“غار حرا میں گزری ایک رات کی تفصیل لکھنے میں چھ ماہ لگے”،مستنصر حسین تارڑ

انٹرویو:

مستنصر حسین تارڑ ایک کمال آدمی ہیں، ان کی کئی جہتیں ہیں، وہ کمال کے فکشن نگار ہیں، اردو ناولوں کا ذکر تارڑ صاحب کے بغیر ممکن نہیں،کوئی بھی غیر جانبدار نقاد اردو کے دس بہترین ناولوں کی فہرست بنائے تو اس میں کم از کم دو سے چار ناول تارڑ صاحب کے شامل کرنا پڑیں گے۔ ان کا ایک بہت اہم اور منفرد ناول بہاؤ ہے، راکھ کو ادبی ایوارڈ ملے، خس وخاشاک زمانے میں جس طرح ایک پوری صدی کے پنجاب اور پنجابیوں کو مقید کیا، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قربت مرگ میں محبت، ڈاکیہ اور جولاہا وغیرہ سب اپنی جگہ اہم ہیں، پنجابی ناول بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ تارڑ اردو کے مقبول ترین سفرنامہ نگار ہیں، یورپ،، امریکہ،ایشیا اورپاکستان کے شمالی علاقوں پر ان کے دو ڈھائی درجن سے زائد سفرنامے شایع ہو چکے ہیں۔ تارڑ صاحب بڑا شگفتہ کالم بھی لکھتے رہے ہیں، ان کے کالموں کے بھی کئی مجموعے شائع ہوئے۔ ٹی وی کے ساتھ بھی ان کا گہرا سمبندھ ہے۔وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں کے مصنف بھی ہیں۔ پی ٹی وی کی صبح کی نشریات کے میزبان کے طور پر بھی انہیں سراہا گیا۔

تارڑ صاحب سے میں نے کئی گھنٹوں پر محیط ایک طویل نشست میں تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ تارڑ صاحب باتوں کے جادوگر ہیں، ان کے سحر سے نکلنا ممکن ہی نہیں۔ میں نے اشفاق احمد کے بعد صرف تارڑ صاحب کی گفتگو میں ایسا جادو پایا۔ اس نشست کو کئی سال گزر گئے، مگر جو باتیں ان سے ہوئیں، وہ آج بھی پہلے کی طرح تروتازہ ہیں۔ اس انٹرویوز کے چند اقتباسات تاشقند اردو کے قارئین کی نذر ہیں۔کوشش کی ہے کہ تارڑ صاحب کی کہانی ان کی اپنی زبانی بیان کی جائے۔ قارئین تاکہ ان کی گفتگو کا چٹخارہ اور چسکہ براہ راست لے سکیں۔

میری سفرنامہ نگاری
میں نے کبھی اپنے کسی سفر کے دوران یہ نہیں سوچا کہ واپس آکر اس کا سفرنامہ لکھنا ہے۔میرے متعدد سفر ایسے ہیں جن کا میں نے سفرنامہ ابھی تک نہیں لکھا۔حقیقت یہ ہے کہ میری پہلی ترجیح آوارہ گردی ہوتی ہے،سفرنامہ اس کے بعد کہیں آتا ہے۔

ویسے سفرنامے میں ایک خوبصورتی یہ ہے کہ آپ کسی جگہ کے سفر کے دوران لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر جب اسے لکھا جاتا ہے تو دوبارہ اس کا تصور کرکے لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔اس سلسلے میں میرا سب سے خوبصورت تجربہ سفرحج کا ہے، میں نے ”غارحرا میں ایک رات“ کے نام سے اس تجربے کی روداد لکھی ہے۔مجھے اس ایک رات کی کیفیت بیان کرنے میں چھ ماہ لگ گئے۔اس کا مطلب ہے کہ چھ ماہ تک میں اسی سفر میں رہا۔یہ سفرنامے کا ایک پلس پوائنٹ ہے۔اسی طرح خانہ کعبہ کا طواف آدھے پونے گھنٹے میں ختم ہوجاتا ہے،مگر اسے لکھنے میں مجھے پندرہ دن لگ گئے،یعنی پندرہ دن میں اسی طواف کی کیفیت میں رہا۔اب یہ بھی ممکن ہے کہ سفر کے وقت بعض لمحات اس قدر خوبصورت یا پرجوش نہ لگیں جتنے اس وقت لگیں جب سفرنامہ نگار ان لمحات کو اپنے اوپر وارد کرتے ہوئے انہیں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

