پرانے انارکلی سے متصل جی پی او چوک پر رواں ٹریفک کے شور اور اٹھتی بیٹھتی گرد کے عین دوران ایک پرانے سخن کا نقشہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ یہ مغلوں کی حسِ باغبانی کا آئینہ دار ‘باغ نور جہاں’ ہے، جو باغوں کے شہر لاہور میں مغلیہ دور کی انوکھی یاد کو تابندگی بخشتا ہے اور صدیوں پرانے ذوق سے ہمکلام ہوتا ہے۔
مغل بادشاہ جہانگیر کی بیوی ملکہ نور جہاں نے اپنے ذوقِ باغبانی کی بدولت شہر لاہور کے منظرنامے کو نیا رخ دیا۔ انہوں نے سولہ سو کی دہائی میں جہانگیر کے ساتھ برصغیر پر بیس سال تک حکومت کی۔ جہانگیر کے انتقال کے بعد بھی نور جہاں نے لاہور میں اٹھارہ سال تک قیام کیا، جس دوران انہوں نے شہر کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔
‘باغ نور جہاں’ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کے ذوقِ باغبانی سے متاثر ہونے کی ایک کوشش ہے۔ اس باغ میں 80 فیصد پودے نسلی طور پر مغلیہ دور سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ باقی پودوں کی نسل مہاجرین سے ہے، جن کی ابتدا برصغیر میں نہیں ہوئی، لیکن وہ گزشتہ چار صدیوں میں وقتاً فوقتاً ان علاقوں میں ہجرت کر کے یہاں کے ماحول کا حصہ بنتے گئے۔
عثمان سعید ایک فنکار اور باغبان ہیں، جنہوں نے دو سال کی محنت سے چہار باغ اور انارکلی کے تصور کو ہمکنار کرتے ہوئے اس باغ کو لگایا۔ تاشقند اُردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ “دو سال کی تحقیق کے دوران آئینِ اکبری سے بہت سارے پودوں کی نشاندہی کی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور مغلیہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اسی طرح تذکرہ جہانگیری میں بھی جہانگیر نے اپنی تاریخ مرتب کرتے ہوئے بہت سارے پودوں کا ذکر کیا۔ ان دو ذرائع سے بنیادی طور پر مجھے ان پودوں تک رسائی ملی، جو مغلیہ دَور میں عام تھے۔”

اس باغ میں ایسے پودے شامل ہیں جو ہماری روایتی طب کا حصہ ہیں۔ خوشبو سے جڑے پودے بھی یہاں موجود ہیں، جن کا تعلق پیٹ سے تو نہیں، البتہ ہماری روحانی نگہداشت کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، مثلاً دیسی گلاب، چنبیلی، موتیا، ہارسنگھار، زیتون، فرنگی پانی، جو مغلوں کے ذوقِ باغبانی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
لاہور میں باغات کی ریت
لاہور پر حکمرانی کرتے وقت بادشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں باغبانی کی روایت کا آغاز شمالی علاقہ جات سے کرتے ہیں۔ عثمان سعید کے مطابق اس کا تعلق پانی کے ذرائع کے ساتھ تھا، جہاں وادیِ کشمیر میں باغوں کو اگایا جاتا تھا۔ بعد ازاں لاہور کے باغات ہمالیہ کے قدرتی ماحول سے متاثر ہو کر بنائے جاتے تھے۔
کشمیر سے شروع ہونے والے اس سلسلے نے لاہور میں اپنا بھرپور رنگ دکھانا شروع کیا۔ شاہی قلعے میں اگنے والا پائن باغ اور باغِ مقبرہ جہانگیر اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ تاہم، عثمان سمجھتے ہیں کہ ان باغوں کی ساخت برقرار ہے لیکن پودے اب اصل نہیں رہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ مغلوں کے اگائے گئے باغوں میں اصل پودے ناپید ہوتے گئے، تو اس تناظر میں عثمان سعید نے بنیادی ذرائع سے ان پودوں کی نسلوں پر مشتمل باغ لگانے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے پہلے مرحلے میں تکون شکل کے زمینی حصے کو چہار باغ میں منتقل کرنا تھا۔

عثمان سعید نے مزید بتایا کہ “چہار باغ فارسی کا لفظ ہے، جو روایتی باغبانی کی نمائندگی کرتا ہے، اور اس کا آغاز وسطی ایشیائی ممالک سے ہوتا ہے۔ یہاں سے مغلوں کی حسِ باغبانی شروع ہوتی ہے اور بابر، ہمایوں، اکبر اس شوق کو ہندوستان لاتے ہیں۔”
اسی وجہ سے باغ نور جہاں چار باغوں پر مشتمل ہے، جس کے دیگر حصے ذرا فاصلے پر اسی علاقے میں ہی موجود ہیں۔ عثمان سعید نے ان چار حصوں کو ملاتے ہوئے نقشہ دکھایا تو اس سے ایک پرندے کی شکل و صورت بن گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک خداداد آمد تھی۔ یہاں بننے والے پرندے کی یہ شکل سارس سے ملتی ہے، جس سے جہانگیر کو انس تھا اور انہوں نے اس پر کافی تحقیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ “جہانگیر نے اپنی آپ بیتی میں اس پرندے کے لیے کئی صفحات مختص کیے ہیں جہاں وہ اس کی خوراک، خصوصیات اور دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس حساب سے باغ نور جہاں پودوں کی نسل اور اس پرندے کی وجہ سے مغلوں کے اور قریب ہو جاتا ہے۔”

باغوں کی اہمیت صرف آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح کی غذا کے لیے نہیں۔ عثمان سعید بتاتے ہیں کہ یہ مغلوں کی معیشت میں بھی اہم حصہ دار تھے۔ باغوں میں سب سے اہم گوشۂ باغیچہ ہوا کرتا تھا جہاں پھل دار پودے لگے ہوتے تھے، جو کسی مخصوص خطے میں استعمال ہوتے تھے۔
باغ نور جہاں میں جا بجا لگے گلاب کے پودوں سے متعلق سوال پر وہ بولے کہ “بادشاہ جہانگیر نے اپنی آپ بیتی میں گلاب کا تذکرہ بھی کیا ہے، جس کی جھلکیں ہمیں باغ نور جہاں میں بھی ملتی ہیں۔ نور جہاں کی والدہ ایک دن گلاب سے عطر بنانے میں کامیاب ہوئیں تو جہانگیر نے اس واقعے کو بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا اور گلاب کے پانی کو ‘عطرِ جہانگیری’ کا نام دیا۔”