چائے کے کپ سے بھاپ اٹھ رہی ہے، اخبار کا پرانا صفحہ میز پر پھیلا ہوا ہے، اور قلم سیاست کے چہرے پر آئینہ رکھ کر مسکرا رہا ہے۔ یہ ہے قلم کا چائے خانہ جہاں چینی کم اور نمک زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں گفتگو میں مٹھاس نہیں، حقیقت کی تلخی ملتی ہے۔ سیاست کے دیگچے میں ہر کوئی اپنا چمچ ڈالے بیٹھا ہے، مگر ذائقہ پھر بھی خراب کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ دیانت کا قہوہ کافی عرصے سے چولہے پر نہیں رکھا گیا۔ پنجاب کی سیاست میں کبھی چائے ہلکی لگتی ہے تو کبھی کپ ہی خالی ملتا ہے، اور وفاقی چالاکیاں تو ایسے چسکے دیتی ہیں جیسے دودھ کے بغیر بنائی گیا قہوہ۔
چائے کے ہر گھونٹ میں طنز کی چاشنی، ہر وقفے میں ایک نئی کہانی چھپی ہے۔ قلم کا چائے خانہ آج سے صرف لکھنے کی جگہ نہیں، سوچنے کی محفل ہے۔ جہاں الفاظ سیاست کے کان میں جگتیں ڈالیں گے، اور قاری مسکراتے ہوئے سوچے گا: “کیا واقعی چائے گرم ہے، یا حالات زیادہ گرم ہیں؟”
قلم کا چائے خانہ آج پھر آباد ہے۔ چائے ابھی بھی گرم ہے، مگر جمہوریت ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر آزادیٔ اظہار کے تابوت کو کوریج ملتی ہے، اور نیوز روم میں لفظوں کے گرد سنسرشپ کی زنجیر جھنکارتی ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں صحافت کے کپ میں چائے نہیں، خوف کی تلخی گھولی جاتی ہے۔
کہا جاتا تھا کہ یہ جمہوریت ہے، مگر لگتا ہے جمہور کہیں دور کھڑے چائے کا خالی کپ دیکھ رہے ہیں۔ سیاست کے شیف حضرات نے عوام کے لیے نظریاتی قہوہ بنانے کی بجائے اقتدار کا شوربہ تیار کر رکھا ہے۔ جن جماعتوں نے کبھی جمہوریت کا راگ الاپا تھا، انہوں نے ہی اس کی لاش راولپنڈی کے نالہ لئی میں بہا دی، کراچی کے نالوں میں ڈبو دی، اور پھر لاہور کے سوکھے راوی میں دریا برد کر دی۔
اب حال یہ ہے کہ ہر تقریر سے پہلے اجازت نامہ، ہر کالم کے بعد وضاحت نامہ، اور ہر سوال پر مقدمہ۔
یہ جمہوریت شکن دور ہے مگر لطیفہ یہ ہے کہ ہر شخص اب بھی خود کو جمہوریت کا مجاہد کہلواتا ہے۔
قلم کا چائے خانہ اسی لیے آباد کیا گیا ہے، تاکہ لفظ کم از کم وہ بول سکیں جو زبان سے کہنا جرم ٹھہرایا گیا ہے۔
یہاں ہم چائے میں سچ گھول کر پیتے ہیں اور سیاست کی بھاپ میں طنز کی بھٹی جلاتے ہیں۔
اب زرا زمین سے آنکھ ملا کر دیکھئے: وہ ضلعی سیاست جو بظاہر نمائشی سمتیاریاں سجا کر عوام کو سرکس دکھاتی ہے، حقیقت میں ایک طویل فارمولا پر چلتی ہے انتخابی وعدہ، عارضی شو، اور پھر خاموشی۔ اس خاموشی کو افسر شاہی نے اپنا وظیفہ بنا لیا ہے: رپورٹیں تیار کی جاتی ہیں، نوٹس جاری ہوتے ہیں، مگر نتیجہ ویسا ہی رہتا ہے افسران کے ہاتھ میں قلم بطور خاک صاف کرنے کا برتن بن جاتا ہے۔
ضلع کے اجلاسوں میں کوآرڈینیشن کمیٹیاں ایسی بن چکی ہیں جیسے مٹی پر لکھی گئی تحریر بارش پڑتے ہی سب مٹ جاتی ہے۔ سٹیک ہولڈرز بیک وقت شریکِ کار اور شریکِ جرم دکھائی دیتے ہیں؛ ایک ہاتھ نوٹس بناتا ہے، دوسرا ہاتھ رسیدیں سنبھالتا ہے۔ اور جب کوئی سچے افسر کی طرف سے پردہ کھلتا ہے تو فوراً “قانونی کاروائی” کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے گویا سچ بولنے کا جرمانہ مافیاز کے بجٹ میں شامل ہے۔
اب آتا ہے وہ طائرانہ منظر:
میں اپنے الفاظ کو بازاں کی مانند اُڑا دوں گا تیز، سورج کی طرف، اور عین اُن لوگوں کے چہروں کی طرف جو خود کو قانون کا سایہ سمجھتے ہیں۔ یہ الفاظ تھپڑ کی طرح ہوں گے: نرم نہیں، مگر قاتلِ خاموشی۔ ہر تھپڑ میں تاریخ کا اک لمحہ ہوگا، ہر جُھٹ میں عوام کا حساب ہوگا۔
تم کہاں بھی چھپو گے عدالت کے دروازے ہوں یا کاغذ کے ۔doc فائلوں کی الماری الفاظ کے تھپڑ ان کی حفاظت کے قلعوں کو یہاں وہاں گھسیٹ کر رکھ دیں گے۔ اگر وہ قانونی اقدامات کی دلدل میں غرق بھی ہو جائیں، تو بھی میری قلم کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں گے؛ بلکہ سچائی کی کرنوں سے اندھے ہو جائیں گے۔
کیونکہ قلم کی قوت یہی ہے: وہ چپ چاپ نہیں بیٹھتا، وہ رِیشم کی لسّی نہیں بانٹتا، بلکہ وہ ایسے چراغ جلاتا ہے جو جھوٹ کے جبڑے کو جلادیتے ہیں۔ وہ چاہیں تو قانونی دلدل میں پھنس بھی جائیں تب بھی ان کے چہرے کے نقاب کھل جائیں گے اور عوام کے سامنے وہی حقیقت برہنہ اور بے لباس کھڑی رہے گی۔
آؤ! اس چائے خانہ میں وہی کریں جو بہادری کا تقاضا ہے: پیمانہ تولیں، لفظ چلائیں، اور ان تھوکوں کو نکالیں جو سسٹم کے گلے میں رِیت کی طرح پھنسے ہوئے ہیں۔
چائے گرم ہے، قلم تیز ہے، اور منظر نگاہِ عوام کے سامنے ہے بس ایک سوال رہ جاتا ہے: کون سنے گا