میرے سفرناموں پر اعتراضات
میرے شروع کے(یورپی) سفرناموں پربعض ناقدین خاصے معترض رہے۔اب کم ہوگئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان نقاد حضرات کی یا تو ذہنی بلوغت ہوچکی ہے یا پھر انہیں باہر جانے کے مواقع ملے تو انہیں معلوم ہوا کہ میں نے کچھ غلط نہیں لکھا تھا۔پہلے توانہیں یہ باتیں سمجھ ہی نہیں آتی تھیں۔ویسے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر کسی کے اپنے محسوسات ہوتے ہیں،اب کسی نے خانہ کعبہ میں آنسو بہانے کا ذکر دو سطروں میں کر دیا ہے تو کسی کو وہ تفصیل بیان کرنے میں دو صفحے لگ جایں گے۔

جہاں تک مبالغے کا تعلق ہے، یہ سمجھنا چاہیے کہ سفرنامہ نگار کوئی رپورٹر نہیں ہوتا۔یعنی یہاں ایک چیڑ کا درخت ہے،اس کے ساتھ سات گملے رکھے ہیں،ندی دس فٹ چوڑی ہے …… اسی قسم کی تفصیل رپورٹنگ ہے۔عام طور پر ایسے ہی لکھا جاتا ہے،مگر میں کوئی رپورٹر یا منشی نہیں ہوں۔میرے اوپر دراصل وہ منظر وارد ہوتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ میں چیڑ کے اس درخت کے بالوں کے ساتھ لرزتے بارش کے قطروں میں کوئی عکس دیکھ رہا ہوں۔امام غزالی کا ایک قول ہے کہ درویش جب جنگل میں جاتا ہے تو وہاں کے شجر اور پتھر اس سے کلام کرتے ہیں۔میں اس قول کو سچا سمجھتا ہوں۔میں جب شمالی علاقوں میں جاتا ہوں تو وہاں کے پتھر،برفیلی راستے اور پھول میرے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں۔تو جب تک وہ آپ سے ہم کلام نہ ہوں اور آپ اس کلام کو سمجھیں نہ،آپ اتنا کچھ نہیں لکھ سکتے۔میں اسی وجہ سے اتنی زیادہ کتابیں لکھ سکا ہوں۔کسی منظر کے بارے میں لکھنا کوئی پہلے سے طے شدہ بات نہیں ہوتی۔یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی منظر یا کردار کے بارے میں میں سوچتا ہوں کہ اسے لکھنے میں دس صفحے لگ جایں گے،مگر وہ پانچ سطروں میں ختم ہوجاتا ہے۔

بعض قارئین کا اعتراض رہاہے کہ آپ کے سفرناموں سے ان علاقوں کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ملتی،ان میں گائیڈنس نہیں ہوتی۔اس اعتراض کا سادہ جواب یہ ہے کہ میرے سفرنامے کوئی گائیڈ بکس نہیں ہوتے۔یہ میری زندگی،میرے اوپر بیتنے والی واردات کی کہانی ہے۔ویسے میرا خیال ہے کہ میرے سمجھدار قاری بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فلاں جگہ کتنی دور ہوگی اور وہاں کیسی مشکلات ہوں گی۔

میرے سفرناموں کی زبان خاصی مختلف رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے مطالعے کا جنون رہا۔میں نے عالمی ادب بھی بہت پڑھا۔یوں میری زبان ایک مکسچر سی بن گئی۔جب میں شروع میں لندن سے آیا تھا تو میری انگریزی زیادہ مضبوط تھی،لکھتے وقت ذہن میں پیرے کے پیرے انگریزی میں آتے تھے جنہیں میں اردو میں ترجمہ کر دیتا تھا۔یوں وہ مختلف ہوجاتے تھے۔

دوسرا یہ کہ میں نے اردو باقاعدہ طور پر اساتذہ سے نہیں پڑھی،مجھے گرائمر کا کچھ پتا نہیں۔اسی وجہ سے میں نے کلاسیکی اردو کو اپنا اظہار نہیں بنایا۔میں نے اپنا ذخیرہ الفاظ،اپنی ڈکشن بنائی۔نانگا پربت میں ایک جگہ دو صفحوں کا ایک فقرہ ہے،اور اور کر کے۔اب یہ گرائمر کے لحاظ سے سخت غلط ہے،مگر میرے لیے درست ہے کہ میں وہ منظر اسی طرح بیان کر سکتا تھا۔ میں نے اپنی تحریر میں اردو کے محاورے بھی استعمال نہیں کئے،کیونکہ وہ محاورے میرے جیسے پنجابی کے ساتھ لگا نہیں کھاتے تھے۔مجھے نہیں پتا کہ”نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی“ کہاں ہے،یا ناچ نہ جانے،آنگن ٹیڑھا وغیرہ کیا ہے؟ویسے بھی میرے خیال میں محاورے وہ استعمال کرتے ہیں جو نثر میں اپنی مرضی کا ابلاغ نہیں کر پاتے اور پھر انہیں محاوروں کی بیساکھی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔میری زبان میں پنجابی کی قدرتی آمیزش ہے، یہ میں نے جان بوجھ کے نہیں کی۔میرا دعویٰ ہے کہ میری لکھی ہوئی ایک سطر لاکھوں میں پہچانی جاتی ہے۔

میرے پسندیدہ سفرنامہ نگار
میں نے سفرنامہ لکھنا شروع کیا ہی اس لیے تھا کہ حقیقی معنوں میں سفرنامہ کوئی لکھ ہی نہیں رہا تھا۔ پرانے لوگوں میں یوسف کمبل پوش اور مولانا محمد حسین آزاد کے سفرنامے بہت شاندار تھے۔ابن انشا کو میں اپنا گرو سمجھتا ہوں،مگر وہ سفرنامے نہیں بلکہ مزاح لکھتے تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح شاعری لکھنے کے لیے حس شعری ضروری ہے،اسی طرح سفرنامہ لکھنے کے لیے ایک حس آوارگی کا ہونا ضروری ہے۔اور یہ حس آوارگی دو افراد میں بدرجہ اتم موجود تھی،ایک اشفاق احمد اور دوسرے شفیق الرحمٰن۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ شفیق الرحمٰن کی برساتی دراصل میرے سفرنامے ”نکلے تیری تلاش میں کی ماں ہے۔محمد خالد اختر بھی ایک آوارہ گرد روح والے شخص تھے۔نئے افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر عباس برمانی بہت عمدہ لکھاری ہیں۔وہ بھی ایک آوارہ گرد شخص ہے جو اپنے کلینک کے مریضوں کو چھوڑ کر سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے،اس کی تحریر بھی بڑی اوریجنل اور شاندار ہے۔اسے ”سندھو سائیں“سفرنامہ لکھنے پر میں نے تیار کیا تھا۔ڈاکٹر اقبال ہما کا فیری میڈوزکا سفرنامہ بھی بہت اچھا ہے۔کراچی کی ایک نوجوان خاتون مزملہ شفیق نے اپنی پانچ سہیلیوں کے ساتھ شمالی علاقوں کا سفر کیا اور ایک بہت ہی خوبصورت سفرنامہ تحریر کیا،مگر بدقسمتی سے وہ لائم لائیٹ میں نہیں آسکا ہے۔

میرے ناول
میرے ناولوں کونسبتاً تاخیر سے زیر بحث لایا گیا۔دراصل ایک تو میں اس طرف دیر سے آیا ہوں،پھر میرے شروع کے ناولوں کو سفری ناول ہی سمجھا گیا،پیار کا پہلا شہر،جپسی، دیس ہوئے پردیس وغیرہ۔مجھے شروع میں یہی مسئلہ رہا کہ میرے بعض ناولوں کا پس منظر باہر کا تھا تو ہمارے یہاں کے نقاد اسے فٹ سے سفرنامہ کہہ دیتے تھے۔اب تو بہت سے باہر کے لوگ وہاں کے پس منظر پر ناول لکھتے ہیں،لیکن ان دنوں پاکستان میں صرف میں ایسا کر رہا تھا۔ دیس ہوئے پردیس کو قرتہ العین حیدر جیسی بڑی ادیبہ نے بہت سراہا،مگر پاکستان میں اسے سفرنامہ کہا گیا۔اسی طرح میری ایک بہت مشہور کہانی ”سیاہ آنکھ میں تصویر“کا پس منظر سپین کا ہے،تو اسے بھی سفرنامے کے زمرے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

نوے کی دہائی کے آغاز میں میرا ناول بہاؤ آیا۔اسے میں نے سات سال کی تحقیق کے بعد لکھا تھا۔اس کے لیے میں نے ہندوستان کی قدیم تہذیب پڑھی،وید پڑھے،پھر ملتان کے محقق ابن حنیف سے مدد لی،خاصا کام کرنا پڑا،پھر یہ شایع ہوا۔ممتاز ناول نگار عبداللہ حسین نے جو میرے بڑے عزیز دوست بھی ہیں، اس پر فلیپ لکھا تھا،غالباً انہوں نے اپنی زندگی کا واحد فلیپ یہی لکھا۔اس کے فیڈبیک کی تفصیل بتانا طویل ہوجائے گا۔

ہندوستان میں بہت سے ممتاز نقادوں نے جائزہ لے کر پچھلے صدی کے دس بہترین ناولوں کا انتخاب کیا جس میں بہاؤبھی شامل ہے۔بی بی سی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے گارسیا مارکیز کی سطح کا ناول قرار دیا تھا۔جوگندر پال کا کہنا ہے کہ جس نے بہاؤ نہیں پڑھا،اس نے اردو ادب میں کچھ نہیں پڑھا۔پھر راکھ آیا،اسے بھی خاصا سراہا گیا۔اشفاق احمد نے اسے راجہ گدھ کے ساتھ اسے بھی اپنا پسندیدہ ناول قرار دیا۔مشہور عالمی دانشور ڈاکٹرکرسٹینا نے کولمبیا یونیورسٹی کے لیے اپنے ایک مقالے میں ”راکھ“ کو جنوبی ایشیا کا اہم ترین ناول قرار دیا۔ڈاکٹر کرسٹینا نے قرتہ العین کے ناول آگ کے دریا پر پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔انہوں نے راکھ پر پنجابیت کے اثرات کے حوالے سے لکھا کہ اس پر علیحدہ سے مقالہ لکھا جاسکتا ہے۔

بہاؤ کیسے لکھا گیا؟
میں نے قدیم تاریخ میں ایک جگہ پڑھا کہ چولستان میں ایک دریا سرسوتی ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ سوکھ گیا اور اس کے کنارے آباد پوری تہذیب ختم ہوگئی۔آپ جانتے ہیں کہ اس زمانے میں تمام تہذیبیں دریاؤں کے کنارے ہوتی تھیں۔ تو اس ایک فقرے نے مجھے بڑا ہانٹ کیا۔اب تصور کریں کہ اس تہذیب میں ایک شخص ایسا ہے جسے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ دریا سوکھ رہا ہے اور آخر کار اس کی تہذیب تباہ ہوجائے گی۔اس شخص پر کس قدر بوجھ ہوگا کہ اسے راز دوسروں تک منتقل کرنا ہے۔میں تصور کرتا ہوں کہ

میں ہی وہ شخص ہوں۔میں نے تین ناول لکھے،بہاؤ میں سرسوتی،راکھ میں راوی اور ”قربت مرگ میں محبت“ میں سندھ اور ان تینوں میں دریا سوکھ رہا ہے۔آپ یہ سمجھیں کہ مجھے شک ہوگیا ہے کہ اگر یہی حال رہا تو ہماری تہذیب ختم ہوجائے گی،کوئی یقین کرے یا نہ کرے میں یہ حقیقت بیان کر رہا ہوں۔

لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کوئی مقبول یا بڑا ناول لکھنے کے بعد لکھنا مشکل ہوجاتا ہے؟ دراصل یہ کوئی پنساری کی دکان نہیں ہوتی کہ آج اچھا سودا بک گیا تو کل دکان بند کر لی۔آپ کے اندر جو چیز آپ کو لکھواتی ہے،وہ اس کی پروا نہیں کرتی کہ ردعمل کیسا ہوگا۔بانو (قدسیہ) آپا نے مجھے بہاؤ کے بعد کہا کہ تم نے اب کچھ نہیں لکھنا،تمہیں اس کی اب کوئی ضرورت نہیں۔جب راکھ آیا تو انہیں وہ بھی بہت پسند آیا اور انہوں نے وہی بات دہرائی۔ میں نے جواب دیا کہ اگر میں بہاؤ کے بعد آپ کے حکم پر لکھنا چھوڑ دیتا تو راکھ کیسے آتا۔تو دراصل لکھنا میری مجبوری ہے۔یہ جو سامنے پڑی سٹڈی ٹیبل ہے،اس نے میری زندگی میں سب چیزوں سے زیادہ وفا کی ہے۔پچھلے پچیس برسوں سے میں جب بھی لکھنے بیٹھا اس نے مجھے خوشی دی ہے۔میں روزانہ چھ سات گھنٹے لکھتا ہوں۔ بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ روزانہ اس قدر لکھنے کے پیچھے کمرشل پہلو ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کمرشل پہلو صرف کالم لکھتے وقت ہوتا ہے اورپوری دنیا میں کالم کمرشل ہی لکھے جاتے ہیں۔تاہم ادب تخلیق کرتے وقت کمرشل پہلو سامنے نہیں ہوتا،اس میں میرے من کی تسکین ہوتی ہے۔مجھے اپنے بعد کے لکھے گئے کئی ناول زیادہ پسند ہیں۔البتہ بہاؤ کو شاید میں دوبارہ نہ لکھ سکوں۔اس کی زبان صرف اسی ناول کے لیے تیار کی تھی اور اب شاید وہ زبان یا ماحول میں پیدا نہ کر سکوں۔ (جاری ہے)

Author

اپنا تبصرہ لکھیں