مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے چند بہترین لکھاریوں میں سے ہیں، انہوں نے جس قدر تنوع سے لکھا، اس کی کم ہی مثال ملتی ہے۔ سفرنامے، ناول ، افسانے ، کالم، خاکے اور پھر اردو کے ساتھ پنجابی میں بھی ناول ، تحریریں۔ تارڑ صاحب کی گفتگو بھی شاندار ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ گزری ایک طویل نشست کی تفصیل “ان کی کہانی ان کی زبانی” کے انداز میں لکھی ہے۔ اس کا ایک حصہ تاشقند اردو میں دو دن قبل شائع ہوا۔ اس کا لنک بھی موجود ہےجبکہ دوسرا حصہ جس میں تارڑ صاحب نے اپنے اوپر کئے گئے اعتراضات کا جواب تفصیل سے دیا ، وہ آج کی نشست میں تاشقند اردو کے قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔
میری تحریروں پر ہونےوالے بعض اعتراضات
پچھلے بیس تیس برسوں میں کئی لوگوں نے ایک بڑا اعتراض یہ کیا ہے کہ میری تحریروں میں پنجابی رنگ غالب ہے۔
دیکھیں میں بہت ہی نالائق ہوں گا کہ اگر میری تحریروں میں پنجابی رنگ نہ جھلکے۔میں تو اس دن خودکشی کر لوں گا جب مجھے کوئی یہ کہے کہ جناب آپ کی تحریروں سے تو لگتا تھا کہ آپ کوئی دہلوی یا لکھنوی ہیں۔پنجابی میری مادری زبان ہے،مگر میں اردو میں لکھتا ہوں،بلکہ آپ دیکھیں کہ اردو کے نثر نگاروں میں بہت سے ایسے ہیں جن کی مادری زبان پنجابی ہے،مگر انہوں نے اردو کو اپنا اظہار بنایا۔ اصل وجہ یہ ہے کہ میرے بیشتر کردار پنجابی ہوتے ہیں تو ظاہر ہے وہ لکھنو والی اردو بولنے سے تو رہے۔یہ میں واضح کر دوں کہ میں ایک خالص پنجابی توہوں مگر متعصب ہرگز نہیں۔
میرے اوپر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ آپ خاصے خودپسند ہیں؟ یہ درست ہے کہ میں خودپسند ہوں۔میں اپنی کسی چیز کے بارے میں خواہ مخواہ کسر نفسی سے کام نہیں لیتا۔میں کہہ دیتا ہوں کہ ہاں میں نے یہ اچھی لکھی ہے۔اسے لوگ خود پسندی کہتے ہیں۔دوسرا یہ کہ میں عام طور پر لوگوں سے ایک خاص فاصلے سے ملتا ہوں۔خاص کر کچھ عرصے سے یا میں بے وقوف ہوگیا ہوں یا لوگ مجھے بے وقوف سے لگنے لگے ہیں۔میں ان کی کمپنی انجوائے نہیں کرتا،میں ادبی محفلوں میں جاتاہوں تو لایعنی گفتگو سن کر بور ہو جاتا ہوں۔اسے بھی خود پسندی کہہ لیا جاتا ہے۔تاہم مجھ میں تکبر بالکل نہیں۔
میرے خیال میں ادیب کے لیے کسی خاص محرک یا ماحول ضروری نہیں۔ ادیب کے اندر ایک چنگاری ہوتی ہے جو خودبخود بھی بھڑک سکتی ہے۔ادیب کو کسی بیرونی چنگاری کی ضرورت نہیں۔میں نے نکلے تیری تلاش میں،خانہ بدوش، دیس ہوئے پردیس اورپیار کا پہلا شہراپنی گوالمنڈی کی دکان پر بیٹھ کر لکھے جہاں دنیا میں شاید سب سے زیادہ شورہوتاہے،گرمی اور دھول اس کے علاوہ ہے۔اب مجھے ایرکنڈیشنڈ کمرے میں سٹڈی ٹیبل پر لکھنے کی عادت ہوگئی تو میں اس طرح لکھ رہا ہوں۔ایک حقیقی ادیب کے لیے یہ سب بے معنی چیزیں ہوتی ہیں۔
مزاحمتی ادب نہ لکھنے کا الزام
