عافیت اورعاقبت

ہمارانظام کائنات اورکاروبارحیات جس قادر،کارساز اورقومی اللہ ربّ العزت کے قبضہ قدرت میں ہے ا سے سمندری حیات سمیت انسانوں اورحیوانوں کی سبھی زبانیں بلکہ سرگوشیاں اورخاموشیاں بھی سمجھ آتی ہیں لیکن اس نے اپنے محبوب اورحبیب سرورکونین حضرت سیّدنا محمدرسول اللہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم کی وساطت سے عہدجاہلیت میں عربوں کو مخاطب،کامیاب زندگی وبندگی کاشعوراوربلندی عطاء کرنے کیلئے عربی زبان کوذریعہ اظہار بنایا۔ شنید ہے جنت میں جنتی ایک دوسرے کے ساتھ عربی میں بات چیت کیاکریں گے۔مٹھی بھر”عربوں“ سے اِسلام شروع ہو ا تھالیکن الحمدللہ آج مسلمان”اربوں“ میں لیکن بدقسمتی سے منقسم،منتشراورمتفقہ قیادت سے محروم ہیں۔عربوں کی کایا پلٹ جائے اس کیلئے عربی زبان میں قرآن مجید نازل ہواتھا۔ عہدحاضر میں قرآن مجید کے تراجم ہراہم زبان میں دستیاب ہیں لہٰذاء راقم سمیت کوئی بھی مسلمان اس الہامی کتاب کے سمجھ نہ آنے کاعذرپیش نہیں کرسکتا۔قرآن مجید فرقان حمید اللہ عزوجل کا زندہ معجزہ، ہرعہد کے انسانوں کیلئے کامل ضابطہ حیات اوریقینی راہ نجات ہے۔تعجب ہے اہل عرب نے اپنی مادری زبان میں بھی قرآن حکیم کانور سے بھرپور پیغامِ حق سمجھااورنہ اسے مشعل راہ بنایا۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید کی”سورۃ الممتحنہ“میں عربوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے دوٹوک انداز میں حکم صادر فرمایا ہے،”اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤکہ ان کے پاس دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جوسچادین آیا ہے اس کے یہ منکر ہوچکے ہیں، رسول کو اور تمہیں اس بات پرنکالتے ہیں کہ تم اللہ اپنے ربّ پرایمان لے آئے ہو،اگر تم جہاد کیلئے میری راہ میں اورمیری رضا جوئی کیلئے نکلے ہوتوان کودوست نہ بناؤ،تم ان کے پاس پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہوحالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم مخفی اور ظاہر کرتے ہو،اور جس نے تم میں سے یہ کام کیا تو وہ سیدھے راستہ سے بہک گیا ہے۔ اللہ پاک ایک بار پھر ہماری اصلاح اورفلاح کیلئے قرآن مجید کی سورۃ المائدہ میں ارشاد فرماتا ہے، ”اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا، بیشک وہ بھی انہی میں شمار ہوگا، بیشک اللہ ظالم افراد کو ہدایت نہیں دیتا“۔ اللہ ربّ العزت کی ان مقدس آیات میں واضح ہدایات بلکہ شبہات سے پاک احکامات کے بعد دنیا کاکوئی مسلمان اسرائیل کوتسلیم جبکہ امریکہ پراعتماد کرنے کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔

پندرہ سوسال میں پیش آنیوالے متعدد واقعات قرآن مجید کی حقانیت اور صداقت کی شہادت دے رہے ہیں۔قرآن مجید کابتایا ”راستہ“ دونوں جہانوں میں کامیابی سے ”آراستہ“ہے۔یہودوہنود اورنصاریٰ کی رگ رگ میں دوڑتا زہراسلام کو انتقام کانشانہ بنانے کیلئے ہے،یادرکھیں گھوڑا گھاس سے دوستی کرسکتا ہے لیکن یہودوہنوداورنصاریٰ کسی قیمت پر مسلمانوں کے دوست اوران سے مخلص نہیں ہو سکتے کیونکہ دوسرے مذاہب کو اسلام کے ہوتے ہوئے دوام نہیں مل سکتا۔عرب ملکوں نے حالیہ دہائیوں میں جوخطیرسرمایہ”نیاز“ کے طورپر امریکہ کی”نذر“ کیا،اگروہ اپنے دفاع پرصرف کیا ہوتا توآج انہیں امریکہ کے بغل بچے اسرائیل سے ہرگز خطرہ محسوس نہ ہوتااوروہ اپنے ہاتھوں سے”طاغوت“ کاہرایک ”تابوت“سمندر برد کردیتے۔اب بھی وقت ہے ”عربوں“ کوامریکہ کیلئے”اربوں“ کے نذرانے اوردوستی کے ترانے بندکرناہوں گے۔انہیں نصرت کیلئے اغیار کی بجائے اللہ تعالیٰ کی قدرت و قوت، اپنے ایمان کی حلاوت اور زوربازوپرانحصارکرناہوگا۔ افسوس ہمارے عہد کے مسلمان پورے پورے اسلام میں داخل ہوئے اورنہ ہم نے دین فطرت اسلام کو اس کے فطری انداز سے اپنے قلوب میں سرائیت کرنے دیا۔

آج بھی دین فطرت اسلام دنیا میں سب سے زیادہ پھیل اورپھل پھول رہاہے، ہررنگ کے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔اربوں میں چندہزار مسلمان ناقص،نادان یاناتواں ہوسکتے ہیں لیکن اسلام آج بھی کامل اور طاقتور ہے۔کوئی کافر کسی مسلمان کے ناپسندیدہ کردار کی بنیادپراسلام کوہدف تنقید نہیں بناسکتا۔عالمی شہرت یافتہ باکسرمائیک ٹائسن نے دامن اسلام میں آنے کے بعد کیا خوب کہاتھا” اللہ تعالیٰ کومیری ضرورت نہیں،مجھے اللہ ربّ العزت کی ضرورت ہے“۔اللہ تعالیٰ کو ”عربوں“ سمیت ”اربوں“ مسلمانوں کی ضرورت نہیں،ہم سب اپنے سچے ربّ کے محتاج ہیں اورہمیں قدم قدم پراس کی ضرورت ہے۔اگرہم نے نافرمانیاں اورشیطانیاں نہ چھوڑیں تووہ اپنی بندگی کیلئے ہمارے متبادل کے طورپرکسی اورکولے آئے گا۔

الحرمین الشرفین سے شروع ہونیوالی اسلامی روایات اورتعلیمات کی طرح ہمارے برادراسلامی عرب ملک بھی ہمیں بیحد عزیز ہیں لیکن وہ کبوترکی مانندآنکھیں موند کراسرائیل نامی خونخواربلے سے اپنا بچاؤیادفاع نہیں کرسکتے،انہیں ”نیٹو“ طرز پر آپس میں اتحاد ویکجہتی اوردفاعی جدت کے ساتھ اس زہریلے ناگ کاپھن کچلنا ہوگا۔”عربوں“ کو اپنے”اربوں“ والے شوق چھوڑناہوں گے اور غلبہ اسلام کیلئے اپنی انفرادی واجتماعی ترجیحات تبدیل کرناہوں گی۔عہدحاضر میں دشمن کی طرف سے ممکنہ جارحیت کوناکام اور الحرمین الشرفین کا دفاع یقینی بنانے کیلئے شاہینوں، اونٹوں اوربیش قیمت گاڑیوں کاکوئی کام نہیں رہا،یہ غوری اورشاہین میزائل کا دور ہے۔ الحرمین الشرفین کے ناپاک دشمنوں کی شکست فاش کیلئے پرتعیش محلات نہیں دفاعی مہارت کی ضرورت پڑے گی۔محض ہماری بددعاؤں یا ہمارے”سجود“سے اسرائیل کا”وجود“ فنا نہیں ہوگاکیونکہ جہاد بارے اجتہاد کاآپشن استعمال نہیں کیاجاسکتا۔راہ حق میں جہاد ایسا فرض ہے جس سے کوئی مسلمان مستثنیٰ نہیں۔

اِسلام کے استحکام اوردوام کیلئے مسلمانوں کو احرام کے ساتھ ساتھ اپنے سروں پرکفن بھی باندھنا ہو ں گے۔عرب حکمرانوں کی طرف سے امریکہ کیلئے ہر نقد نذرانہ درحقیقت اسرائیل کی تجوریوں میں جاتا ہے جہاں ان سے مہلک بم بنائے اور نہتے فلسطینیوں پربرسائے جاتے ہیں۔پچھلے دنوں عربوں نے اربوں ڈالر اسرائیل نوازڈونلڈ ٹرمپ کوخوش کرنے کیلئے نچھاورکئے تھے لیکن انہیں کچھ حاصل نہ ہوا جبکہ ان وسائل سے معتوب ومغضوب فلسطینیوں کودرپیش متعدد مسائل کاسدباب کیاجاسکتا تھا۔قطر کی طرف سے متعصب اورانتہاپسند ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے بیش قیمت ہوائی جہاز کاتحفہ بھی کسی کام نہ آیا اوراسرائیل اپنے جہازوں کے ساتھ وہاں خون کی ہولی کھیلنے جاپہنچا،یقینا اسرائیل نے آج تک فلسطین اور ایران سمیت کسی اسلامی ریاست کیخلاف کوئی انتہائی قدم امریکہ کا آشیرباداوراعتماد حاصل کئے بغیر نہیں اٹھایا۔

قطرپراسرائیلی حملے کے بعدامریکہ لاعلمی یالاتعلقی ظاہرکرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا،وہ اسرائیل کی مجرمانہ سرگرمیوں میں برابر کاشریک ہے۔فلسطینیوں کوآزادی،امن اورانصاف کیلئے”دوہائیاں“ دیتے دیتے سات ”دہائیاں“ ہوگئی ہیں لیکن اسرائیل انہیں دبانے اوران کی سرزمین ہتھیانے کیلئے ان کے سینے بارود سے چھلنی کررہا ہے۔فلسطین کے فرزندمقدس انبیاء اوراپنے باپ دادا کی سرزمین کواپنے خون سے سیراب کررہے ہیں جبکہ کوئی عرب ملک ان کے زخموں پرمرہم لگانے کیلئے نہیں پہنچا۔فلسطینی مزاحمت کار اپنے دوسرے عرب بھائیوں کوزیرعتاب آنے سے بچائے ہوئے ہیں ورنہ نام نہاد گریٹر اسرائیل کانقشہ ہرکسی نے دیکھاہوا ہے۔

یادرکھیں جو اسلامی ملک بوجوہ خودساختہ ریاست اسرائیل کاناجائزوجود تسلیم کئے ہوئے ہیں یاآئندہ کریں گے انہیں بھی فلسطینیوں کے قتل عام میں برابرکاشریک تصورکیاجائے گا،روزمحشر کسی قاتل اوراس کے شریک گناہ کوکلین چٹ نہیں ملے گی۔شہزادہ کونین حضرت سیّدناامام حسین علیہ السلام اپنے مدمقابل ملعون اورپلید یذید کی بیعت کرنے سے انکار تک محدودنہیں رہے تھے بلکہ انہوں نے ا س کی مذموم جارحیت کیخلاف بھرپور مزاحمت اوراس کے متعدد حواریوں کوواصل جہنم کرتے ہوئے بڑی شان سے جام شہادت نوش کیاتھا لہٰذاء اسرائیلی فسطائیت اور شیطانیت کیخلاف خاموشی اختیارکرنا درحقیقت اس کی مجرمانہ حمایت بلکہ اعانت کے مترادف ہے۔متنازعہ اورناتواں شہبازحکومت اسرائیل کوتسلیم کرنے کی غلطی کابوجھ نہیں اٹھاسکتی۔پاکستان کے وہ حکمران کس طرح اسرائیل کوتسلیم کرسکتے ہیں جوسیاسی طورپرخود تسلیم شدہ نہیں بلکہ ووٹرز نے انہیں مسترد کردیا تھا۔اپنے ہاتھوں میں اِسلام کاعلم اٹھائے پاکستانیوں نے شہبازحکومت کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات سمیت متعصب ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ پلان پراپنے اعتماد کی مہرثبت کرنے کامینڈیٹ ہرگز نہیں دیاتھالہٰذاء یہ باب بندکرناہوگا۔

اسرائیل نواز اورانتہاپسند ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کی قربت انہیں اپنے ہم وطنوں سے مزیددورکردے گی۔یادرکھیں ڈونلڈ ٹرمپ معتدل،معقول اوراس کانام نہاد غزہ منصوبہ فلسطینیوں سمیت دنیا بھرمیں کسی باشعور اورزندہ ضمیرانسان کیلئے قابل قبول نہیں لہٰذاء شہبازحکومت واشنگٹن کوراضی اورڈونلڈ ٹرمپ کیلئے نوبیل انعام کاراستہ ہموار کرتے کرتے اپنے ہم وطنوں کوناراض نہ کربیٹھے۔عام انتخابات میں بدترین دھاندلی کے معاملے میں ریاستی دھونس سے عوام کودبایاجاسکتا ہے لیکن ناجائز ریاست اسرائیل کوتسلیم کرنے کی صورت میں معاشی ابتری سے مضطرب ومشتعل عوام کاپیمانہ صبر چھلک پڑے گا۔زمین پرملی زندگی اورحکومت دونوں بہت عارضی ہیں لہٰذاء حکمران اپنے اقتدار کی محبت میں اپنی”عافیت“ اور”عاقبت“ دونوں برباد نہ کریں۔انسانیت کے علمبردار،نڈرفلسطینیوں کی تحریک آزادی کے طرف داراوراپنے ضمیر کے اسیر مشتاق احمدخان کیلئے پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے زندہ ضمیرانسانوں کی محبت وعقیدت سے ظاہر ہوگیا، ان کے نزدیک کون حق پر ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں