کیا یاسرعرفات کا قتل بھی موساد نے کرایا تھا ؟

پچھلے ڈیڈھ دو برسوں میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے آپریشنز کے حوالے سے خاصا کچھ سامنے آیا اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح انہوں نے لبنان میں حزب اللہ کے پورے سٹرکچر کو تباہ کیا، ان کی قیادت اور اہم رہنمائوں کو نشانہ بنایا، ایران میں گھس کر اسماعیل ہنیہ کو بھی ہدف بنایا جبکہ کئی ایرانی انجیئنرز ، سائنس دان پہلے ہی نشانہ بن چکے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کو کبھی کھل کر تسلیم نہیں کیا جاتا، البتہ بعض خفیہ ایجنسیوں کا طریقہ کار ہے کہ کسی حد تک یہ انفارمیشن اپنے پسندیدہ یا قابل اعتماد صحافیوں کے ہاتھوں لیک کرا دی جاتی ہیں، ان سے کتابیں لکھوائی جاتی ہیں یا خصوص مضامین۔ دراصل ان انفارمیشنز کا سامنے آنا ایک لحاظ سے ان خفیہ ایجنسیوں کی دہشت اور ہیبت بٹھانے کے کام بھی آتا ہے۔ ان کی بے پناہ طاقت اور لمے ہاتھوں کا مخالفوں کو اندازہ ہوتا ہے اور پھر بعض اوقات خوف پیدا کر کے یہ اپنے کئی مقاصد حاصل کر لیتی ہیں۔ تاہم ان کتابوں، مضامین یا ڈراموں وغیرہ کا مطالعہ ان کے طریقہ کار کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتا ہے، جس سے خاصا کچھ سیکھا جا سکتا ہے اور مناسب جوابی حکمت عملی بنائی جا سکتی ہے۔
معروف اسرائیلی صحافی برگمین کی ایک اہم کتاب کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں، یہ بھی ایسے ہی انکشافات کرتی ہے، ہماری کوشش ہوگی کہ قارئین تاشقند اردو کے لئے دو تین اقساط میں اس کا خلاصہ بیان کر دیا جائے۔
اسی کتاب میں یہ اشارہ بھی ملتا ہےکہ پی ایل او کے سربراہ اور ممتاز فلسطینی رہنما یاسر عرفات بھی ایسی ہی کسی خفیہ کارروائی کا نشانہ بنے۔
’’رائز اینڈ ِکل فسٹ‘‘ نامی اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کے ہاں مذہبی کتاب تصور ہونے والی ’’تالمود‘‘ کا ایک مینڈیٹ بنیادی طور پر اسرائیلی دفاعی اداروں کی سیکیورٹی ڈاکٹرائن ہے۔ اس مینڈیٹ میں کہا گیا ہے’’اگر کوئی تمہیں قتل کرنے آئے، اٹھ کھڑے ہو اور پہلے ہی اسے قتل کر ڈالو۔‘‘ معروف اسرئیلی تحقیقی صحافی رونین برگمین نے اپنی اس کتاب کا عنوان بھی اسی مینڈیٹ سے اخذ کیا ہے
زہریلا ٹوتھ پیسٹ جس سے ایک مہینے کے اندر ہدف کی موت ہوجاتی ہے۔ مسلح ڈرونز اور دھماکا خیز موبائل فون، اسپئر ٹائر جن میں ریموٹ کنٹرل بم نصب ہوتے ہیں اور ایسے متعدد خفیہ ہتھیار جن کا استعمال دنیا کی بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
۔
اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد سے صہیونی ریاست ستر برسوں کی تاریخ میں 2700 قاتلانہ حملے کروا چکی ہے۔ یہ حملے باقاعدہ خفیہ مشن اور خاص مقاصد کے لیے کیے گئے، جس میں اپنے کسی بھی مخالف یا ممکنہ خطرہ بننے والے شخص کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔
کوئی بھی ایسا شخص جو اسرائیلی عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن جائے یا ممکنہ طور پر وہ اسرائیلی مفادات کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہو، ریاستی پالیسی کا یہ بنیادی اصول ہے کہ اسے راہ سے ہٹانے کے لیے کسی قانون اور قاعدے کی پروا کیے بغیر، راستے سے ہٹا دیا جائے گا۔ ان سیکڑوں قاتلانہ حملوں میں سب سے زیادہ فلسطینی شہریوں اور رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا، اس کے علاوہ مصری، شامی، ایرانی اور دیگر ممالک کے افراد کے خلاف بھی ایسی کارروائیاں کی گئیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ غیر قانونی کارروائیوں میں مخالف کو قتل کرنے کی پالیسی میں کئی مغربی ممالک اسرائیل کے نقش قدم پر چلے، امریکا کی دوسرے ممالک میں سرحدی ضابطوں کی پروا کیے بغیر ڈرون حملوں کی حکمت عملی کو بھی اسی سے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے۔