کہا جاتا ہے کہ آپ نے بطور ادیب کوئی مزاحمتی کردار ادا نہیں کیا۔پہلے تو میں یہ کہہ دوں کہ میں کسی کو جواب دہ نہیں ہوں،کیونکہ میں کسی سیاسی جماعت کا رکن ہوں نہ میں نے کبھی انقلابی ہونے کادعویٰ کیا ہے۔اس کے باوجود اگر کوئی میری تحریروں کو غور سے پڑھے گا تو اسے ان میں مزاحمت نظر آئے گی۔جنرل ضیا کے عہد میں ایک سال تک میں ٹی وی پر بین رہا تھا۔میں نے افسانہ بابا بگلوس لکھا تو چھ ماہ تک میرے پیچھے سی آئی ڈی لگی رہی۔میری ساری کہانیوں اور کالموں میں مزاحمتی کردار نظر آئے گا،مگر مجھے اپنا مزاحمتی امیج بنانے کا کوئی شوق نہیں۔
اردو ادیب اور نوبیل انعام
اردو کے کسی ادیب کو ابھی تک نوبیل پرائز نہیں ملا،اگرچہ میرٹ پر ہمارے کئی ادیب آتے ہیں۔ اگر فیصلہ میرٹ پر کیا جائے تو قرتہ العین حیدر کو لازماً نوبیل پرائز ملنا چاہیے۔شفیق الرحمنٰ بھی اس کے مستحق تھے۔مشتاق احمد یوسفی کو بھی نوبیل پرائز ملنا چاہیے۔دراصل بنیادی طور پر ہمارا معاشرہ تخلیق دشمن ہے،یہاں ادب،اداکاری اور موسیقی کو برداشت نہیں کیا جاتا نہ اسے توقیر دی جاتی ہے۔اس کے باوجود اتنے بڑے لکھنے والے یہاں پیدا ہوئے ہیں۔
نوبیل انعام کی بات ہوئی تو ایک اور پاکستانی کا نام بھی اس میں آنا چاہیے تھا۔عبدالستار ایدھی۔ ایدھی صاحب قائداعظم کے بعدمیری پسندیدہ شخصیت تھے۔انہیں نوبیل انعام ملنا چاہیے،مگر حکومتیں ان کی مخالف ہی رہیں،اس لیے کچھ نہیں ہو سکا۔
کیا اردو زبان مر رہی ہے؟
اردو زبان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ مر رہی ہے۔
ویسے سچ تو یہ ہے کہ اس میں علامات وہ تمام موجود ہیں جو ایک دم توڑتی زبان میں ہوتی ہیں،اب یہ مرتی ہے یا نہیں یہ تو تاریخ کا ایک عمل ہوتا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ میری زندگی تک تو کم ازکم نہیں مرے گی،یعنی یہ عمل اتنا قریب بھی نہیں۔
یہ سوال بھی اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کہ آئندہ زمانے میں کون سا مستنصر تارڑ زندہ رہے گا، سفرنامہ نگار یا ناول نگار؟
میں یہی جواب دیتا ہوں کہ عین ممکن ہے کہ کوئی بھی زندہ نہ رہے۔دراصل پچھلے ڈیڑھ سوبرسوں میں ہزاروں فکشن رائٹر اور شاعر آئے،مگر انہیں آج کوئی بھی نہیں جانتا۔میری خواہش البتہ یہ ہے کہ میرا ایک دو سفرنامے اور ایک دو ناول زندہ رہ جائیں۔
رومانٹک ازم
میرے اکثر قاری یہ کہتے ہیں کہ آپ کی تحریروں میں زبردست قسم کا رومانٹک ازم پایا جاتا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں ایک رومانٹک آدمی ہوں۔حسن میرے اوپر زبردست اثر ڈالتاہے،ابھی تک۔میں پریکٹیکل آدمی بھی نہیں ہوں۔دلکش چہرے،حسین منظر،اچھی غزل اور توانا گھوڑے میرے اوپر ناقابل بیان اثر ڈالتے ہیں، میں ان سے انسپائر ہوتا ہوں۔
گھوڑوں کے معاملے میں میری پسند رنجیت سنگھ جیسی ہے۔اس نے ایک جنگ ایک گھوڑا حاصل کرنے کے لیے لڑی تھی۔محبت کا مجھ پر بہت اثر ہوتا ہے۔میرے ناول ”قربت مرگ میں محبت“کے اندر میں نے محبت کی شدت دکھانے کی کوشش کی ہے۔
میرے خیال میں عشق کرنا بھی غلط اصطلاح ہے،اس سے یہ مکنیکل سا عمل لگتا ہے۔عشق میں تو بالکل پتہ نہیں چلتا کہ کیا ہورہا ہے۔بسا اوقات ایک خاتون برسوں سے آپ کے اردگرد ہوتی ہے،مگر ایک خاص لمحے میں آپ کے اندر اس کے حصول کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔اس حوالے سے ذہنی مطابقت ہونے کا بھی کوئی تصور نہیں۔
روحانیت، مذہب
مجھے روحانیت سے اس طرح کی وابستگی یا دلچسپی تو نہیں مگر مجھے روحانیت کے کچھ پہلو ضرور اچھے لگتے ہیں۔مجھے صوفی پسند ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ میرے اندر نفسانی اور جنسی خواہشیں اتنی شدید ہیں کہ میں صوفی نہیں بن سکتا۔ میں زیادہ مذہبی آدمی نہیں،مگر مجھے حضورﷺ سے عشق ہے۔میں ان کاتذکرہ آبدیدہ ہوئے بغیر کر ہی نہیں سکتا۔مجھے خانہ کعبہ میں کچھ نہیں ہوا۔روضہ نبویﷺ میں برا حال ہوگیا۔یہی عشق ہی میرا سرمایہ حیات ہے۔
موسیقی سے تعلق
میں نے نوجوانی میں انگلینڈ سے بال روم ڈانسنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا تھا، پھر موسیقی سننی شروع کی۔راک اینڈ رول سے جاز تک اور پھر یورپی کلاسیکل موسیقی تک آیا۔ بیتھوون، موزارٹ وغیرہ بہت پسند آئے۔ مجھے یہ لت شروع سے تھی۔ میں موسیقی کے بارے میں تکنیکی طور پربتا نہیں سکتا مگر میرے اندر کچھ ہوتا ہے اور میں سمجھ جاتا ہوں کہ یہ چیز اوپر سے اتری ہے۔ میں اردو کلاسیکل موسیقی سنتا ہوں۔ غزل بہت اترا کرتی ہے۔
خواجہ خورشید انور سے بڑا موسیقار برصغیر میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ وہ جو موسیقی لائے، وہ پہلے تھی ہی نہیں۔ سلیم رضا مجھے پسند تھے۔ روشن آرا بیگم بے مثال تھیں۔ انہیں سننے والے کو موسیقی سمجھنے یا جاننے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ نور جہاں جیسی بدمعاشی والی پرسوز آواز کسی اور کی ہوئی نہ ہوگی۔ کوئی اور ایسے گا ہی نہیں سکتا۔ استاد فتح علی خان، برکت علی خان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ہمارے بہت سے گلوکار بھارتی گلوکاروں سے بہتر ہیں۔ بھارت میں گیتا دت، ہیمنت کمار، آر ڈی برمن مجھے اچھے لگے ہیں۔ میرے خیال میں غزل کے دو بہت بڑے فنکار سہگل اور استاد امانت علی خان ہیں۔ غزل کا ایک ایک لفظ اتنا واضح اور علیحدہ علیحدہ کوئی اور نہیں گا سکتا۔ مہدی حسن کا میں بہت احترام کرتا ہوں مگر وہ بھی اتنا واضح نہیں گا سکتے۔
میری تحریروں پراعلیٰ ادب، خوبصورت چہروں، مناظر اور فلموں نے بہت اثر کیا ہے۔ ایک اچھی فلم سے مجھے کئی راہیں ملتی ہیں۔بہت پہلے میں نے ایک بار چیک فلموں کا فیسٹیول دیکھا تھا، اس کے کئی مناظر میرے اوپر اب تک وارد ہوتے ہیں۔ برصغیر میں سنجے لیلا بھنسالی سے بڑا ہدایتکار کوئی نہیں ہے۔ ”بلیک“ اس کی غیر معمولی فلم ہے۔ اس میں اس نے رانی مکرجی سے وہ کام لیا کہ امیتابھ بچن جیسا اداکار اس کے قریب بھی نہیں آسکا۔ اوم کارہ بھی بہت اچھی فلم ہے۔ گلزار میرے اچھے دوست ہیں، ان کا کام بہت شاندار ہے۔ ان کی فلم اجازت کئی بار دیکھی، غالب پر ان کی فلم بہت عمدہ ہے۔ کلنٹ ایسٹ وڈ کی فلم ”ملین ڈالر بے بی“ پہلے میں نے نہیں دیکھی، بعد میں دیکھی تو بہت اچھی لگی۔
آخر میں بس اتنا کہ ہمارے بہت سے لکھاریوں کو ناقدری کا گلہ رہتا ہے۔میرا ایسا معاملہ نہیں۔ میرے ساتھ پاکستانی معاشرے نے انصاف کیا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میری اوقات سے بڑھ کر میری پزیرائی کی گئی ہے۔پاکستان نے میری اوقات سے بڑھ کر مجھے دیا ہے۔