بلوچستان میں طالبات تک کتب پہنچانے کا ورچوئل نیٹ ورک ‘شیئرنگ’ کے ذریعے کیسے کام کرتا ہے؟

پسماندگی اور محرومی جیسی اصطلاحات کے ساتھ جڑا پاکستان کا صوبہ بلوچستان اس وقت امید کا مرکز بن جاتا ہے جب وہاں کے طالب علم نوجوانوں کے عزائم دیکھنے میں آتے ہیں۔ خانوزئی سے تعلق رکھنے والے نوجوان محمود اعظم کاکڑ بھی انہی نوجوانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے دوستوں کے ساتھ مل کر بلوچستان کے چھوٹے بڑے تینتالیس مقامات میں کتب کا ایسا جال بچھایا جہاں ہر گھر کی لڑکی اس سے مستفید ہوتی ہے۔

اعظم کاکڑ کتب بینی کے شوقین ہیں اور اپنے دوست فرحان کے ہمراہ مختلف کتب خانوں میں وقت گزارتے ہیں۔ گھر میں ان کی ہمشیرہ کو بھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ آج سے چار سال پہلے ہمشیرہ نے رشک بھرے لہجے میں محمود اعظم سے کہا کہ ’آپ لوگ خوش قسمت ہیں، باہر آنا جانا لگا رہتا ہے، کتابیں اور ماحول بھی آسانی سے میسر ہے۔‘ یہ کہتے ہی انہوں نے اعظم سے کتابیں منگوائیں اور گھر پر ہی مطالعے کا سلسلہ شروع کیا۔

اعظم کاکڑ نے تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے ہاں گھر میں پہلے بھی کئی دیگر کتابیں موجود تھیں لیکن وہ مزید دریافت کرنا چاہتی تھیں۔ اس دن میرے خیال میں آیا کہ اگر ہمارے گھر میں اتنی سہولیات کے باوجود ایک کمی محسوس کی جا رہی ہے تو یہ ہر گھر کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘

اس کے بعد خضدار میں چلنے والی ’اونٹ لائبریری‘ سے مرکزی خیال اخذ کرتے ہوئے اعظم کاکڑ نے گھر کی دہلیز تک کتابیں پہنچانے کے لیے ایک نیٹ ورک کے قیام پر کام کیا۔ وہ اور ان کے ساتھی پہلے ہی تعلیمی تعاون کے لیے ’ایجوکیشن اسکالرز کنیکٹ‘ کے نام سے ایک ادارہ چلا رہے ہیں، لیکن 2020 میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے کتابیں جمع کرنے کی تحریک بھی شروع کی گئی۔

محمود اعظم کاکڑ کے مطابق ’پاکستان کی مختلف جامعات میں کتاب عطیہ مہم کے بعد اگلا مرحلہ بلوچستان کے علاقوں میں ٹیمیں تشکیل دینا تھا۔ اس کے لیے جگہ جگہ کالجوں میں مہم چلائی اور منتظم (ایڈمن) کے طور پر ایسی لڑکیوں کا انتخاب کیا جو گروپ کی قیادت کر سکیں۔ اس وقت تینتالیس علاقوں کے واٹس ایپ گروپس قائم کیے گئے ہیں جن میں متعلقہ علاقوں کی طالبات شامل ہیں۔‘

یہ نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے؟

تینتالیس علاقوں میں چلنے والا یہ نیٹ ورک انتہائی منفرد طریقے سے کام کرتا ہے۔ اعظم کاکڑ کی جانب سے دکھائے گئے واٹس ایپ گروپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں قائم ایک گروپ میں 16 طالبات موجود ہیں، جن میں ایک طالبہ گروپ کی منتظم کے طور پر نمائندگی کرتی ہے۔

ڈیرہ بگٹی کے اس گروپ کے لیے اعظم کاکڑ اور ان کے دوستوں نے کتاب عطیہ مہم کے نتیجے میں جمع ہونے والی کتب کا کچھ حصہ فراہم کیا ہے، جبکہ ممبران کی ذاتی کتب بھی اس لائبریری کا حصہ ہوتی ہیں۔ کتب کی یہ فہرست تمام ممبران کے پاس موجود ہوتی ہے۔ ضرورت کے وقت ممبران گروپ میں پیغام بھیجتی ہیں اور مطلوبہ کتاب کا حوالہ دیتی ہیں۔

اب مطلوبہ کتاب متعلقہ طالبہ تک پہنچانے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ یہ پورا نیٹ ورک عمومی طور پر ’شیئرنگ‘ کے تحت چلتا ہے، جہاں ایک ہی علاقے اور تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے طالبات آپسی رابطے کے ذریعے کتابوں کا تبادلہ کرتی رہتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس صورتِ حال میں ’اسکالرز کنیکٹ‘ کے لڑکے انہیں کتاب پہنچا دیتے ہیں۔

اعظم کاکڑ کہتے ہیں کہ ’ہر علاقے کی نمائندگی کرنے والی طالبہ اس پورے عمل کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ مقررہ وقت کے بعد کتاب نمائندہ لڑکی کے پاس آ جاتی ہے یا دیگر لڑکیوں کے ساتھ شیئر کر دی جاتی ہے۔ ہمارا عمل دخل کتابیں اور رہنمائی فراہم کرنے کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ بسا اوقات شیئرنگ کے ذریعے کتاب منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا تو ہمارے دوست ان کی مدد کر لیتے ہیں۔‘

کالجوں اور علاقوں میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے ذریعے قائم شیئرنگ کے اس نیٹ ورک سے تعلیمی ماحول ابھر کر سامنے آتا ہے۔ مسلم باغ سے تعلق رکھنے والی انگریزی ادب کی طالبہ سبینہ بھی اس نظام سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے تاشقند اردو کو بتایا کہ ’ایجوکیشن اسکالرز کنیکٹ کے ساتھ میں اپنے دوست کے ذریعے شامل ہوئی۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کے شامل ہونے کا واحد مقصد سہولیات کی عدم دستیابی کا سامنا کرنے والی اپنی جیسی لڑکیوں کی مدد کرنا ہے۔ ’میں نے اپنی طرف سے کتابیں بھی وقف کیں اور خود ان کتابوں سے بہت استفادہ کر رہی ہوں۔ یہ ورچوئل لائبریری مسلم باغ کے دور دراز علاقوں میں لڑکیوں کو کتابیں مہیا کر رہی ہے۔‘

پشین کی اسمارہ نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تاشقند اردو کو بتایا کہ ’میں خود آن لائن تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ بھاری بھرکم فیسوں اور سہولیات کے فقدان کے دوران یہ پلیٹ فارم ہمارا حوصلہ ہے۔ اس سے نہ صرف کتابوں کا ملنا آسان ہوا ہے بلکہ دوسروں تک کتابیں پہنچا کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘

کوئٹہ، پشین، مسلم باغ اور خانوزئی کے علاقوں میں یہ نیٹ ورک پوری طرح فعال ہے جبکہ دیگر علاقوں میں رفتہ رفتہ طالبات اس سے جڑ رہی ہیں۔

ایجوکیشن اسکالرز کنیکٹ کا ورچوئل لائبریریوں کا یہ نظام انٹرنیٹ پر پوری طرح منحصر ہے۔ واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کاری بلوچستان میں انٹرنیٹ کی معطلی کے ساتھ متاثر ہو جاتی ہے۔ اعظم کاکڑ کے مطابق گزشتہ دنوں انٹرنیٹ کی بندش سے رابطے کا یہ سلسلہ ٹوٹ گیا تھا اور کئی کئی ہفتوں تک مطلوبہ کتب طالبات تک پہنچ نہیں پائی تھیں۔

اعظم اور ان کے دوست حال ہی میں بارکھان میں لائبریری کے قیام پر بھی غور کر رہے ہیں، جس کے لیے انہیں عمارت تو مل گئی ہے لیکن ضروریات پوری کرنے کے لیے عطیات درکار ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں