نوبل اور نوبیل

انسان میں ’’اعجاز“کاوصف ہونااس کیلئے قدرت کی طرف سے بہت بڑا ”اعزاز“ ہے۔ اعزازات کی دنیا میں نوبیل انعام اپناایک منفرد مقام رکھتا ہے کیونکہ یہ کسی دھونس،دھاندلی،موروثیت اور حسب نسب کی بنیادپر نہیں دیاجاتا۔ اسے مقروض پاکستان کے قومی وسائل اور پاکستانیوں کے مینڈیٹ کی طرح چوری بھی نہیں کیاجاسکتا۔مجموعی طورپرنوبیل انعام ابھی تک ہرقسم کے سیاسی یامذہبی نظریات،تضادات،تنازعات اور تعصبات سے پاک ہے، دعا ہے یہ آئندہ بھی اہلیت، قابلیت اورمنفرد صلاحیت کی بنیاد پر موزوں اورمستحق شخصیات کوملتا رہے تاہم سنجیدہ پاکستانیوں کو ماضی میں پاکستان کی ایک متنازعہ خاتون کے ہاتھوں میں نوبیل انعام آنے کا”ملال“ رہے گا،اس کی پاکستان سے ہجرت اور برطانوی ”شہریت“کے باوجوداس کوملنے والے نوبیل انعام کی”شہرت“آج بھی داغدار ہے۔

بدقسمتی سے سوشل میڈیا محض شہرت کی بنیاد پرمخصوص بلکہ منحوس ”بونوں“اورمصنوعی کرداروں کوبھی دیوقامت بنادیتا ہے۔یادرکھیں جوعزت اورشہرت میں فرق نہیں کرسکتے وہ عہدحاضر کے ابوجہل ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں حکمرانوں کے قصیدہ خواں حضرات کو سرکاری اعزازات،عنایات اورنقدانعامات سے نوازاجاتا ہے اس طرح دنیا کے کسی دوسرے ملک یامعاشرے میں نہیں ہوتا۔حکمرانوں کاہردوسرا مقرب اپنے سینے پر ستارہ امتیاز سجائے پھرتا ہے،اب توعزت دار قلم کار ستارہ امتیازملنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں انہیں اپنی ساکھ بچانے کیلئے دوہائیاں اور صفائیاں دینا پڑیں گی۔پاکستان میں جو ”معلم“ کالم نگار ی کے نام پرمقتدرشخصیات کی”منظم“ قصیدہ نگاری کر تے ہیں انہیں ”سفیر“یا ”سینیٹر“ بنادیاجاتا ہے پھر وہ زندگی بھر اپنے آقاؤں کا حق نمک اداکرتے اوران کے مدمقابل سیاستدانوں کیخلاف زہراگلتے ہیں۔

یادرکھیں جس سیاستدان میں اپنی”تقریر“ خود تحریرکرنے کی صلاحیت نہیں وہ ہمارے ملک کی”تقدیر“ نہیں بدل سکتا۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے حکمرانوں کیلئے ”تقریریں“ سپردقرطاس کرنیوالے قلم کاروں کی ”تقدیریں“ ضرورتبدیل ہوجاتی ہیں اورشریک اقتدارہونے پران کے اندرکافرعون بھی بیدارہوجاتا ہے۔ پاکستان میں سرکاری اعزازات کیلئے کسی بھی شعبہ میں گرانقدرخدمات کی کوئی اہمیت نہیں تاہم سرکارکا وفادار ہونا اہم سمجھا جاتاہے۔ پچھلے دنوں پاکستان کے پاورکوریڈورز میں نوبیل انعام کانام بار بار لیاگیاہے۔شہبازشریف کی شدیدخواہش اور کاوش کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام نہیں دیاگیا۔ظاہر ہے اسرائیل کے پشت بان ڈونلڈٹرمپ کانام نوبیل انعام کے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں نہیں تھا۔شہبازشریف نے بار بار ڈونلڈٹرمپ کانام نوبیل انعام کیلئے تجویزکیا لیکن نوبیل انتظامیہ نے آج تک پاکستان سمیت کسی ریاست کی حکمران اشرافیہ کی سفارشات کوسیریس نہیں لیا کیونکہ صرف دنیا بھر سے نمایاں شخصیات کوان کے”نوبل“ کاز پر”نوبیل“ انعام ملتا ہے۔

یادرکھیں عالمی سطح پر محض پسندناپسند کی بنیادپر نوبیل انعام کا”نیوندار“نہیں دیاجاتا۔نوبیل انعام کیلئے کسی ”مقبول“ انسان کا نہیں بلکہ جو انسانیت کیلئے ”معقول“ اوربیحدسودمندہواس کاانتخاب کیاجاتا ہے۔شہباز حکومت کی طرف سے نوبیل انعام کیلئے ڈونلڈٹرمپ کو نامزدکرنا غزہ کیلئے”رنجیدہ“ اور”سنجیدہ“ پاکستانیوں کو ہرگزپسند نہیں آیا تھا۔ پاکستان کی متنازعہ حکومت کی تجویز کو نوبیل انتظامیہ نے بھی کوئی اہمیت نہیں دی تھی کیونکہ اسرائیل کے پشت بان اوربدزبان ڈونلڈٹرمپ کا”راستہ“ امن سے”آراستہ“ نہیں تھا،آج بھی موصوف کی آستین سے غزہ اورایران کے بیگناہ انسانوں کا خون ٹپک رہا ہے۔وہ امریکہ کے منتخب صدرکی حیثیت سے روس،چائنہ اورایران سمیت دوسرے ملکوں کے ساتھ سفارت اورسیاست کی بجائے طاقت کی زبان میں بات کرتا بلکہ ڈراتا دھمکاتا ہے۔برادراسلامی ریاست ایران کیخلاف حالیہ اسرائیلی جارحیت کاماسٹرمائنڈ بھی امریکہ تھا جبکہ روس اوریوکرین کے مابین رواں خونیں تصادم اور غزہ میں اسرائیلی فسطائیت کامرکزی محرک بھی امریکہ ہے۔

مخصوص یورپی ملک حالیہ دنوں میں اسرائیل اورحماس کے درمیان ہونیوالے امن معاہدے کاکریڈٹ بھی ڈونلڈٹرمپ کودے رہے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ کی شخصیت کے تضادات اور موصوف سے منسوب تنازعات سے انکار نہیں کیاجاسکتا،ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ جس قسم کے مذموم کاروبار کرتارہا ہے ان متنازعہ کاروباری سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے بھی سفیدقصر میں براجمان شعبدہ باز امن نوبیل انعام کے مقررہ معیار پرپورا نہیں اترتاتھا۔متشدد اورمتعصب ڈونلڈ ٹرمپ کے آشیرباد سے اسرائیل بدترین جارحیت کامظاہرہ کرتے ہوئے غزہ،ایران اورقطر پرحملے اورپھر اپنے پشت بان نام نہادسپرپاور کی مداخلت پرسیزفائرکرتا ہے۔ڈونلڈٹرمپ اوراس کے پیشروصدور بیک وقت شکاری اورشکار کاساتھ دیتے رہے ہیں،جوکوئی متشدد حکمران بیگناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہو کیاوہ امن کے نوبیل انعام کا مستحق ہوسکتا ہے۔

نوبیل انعام سیاسی رشوت کے طورپر نہیں دیا جاتا،اس کی ایک”ساکھ“ ہے جو ڈونلڈٹرمپ کے ہاتھوں میں جانے سے یقینا ”راکھ“کاڈھیر بن جاتی۔نوبیل انتظامیہ نے امسال امن کانوبیل انعام و ینز ویلاکی خاتون آہن اور متحرک اپوزیشن لیڈر ماریاکورینا کی آمریت کیخلاف جرأمندانہ اور فاتحانہ مزاحمت کے ساتھ ساتھ ا پنے ملک ومعاشرے میں جمہوری اقداروروایات کے فروغ کیلئے ان کی کمٹمنٹ اورجہدمسلسل کودیکھتے ہوئے دیا ہے۔امن نوبیل انعام کے امیدوار کی نیت،سمت اورصلاحیت کے ساتھ ساتھ اس کی خدمات اوران کے ثمرات کوبھی دیکھا جاتا ہے۔جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کاتعلق ہے،موصوف نے غزہ بحران سلجھانے کی بجائے اسے مزید الجھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔دعا ہے امن معاہدہ کی آغوش سے پائیدار امن کاظہورہواوردنیا کے ہرمتنازعہ معاملے میں سنجیدہ مکالمے کوفروغ دیاجائے۔

حماس کی نڈراورسرفروش قیادت نے اسرائیل کے بیس یرغمالی جبکہ ناجائز ریاست نے اپنی زندانوں سے متعدد فلسطینی اسیران رہا کردیے ہیں۔حماس کے عہدیداران اپنے پاس قید اسرائیلی شہریوں کی رہائی کیلئے عجلت کامظاہرہ نہ کریں کیونکہ اسرائیل اوراس کاپشت بان ڈونلڈٹرمپ دونوں قابل اعتماد نہیں ہیں۔ماضی میں بھی حماس اوراسرائیل کے درمیان کئی بار امن معاہدہ ہوا لیکن ہرباربدنیت اوربدفطرت اسرائیل نے عہدشکنی اور بدترین جارحیت کامظاہرہ کرتے ہوئے امن معاہدے سمیت بیگناہ فلسطینیوں کے وجود کی دھجیاں بکھیردی تھیں لہٰذاء میں حالیہ معاہدہ سے زیادہ پرامید نہیں ہوں کیونکہ اسرائیل کی اِسلام کے ساتھ نفرت میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید شدت آتی چلی جائے گی۔ماضی کی طرح مستقبل میں بھی نام نہاداقوام متحدہ بلکہ اقوام مردہ کاکوئی ”ضابطہ“ اسرائیل کا”راستہ“ نہیں روک سکتا۔

اسرائیلی قیادت کا دین فطرت اِسلام سے اپنی بیجااورانتہائی ”نفرت“ کو”نصرت“کی نوید سمجھنا حماقت بلکہ جہالت کے سواکچھ نہیں،غزہ بحران نے اسرائیل کوتنہا اور رسوا کردیا ہے۔اسرائیل بارود اوربھوک کے بل پر غزہ کے اندر نہتے مسلمانوں کوشہید کر کے اِسلا م کاپرچم سرنگوں نہیں کرسکتا۔حالیہ نام نہاد اسرائیلی ”مفاہمت“میں بھی یہودیوں کی بدترین ”منافقت“پنہا ں ہے لہٰذاء اس کی عارضی خاموشی کو مستقل پسپائی تصور نہ کیاجائے۔اسرائیل زیادہ دیرتک آرام سے نہیں بیٹھے گا کیونکہ بیہودہ یہودہ کی باقیات کے سرپرجنون اور نہتے فلسطینیوں کاخون سوار ہے۔تخت اسرائیل پربراجمان ڈکٹیٹر پر اپنے یرغمالی یہودیوں کی رہائی اوربحفاظت وطن واپسی کیلئے شدید دباؤ ہے،اسلامی قیادت کو اجتماعی بصیرت کے ساتھ اسرائیل کی عیاریاں،مکاریاں اور فلسطین کیخلاف ممکنہ تیاریاں سمجھناہوں گی۔دوسری طرف امریکہ کی ڈونلڈ سرکار کو بھی غزہ میں پائیدارامن کے قیام اوروہاں استحکام سے کوئی سروکار نہیں ہے لہٰذاء اِسلامی ملکوں کو”چوکس“ رہنا اورسرزمین انبیاء پراپنا”فوکس“رکھنا ہوگا۔

حالیہ امن معاہدہ کے بعد غزہ میں جشن کاسماں ہے،زخموں سے چور فلسطینی بھی خوش اورپرجوش ہیں۔صمیم قلب سے دعا ہے غزہ میں پائیدارامن بحال اورپوری طرح زندگی فعال ہو۔پھر سے غزہ میں غذا سمیت ہرنعمت کی فراوانی ہو،پچھلے دوسال سے بوند بوند کیلئے ترستے غزہ کے شیرخوار اور مردوزن آب سے سیراب ہوں، وہاں مساجد،مدارس اورفٹ بال کے میدان آباد ہوں۔نڈر اوربے گھرفلسطینیوں کو چادروچاردیواری سمیت زندگی کی تمام بنیادی ضروریات اور شفاء بخش ادویات میسر ہوں۔اہلیان غزہ کوباربار ہجرت کی اذیتوں کاسامنا نہ کرنا پڑے۔کوئی ضعیف باپ اپنے ہاتھوں سے اپناجوان فرزندسپردخاک نہ کرے۔تاہم اسرائیل کاماضی شاہد ہے،وہ اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کیلئے مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے باز نہیں آئے گا۔وہ اس معاہدہ کی آڑ میں عارضی سیزفائر سے اپنے مخصوص اہداف حاصل کرنے کے بعدپھر سے دندناتے ہوئے غزہ میں گھس جائے گا۔

آپ کویاد ہوگا چندماہ قبل بھی اسرائیل نے سیزفائرکیا تھا تاہم حماس کی قید سے اپنے شہریوں کی رہائی کے بعد پھر سے نہتے فلسطینیوں کیخلاف بدترین جارحیت کاسلسلہ شروع کردیا تھا۔اخلاقیات،انسانیت سے عاری اوربے اصول اسرائیل سے کچھ بھی بعید نہیں۔وہ حالیہ سیزفائر کے نتیجہ میں اپنے یرغمالی شہریوں کی رہائی اوربحفاظت واپسی کے بعد پھر سے غزہ میں شیطانیت اورفسطائیت کامظاہرہ کرسکتا ہے۔ اسرائیل کااتحادی بلکہ پشت بان امریکہ اس کے ہرگناہ میں براہ راست شریک اور غزہ بحران کامرکزی فریق ہے لہٰذاء اس کی”ضمانت“ میں ”متانت“ نہیں ہوسکتی۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں