اسرائیل کے شمالی شہر حائفہ میں ایک 13 سالہ بچے یائر وٹسن کو سیر کے دوران ایک سبز رنگ کی چھوٹی سی شے ملی جو بظاہر زنگ آلود پیچ لگ رہی تھی، لیکن غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک قدیم انگوٹھی ہے۔ گھر جا کر جب اسے صاف کیا گیا تو اس پر ایک تصویر بھی دکھائی دی، جس پر بچے نے پہلے پہل یہ گمان کیا کہ شاید یہ کسی جنگجو کی شبیہ ہے۔ بعد ازاں یائر اور اس کے والدین نے اسرائیلی اینٹیک اتھارٹی سے رابطہ کیا، جہاں ماہرین نے اس کا تفصیلی جائزہ لیا۔
تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ کانسی کی انگوٹھی دوسری یا تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے، یعنی اس وقت سے جب اسرائیل کا موجودہ علاقہ رومی سلطنت کے تحت “شام فلسطینہ” صوبے کا حصہ تھا۔ انگوٹھی پر جس تصویر کو جنگجو سمجھا گیا، وہ دراصل رومی دیومالائی کہانیوں کی دیوی “مِنیروا” تھی، جو یونانی دیومالا میں “ایتھینا” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس تصویر میں دیوی کے ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں نیزا دکھایا گیا ہے، جو اس کے جنگ، حکمت اور حفاظت کے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انگوٹھی نہ صرف نایاب ہے بلکہ اس دور کی ثقافت، عقائد اور فنکارانہ مہارت کا نمونہ بھی ہے۔ ایسی اشیاء عام طور پر تعویذ یا تحفظ کی علامت کے طور پر پہنی جاتی تھیں اور ممکن ہے کہ یہ انگوٹھی کسی معزز یا اہم فرد کی ملکیت رہی ہو۔ یہ دریافت نہ صرف آثارِ قدیمہ کے لیے اہم ہے بلکہ ایک بچے کی دلچسپی اور ہوشیاری کا بھی ثبوت ہے جس نے ایک تاریخی خزانے کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