹس تو موجود ہیں، تحصیل کوٹ رادھا کشن کا تو اللہ حافظ ہے ،مگر زمین پر عمل کا پتہ نہیں چلتا۔ افسروں کے قلم اب تبدیلی نہیں، تسلسل کے ضامن بن گئے ہیں۔ عوام کے مسائل فائلوں میں دفن ہیں، اور انتظامیہ اپنی کارکردگی کے خول میں بند۔
اسی بے حسی کے خلاف قلم اٹھتا ہے، اور چائے خانہ گواہ بنتا ہے کہ لفظ ابھی زندہ ہیں۔ اگر طاقتور حلقے قانونی دلدل میں غرق بھی ہو جائیں، تو بھی میری قلم بند نہیں ہوگی۔ میں الفاظ کے تھپڑ ماروں گا، تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے سچائی کی کرنوں کو برداشت نہ کر سکیں۔
یہ چائے خانہ تلخ ضرور ہے مگر جھوٹ کی مٹھاس سے کہیں بہتر۔ یہاں ہر گھونٹ میں سچائی کا ذائقہ ہے وہی ذائقہ جو جمہوریت شکنوں کے حلق میں نہیں اترتا