مسل اورمثل

جہاں حکومت کے نام پر فردواحد کا”راج“ ہووہاں مشاورت کا”رواج“ نہیں ہوتا۔پاکستان کو ”مورثیت“ اور”میراثیت“ دونوں کی نحوست سے خطرہ ہے، وزیرمشیر اپنے حکمرانوں کی جبکہ حکمران انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے بیرونی آقاؤں کی ”خوشامد“ کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملا جبکہ ان کے یہ انداز دیکھتے ہوئے پیشہ ور میراثی بھی شرمارہے ہیں۔یادرکھیں جس انسان میں ”غیرت“ نہ ہووہ ”غارت“ہوجاتا ہے۔جو سرکار ہرسرکاری معاملے میں من مانی اوربار بارآئین کے ساتھ چھیڑخانی کرے وہ ڈیلیورنہیں کرسکتی۔معیشت سمیت ریاست کے اہم شعبہ جات میں مثبت پیشرفت کیلئے ارباب اقتدار کی نیت اورسمت دونوں کادرست ہونا ازبس ضروری ہے۔آمرانہ مزاج کے ساتھ کئے جانیوالے شخصی”فیصلے“ حکومت اورعوام کے درمیان ”فاصلے“اوربداعتمادی پیداکرتے ہیں۔ منتخب ایوانوں میں صحتمند اورسودمند بحث ومباحثہ کے فقدان سے قومی سطح پر کئی طرح کے پیچیدہ بحران پیداہوتے ہیں۔ہمارے ہاں مدہوش جمہوریت ہویاوردی پو ش آمریت دونوں صورتوں میں ون مین شوکاشور اٹھتا ہے۔حکمرانوں کے بیسیوں مراعات یافتہ مشیرہوتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا لہٰذاء وہ بیچارے ہاں میں ہاں ملاتے اوراپنا اپنا منصب بچاتے ہیں۔پنجاب میں چار چار دہائیوں سے سیاست میں سرگرم حکمران جماعت کے بزرگ سیاستدان خاتون وزیراعلیٰ کے ساتھ ایساکوئی اختلاف نہیں کرتے جوان کے نازک مزاج پرگراں گزرے لہٰذاء ان کے ہرپلان کی شان میں قصیدہ پڑھ پڑھ کرہلکان ہونیوالے اہم عہدوں پربراجمان ہوجاتے ہیں لیکن جوشخصیات ”ڈِفر“ کریں انہیں ”ڈَفر“ قراردیتے ہوئے ٹیم سے نکال دیاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری محکموں میں جو آفیسر یااہلکار ساٹھ سال کا ہوجائے وہ ریٹائر ہو جاتا ہے لیکن ایوان صدر،ایوان وزیراعظم اور منتخب ایوانوں کے ساتھ ساتھ وفاقی وصوبائی کابینہ میں ستر فیصد افراد کی عمر ستر برس سے زیادہ ہے،یہ دوہرا معیار سرمایہ افتخار نہیں ہوسکتا۔یہ ستر برس کے بزرگ ”زندان“ میں جاتے ساتھ بیماراورکسی نجی ہسپتال میں منتقل ہوجاتے ہیں لیکن ”ایوان“ اقتدار میں آنے سے اچانک ان کی صحت بحال ہوجاتی ہے۔

پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ نے اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام میں ایک روزپولیس کی وردی پہنی توانہیں لگا وہ بھی آئی جی کی طرح اصلاحات کے نام پر پنجاب پولیس کوتختہ مشق بناسکتی ہیں۔خاتون وزیراعلیٰ نے بھی اپنے پیشرووزرائے اعلیٰ کی تقلید کرتے ہوئے پنجاب پولیس کو کندن بنانے کیلئے اپنے ویژن کی بھٹی میں جھونک دیا۔ بیس تیس سال سے پولیس میں اعلیٰ عہدوں پرکام کرنیوالے آفیسرزاپنی”تحریروں“ اور”تقریروں“ میں اُس خاتون وزیراعلیٰ کے”ویژن“ کی رٹ لگا رہے ہیں جس کواقتدارمیں آئے ابھی ایک برس بھی پورا نہیں ہوا۔ سرکاری میڈیکل کالجز کے پرنسپل اور پروفیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی اس خاتون وزیراعلیٰ کے شعبہ طب میں ویژن کا ڈھول پیٹ رہے ہیں جوزمانہ طالبعلمی میں سرکاری میڈیکل کالج میں ایڈمشن ملنے کے باوجودڈاکٹر نہیں بن سکیں۔میں اپنے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں، پچھلی چار دہائیوں میں جوبھی اقتدارمیں آیا اس نے پولیس کلچر میں تبدیلی کے نام پرتھانہ کلچر کو مزیدبگاڑنے اورکمزورکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس دوران پنجاب پولیس کی کوکھ سے کئی ونگ پیدا ہوئے۔شاہین فورس سے جوسفر شروع ہوا تھا وہ کمانڈو سکواڈ،مجاہد سکواڈ،محافظ سکواڈ، ایلیٹ فورس،ایس پی یو،اینٹی رائڈ فورس سے ہوتا ہوا ڈولفن فورس اورپیروتک آپہنچا ہے،میں سمجھتا ہوں پولیس کی وردی کارنگ یاکسی مخصوص ونگ کا نام نہیں نظام بدلنااز بس ضروری ہے۔پولیس کلچرکی بنیاد سے نابلد”ایس پی“ کاعہدہ نہیں بلکہ تھانوں کو طاقتور، بااختیار اورقابل اعتبار بنانا ہوگا۔اسٹیشن ہاؤس آفیسر کواس کے اسٹیشن کا پورااختیاردیا اور اختیارات کومس یوزیاان سے تجاوزکرنے پراس کابھرپوراحتساب بھی کیاجائے۔انصاف کی تلاش میں ایڑیاں رگڑتے شہریوں کوتھانوں اورایس پی دفاتر کے درمیان شٹل کاک بنانا انہیں تھکااوران کی امیدیں توڑ دیتا ہے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اورایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ کی حالیہ پریس کانفرنس کے مخصوص نکات پر سوشل میڈیا کے شتربے مہار اپنے اپنے انداز سے نکتہ چینی اوربے چینی پیدا کررہے ہیں۔ آئی جی پنجاب کی طرف سے دشمن داروں کو دشمنی یادوسری صورت میں ملک چھوڑنے کاپیغام سنجیدہ عوام کوپسند نہیں آیا۔ماضی قریب میں جب پنجاب پولیس کے نیک نیت اورنیک نام کمانڈرز شوکت جاوید،طارق سلیم ڈوگر،حاجی محمدحبیب الرحمن،آفتاب سلطان، کیپٹن (ر)عارف نوازخان،محمدطاہر،امجدجاویدسلیمی،راؤسردارعلی خاں،فیصل شاہکاراورعامرذوالفقار خان بات کرتے توان کے لہجوں سے”تکبر“ نہیں ”تدبر“ جھلکتا تھا لیکن اب صورتحال بہت مختلف ہے،بدقسمتی سے جواپنی زبان کازیادہ استعمال کرتے ہیں ان کاکام نہیں بولتا۔آفتاب سلطان،محمدطاہراورعامرذوالفقار خان سمیت پنجاب پولیس کے قابل ترین کمانڈرز مختصر تعیناتی کے بعد تبدیل ہوتے رہے ہیں تاہم ماضی کے مقابلے میں اس وقت پنجاب پولیس کوایک تازہ دم اورپرعزم کمانڈر کی اشد ضرورت ہے لیکن”ہنوز تبدیلی دوراست“۔میں وثوق سے کہتا ہوں پولیس کلچر میں مثبت تبدیلی کیلئے کمانڈر تبدیل کرنا ہوگاکیونکہ محض پولیس دفاتراورتھانوں کانقشہ بدلناکوئی معنی نہیں رکھتا۔ اہلکاروں کی زندگیاں انمول ہیں لہٰذاء شہداء پولیس کے”یتیموں“ کوچندکروڑ کی مراعات دینانہیں بلکہ انہیں ”یتیمی“ سے بچانااہم ہے۔میں آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس کی طرف واپس آتا ہوں،جہاں ایک حلقہ احباب کی طرف سے سی سی ڈی کے حالیہ کامیاب آپریشنز کو زبردست انداز میں سراہاجارہاہے وہاں اس فورس کے مخصوص متنازعہ اقدامات پرتنقید کرنیوالے افراد کی”استعداد“ اورایک بڑی ”تعداد“ سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔سالہاسال سے آرگنائزڈ کرائم کے سدباب کیلئے سرگرم”سی آئی اے“ کانام تبدیل کرتے ہوئے ”سی سی ڈی“ رکھ دیا گیاتھالیکن مجموعی طورپرنظام اور مائنڈسیٹ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ناپسندیدہ اورناقابل برداشت مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ”بندے“مارنا بہت آسان لیکن انہیں ”بندہ“بناناایک کٹھن امتحان ہے۔ایک فرض شناس پولیس آفیسر کابنیادی کام تفتیشی کی حیثیت سے سچائی تک رسائی کی بنیاد پرانصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے لیکن عدالت کے سوا کوئی مجرمان کو سزا نہیں دے سکتا۔ماضی کے دبنگ اِن کاؤنٹر سپیشلسٹ عابدباکسر کئی سال تک”سروس“ دینے کے باوجوداپنی”سروس“ سے محروم اور جس انتقام کاشکار ہوئے وہ کون نہیں جانتا لہٰذاء موصوف کاشکوہ ان کرداروں کیلئے غورطلب ہے جو اب ”سروس“ دے رہے ہیں، حکمران اور حکام سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیمان کا ریاستی اقدامات کیلئے فتاویٰ جات کافلسفہ اوران کی وصیت ضروریادرکھیں۔ جہاں تک ”ڈالہ“ اورسرکاری وسائل پر”ڈاکہ“ کلچر کی بات ہے تویہ دونوں بندکرناہوں گے۔خاص وعام شہریوں کوڈالہ کلچر سے بیزاراوربیدارکرنے کیلئے پولیس حکام کوبھی ڈالہ کلچر سے اظہار بیزار ی کرنا ہوگاکیونکہ ہم میں سے کوئی خلائی مخلوق نہیں،سبھی خاکی مخلوق ہیں۔ناجائز اسلحہ کی طرح پولیس کی تحویل میں شہریوں کی گاڑیوں کاناجائز استعمال بھی روکاجائے۔جو اپنے گناہوں کی پاداش میں ”اندر“جاسکتے ہیں،آئی جی انہیں ”باہر“جانے کامشورہ نہ دیں۔ کسی انسان کومحض بری صحبت یابری”شہرت“ پر”شہریت“ سے محروم نہیں کیاجاسکتا،کوئی دشمن داراس وقت تک قابل گرفت نہیں جب تک وہ اپنے دشمن کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ہزاروں سال سے زندہ معاشروں میں ہرکوئی کسی نہ کسی سے شدید نفرت کرتااوراس کے ساتھ عداوت یا دشمنی رکھتا ہے اوراس کیلئے ا ن کے پاس اپنے اپنے جوازموجود ہیں لہٰذاء قابل مذمت اورقابل گرفت صرف وہ ہے جو اپنے ہاتھ سے برداشت کا دامن چھوڑاوردوسرے کی جان یاآن پر دھاوابول دے۔

ماضی میں تفتیشی ”گویڑ“ لگایاکرتے تھے اس وقت ملزمان کا سراغ لگانا اور انہیں گرفتارکرنا محنت اورمہارت طلب کام ہواکرتا تھا لیکن جدید ٹیکنالوجی آنے سے مجرمان خود اپنے”گناہوں“ اور”گواہوں“کے بارے میں انمٹ نشانات چھوڑتے جبکہ ان کی شناخت اورگرفت کیلئے پولیس اہلکاروں کے کام آسان ہوتے چلے جارہے ہیں۔یادرکھیں سی آئی اے ہو،سی سی ڈی یاسی ٹی ڈی ہو،حالیہ چار دہائیوں کے دوران ہونیوالے مبینہ پولیس مقابلے ہمارے عدالتی اورتفتیشی نظام پرعدم اعتماد ہیں۔بہرکیف حالیہ مبینہ مقابلے ریاستی نہیں صوبائی ترجیحات کاشاخسانہ ہیں کیونکہ پنجاب کے سواباقی تینوں صوبوں میں ”خطاؤں“ کے آگے ماورائے عدالت”سزاؤں“ کا بند نہیں باندھاجارہا۔ جہاں جہاندیدہ تفتیشی کے قلم کی کاٹ سے قاتل تختہ دار پرجھولتا ہے وہاں کئی برسوں تک کوئی بیگناہ قتل نہیں ہوتا،یادرکھیں اگرکوئی جائز کا م بھی ناجائز اندا ز سے کیاجائے تو وہ انسانیت اورمعاشرت کیلئے سودمندنہیں ہوسکتا۔جوماہرتفتیشی اپنی علمی اورقلمی مہارت سے ”مسل“ کو”بے مثل“ بنا تے ہیں تو ان کے ہاتھوں گنہگار ڈکلیئر ہونیوالے مجرمان کو عدالت سے سزاضرورملتی ہے لیکن جہاں مٹھی”گرم“ ہونے پرمسل ”نرم“ ہو جائے وہاں خطرناک مجرمان بھی ”جھوٹ“ کی بنیاد پر ”چھوٹ“ جاتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کاکام ملزمان کوگرفتاراورعدالت میں پیش کرنا ہے،انہیں ملک بدرتودرکنار شہربدر کرنا بھی ان کے دائرہ اختیارمیں نہیں۔ جہاں ڈسپلن فورس کے لوگ نظام عدل اوراپنی اجتماعی عقل پرعدم اعتماد کریں گے وہاں عام آدمی سے کیا امید کی جاسکتی ہے۔ پیشہ ورشوٹروں،ڈاکوؤں،جنسی درندوں اوردشمن داروں کوایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا۔دشمن داروں کانہیں دشمنی کاصفایاکریں،جس طرح کتا باہرنکالے بغیرکنواں صاف اوراس کاپانی قابل استعمال نہیں ہو تااس طرح دشمنی کے زہریلے اسباب ومحرکات کاسدباب کئے بغیر دشمن داروں کاتاریک”راستہ“ اور”ناطقہ“ بندنہیں کیاجاسکتا۔جو یوٹیوبرز منظم انداز سے دشمن داروں اوردشمنی کو پروموٹ کررہے ہیں،ان کیخلاف عدالت عالیہ کاسخت ایکشن ناگزیر ہے کیونکہ ان”یوٹیوبر“کابیانیہ معاشرے کیلئے”ٹیومر“سے زیادہ مہلک ہے۔بہر کیف دشمن داربھی اپنے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کی آڑ میں کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کوجان سے ماررہے ہیں،اب اگر اہلکار بھی دشمنی کی بجائے دشمن داروں کاصفایا کریں گے توپھر”اُن“میں اور”اِن“ میں کیا فرق رہ جائے گا۔جہاں کئی کئی دہائیوں سے دشمنی کے شعلے بھڑک رہے ہوں وہاں دشمن دار تویوں اچانک اپنے طورپرایک دوسرے کے ساتھ نفرت کاتابوت نابود اور صلح کرنے سے رہے،اگر معاشرے کا بااثراوربااختیار طبقہ سنجیدہ کاوش کرے تو دشمن داروں کودوستی کی راہ ”سجھائی“اوران کے درمیان نسل درنسل خونخوار دشمنی کی آگ”بجھائی“ جاسکتی ہے

Author

اپنا تبصرہ لکھیں