رونین برگمین اسرائیل کے سب سے پرانے اور بڑے اخبار ’’یدی اوت اخرونوت‘‘ میں خفیہ ایجنیسوں کے امور کور کرنے والے سینیئر رپورٹر ہیں اور وہ اسرئیلی سیکیورٹی اداروں میں کئی ذرائع رکھتے ہیں۔ اس کتاب کی تیاری کے لیے انہوں نے اسرئیلی سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسی موساد سے منسلک رہنے والے تقریباً ایک ہزار افسران، اہلکاروں اور حکام سے مختلف مواقع پر انٹرویو کیے اور ان سے حاصل ہونے والی گفتگو سے حاصل شدہ معلومات کو کتاب میں شامل کیا۔ اس کے علاوہ 600صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ہزاروں خفیہ اور سرکاری دستاویزات کے حوالے بھی موجود ہیں۔
دوہزار چار میں فلسطینی تحریک کے نمایاں ترین راہنما یاسر عرفات کا انتقال ہوا تو اس کے ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی گردش کرنے لگیں کہ ان کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ وہ بھی اسرائیلی کی سازش کا نشانہ بنے۔ اس حوالے سے دنیا کے کئی خبر رساں اداروں اور مبصرین نے یاسر عرفات کی موت کو قتل ثابت کیا اور معروف عرب چینل الجزیرہ نے اس حوالے سے خصوصی تحقیقاتی رپورٹس کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس میں مختلف شواہد سے یاسر عرفات کی موت کو قتل ثابت کیا گیا۔ اسرائیلی حکام اسے مسلسل الزام گردانتے ہیں اور ایسی شواہد اور خبروں کی تردید کرتے رہے ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال یہ تھا کہ یاسر عرفات کو جوہری تاب کاری کا نشانہ بنایا گیا اور بعدازاں ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور نعش کے دیگر طبعی معائنوں میں بھی ایسے شواہد ملے۔
برگمین نے اپنی کتاب میں ان آرا کی تائید کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ ایسے شواہد بہرحال موجود ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ یاسر عرفات کی موت موساد کی جانب سے کیے گئے خفیہ آپریشن کے نتیجے میں ہوئی لیکن آگے چل کر وہ اس کی تفصیلات کے حوالے سے کوئی واضح بات کہنے کو تیار نہیں۔
وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون نے یاسر عرفات کو قتل کرنے کا ٹاسک موساد کو دیا تھا۔ برگمین کا کہنا ہے کہ وہ پورے یقین سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ (یاسر عرفات کے معاملے میں) ہوا کیا لیکن شواہد اس جانب اشارہ ضرور کرتے ہیں، اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کی جانب سے عاید سنسر شپ کی وجہ سے وہ کئی ایسی باتیں نہیں بتا سکتے جن کا علم انہیں ہوچکا ہے۔ کتاب میں مصنف نے اسرائیلی فوج کی جانب سے کڑی سنسر شپ پر بھی سخت تنقید کی ہے۔
برگمین کہتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے مخالفین کو قتل کرنے کے ذرایع اور تکنیک حاصل کرکے امریکا نے اسرائیلی پالیسی کو کئی امور میں نہ صرف اپنایا ہے بلکہ امریکی پالیسی سازی میں اسرائیل کے اس خفیہ ہتھیار کے استعمال کو کئی جگہ ہو بہو استعمال کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطابق امریکی خفیہ اداروں کے کارندوں پر اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ ضوابط لاگو ہوتے ہیں، اسرئیلی ایجنٹس کی بہ نسبت ان کے راستے میں کئی قانونی رکاوٹیں حائل ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، جارج بُش سے لے کر براک اوباما کے ادوار تک غیرقانونی کارروائیوں میں مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ خاص طور پر نو گیارہ کے بعد امریکا نے سیکڑوں افراد کو غیر قانونی طور پر محض شبہے کی
بنیاد پر قتل کیا۔ برگمین لکھتے ہیں’’کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم، وار روم، معلومات حاصل کرنے کے ذرایع بغیر پائلیٹ کے طیارے یا ڈرونز اور دیگر جو بھی ذرایع آج امریکی استعمال کررہے ہیں ان میں سے اکثر اسرائیلی میں تیار کیے گئے اور انہیں ترقی دی گئی جنھیں بعد میں امریکا نے اختیار کرلیا۔
(جاری ہے )

Author

اپنا تبصرہ لکھیں