ماحولیاتی تبدیلی نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ غیر متوقع سیلاب، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور جنگلاتی آگ نے رواں سال دنیا کے تقریباً ہر ملک کو متاثر کیا ہے۔ ماحول کے بگاڑ میں انتہائی کم حصہ ڈالنے کے باوجود پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اس سے متاثر ہونے میں سرِ فہرست ہیں۔ شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے پاکستان کے دو بڑے صوبے جان و مالی نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس صورتحال میں تعلیم کا شعبہ بھی اس کی زد میں ہے، جہاں ایک طرف متاثرہ آبادیوں میں تعلیمی سلسلہ معطل ہے، وہیں نئی نسل کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اضافی تعلیم کی ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ پاکستان مشن سوسائٹی گزشتہ تین سالوں سے لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف سرکاری اور نجی اسکولوں میں بچوں کو مختلف صورتوں میں ماحولیاتی تعلیم فراہم کر رہی ہے۔
بچوں کی قیادت میں ماحولیاتی تحفظ کی اس مہم میں اسکولوں میں ماحولیاتی لائبریریوں کا قیام، موبائل لائبریری، شجرکاری اور گھریلو باغبانی جیسے منصوبے شامل ہیں۔ پراجیکٹ مینیجر احمر شہزاد نے تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سو سے زائد اسکولوں میں ہم بچوں کو ماحولیاتی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہمارا مقصد ہے کہ بچوں کی صلاحیتوں اور رویوں میں نکھار پیدا کرکے ماحول کے لیے ایسے نمائندے بنائیں جو اس مشکل گھڑی میں معیاری اقدامات اٹھانے کے قابل ہوں۔
مشن سوسائٹی کی یہ مہم کل تین حصوں میں کام کرتی ہے، جن میں براہِ راست طلبہ کے ساتھ مشاورت اور بحث و مباحثہ بھی شامل ہے۔ احمر شہزاد کے مطابق وہ اس پہلے حصے کے نتیجے میں طلبہ کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور ان کے ساتھ حکومت کے منصوبے شیئر کرتے ہیں۔ طلبہ بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جبکہ حکومت سے اپنے مطالبات بھی کرتے ہیں۔ اب تک طلبہ کی جانب سے پانچ بڑے مطالبات سامنے آئے ہیں، جن میں وہ ماحولیاتی تعلیم کو اپنے بنیادی نصاب میں شمولیت چاہتے ہیں۔
طلبہ کے مطالبات مشن سوسائٹی لے کر حکومتی اداروں کے سامنے رکھتی ہے تاکہ پالیسی بناتے وقت ان کو خاطر میں لایا جائے۔
اپنے مہم کے دوسرے حصے کا ذکر کرتے ہوئے احمر شہزاد کہتے ہیں کہ اس میں ہم طلبہ کو فعال کردار ادا کرنے کی طرف لاتے ہیں۔ اس مقصد کی خاطر اسکولوں میں طلبہ پر مشتمل گرین کلبز قائم کیے گئے ہیں، جس کے تحت مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان طلبہ کو توانائی کے ماحول دوست ذرائع سے روشناس کروانے کے لیے مختلف دورے کروائے جاتے ہیں۔ گند کو ٹھکانے لگانے اور اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے طریقے بھی بتائے جاتے ہیں۔
گرین کلبز کے یہ طلبہ اپنے اپنے اسکولوں میں ماحول کے سفیر بن کر کام کرتے ہیں اور دیگر طلبہ سمیت سوسائٹی کو اس جانب متوجہ کرتے ہیں۔ پاک مشن سوسائٹی نے اسکولوں کے اندر دو طرح کی ماحولیاتی لائبریریاں بھی قائم کی ہیں۔ جن اسکولوں میں جگہ موجود تھی، وہاں کتابیں اور مختلف ڈیوائسز دے کر مستقل لائبریریاں وجود میں لائی گئیں، اور جہاں یہ گنجائش نہیں تھی، ان کے لیے موبائل لائبریریاں بنائی گئی ہیں جو مختلف اسکولوں میں جاتی ہیں اور طلبہ کے ساتھ سیشن کا انعقاد کرتی ہیں۔

ایسی ہی ایک موبائل لائبریری کے ساتھ ہم لاہور کے ‘شہدائے اے اپی ایس گرلز ہائی اسکول ماڈل ٹاؤن’ گئے جہاں بچوں کے لیے ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ بچوں نے پاکستان کے ماحولیاتی مسائل پر مبنی دستاویزی فلم دیکھی، جبکہ ہوا کی آلودگی پر مشتمل کتاب کا گروپ مطالعہ بھی کیا۔ اس لائبریری میں ماحولیاتی مسائل کی کئی کتابیں رکھی گئی ہیں اور دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے اسکرین بھی نصب ہے۔ علاوہ ازیں، یہ لائبریری مختلف آبادیوں میں بھی لوگوں میں آگاہی پھیلانے کے لیے جاتی ہے۔
آٹھویں جماعت کی طالبہ حنا فاطمہ کا تعلق بھی اسی اسکول سے ہے۔ وہ مشن سوسائٹی کی جانب سے قائم کیے گئے گرین کلب کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے تاشقند اردو کو بتایا کہ “ہمیں اپنے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے بہت ساری چیزیں معلوم ہو رہی ہیں۔ وقتاً فوقتاً یہاں کچن گارڈننگ اور شجرکاری کے سیشنز ہوتے ہیں۔ یہاں سے متاثر ہو کر میں نے گھر جا کر کئی پودے بھی لگائے ہیں، جن میں امرود اور جامن کے پودے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ماں باپ کے تعاون سے اپنے ایک خالی پلاٹ میں پورا باغ بھی لگایا ہوا ہے۔”

اس سب کی بنیاد پر حنا فاطمہ ماحول کی سفیر کی حیثیت سے نہ صرف اپنے گھر میں بلکہ اسکول کے دیگر بچوں میں بھی آگاہی پھیلاتی ہے۔ گرین کلب کے ان بچوں کی جانب سے اسکول میں لگائے گئے ایک باغ میں بھی سبزیوں اور پھلوں کے کئی پودے موجود ہیں۔ اسکول کی ایک ٹیچر انیلہ مختار نے بتایا کہ “ان پودوں کا حساب کتاب رکھنے کے لیے بچوں نے ایک الگ رجسٹر بنایا ہوا ہے، جس میں پودے کی عمر، ساخت، خصوصیات، درکار پانی، بچاؤ کے طریقے اور کئی دیگر چیزیں لکھی جاتی ہیں جبکہ ان پودوں کا حساب بھی رکھا جاتا ہے کہ کب وہ پھل دینے کے قابل ہوں گے۔”
انیلہ مختار کہتی ہیں کہ ابتدائی طور پر ہم نے ان کو منتخب طلبہ دیے۔ ان کی تربیت کے بعد گزشتہ دو سالوں سے ہم سوسائٹی کے تعاون سے مسلسل بچوں کو ماحول دوست بنانے کا یہ کام کر رہے ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ اس کام کے حوالے سے یکسو ہے اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ گرین کلب کے بچوں کا دائرہ بڑھا رہے ہیں۔
