ہڑپہ کی گمشدہ کہانی، جہاں مٹی نے سرگوشی کی

تاریخ میں کچھ ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ صرف مٹی کے ڈھیر یا بھولی بسری باقیات نہیں رہتی جنہیں وقت کی دھول نے برسوں سے ڈھانپ رکھا ہو، بلکہ وہ زمین کے نیچے سرگوشی کرتی ہیں ، وہ سامنے آنے کی ہمیشہ منتظر رہتی ہیں ۔ مصر میں آثارِ قدیمہ کی دریافتوں پر بنی ایک دستاویزی فلم ‘دی لوسٹ پیرامڈ’ (The Lost Pyramid) دیکھتے ہوئے مصری ماہرینِ آثار قدیمہ اور مزدوروں کا جذبہ مسحور کن لگتا ہے، وہ جس وارفتگی سے اپنے اجداد کی میراث بچا تے ہیں ، ان کے چہروں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

پاکستان، ایک ایسا ملک جو کسی بھی قدیم تہذیب سے کم نہیں، وادیٔ سندھ کی حیران کرد ینے والی شاندار شہری منصوبہ بندی سے لے کر گندھارا کے بدھ مت فنون تک، مہر گڑھ کے انمول تاریخی ورثے کی زراعت سے لے کر تختِ بائی کی عظیم درسگاہوں تک، ٹھٹھہ کے مکلی قبرستان میں موجود اسلامی فنِ تعمیر کے شاہکاروں سے لے کر شاہی قلعہ لاہور کی مغل شان و شوکت تک، ہمارے پاس ایک تاریخی ورثہ ہے جس میں ہماری ذہانت، فن اور شہری زندگی کے ہزاروں سال کے شواہد پوشیدہ ہیں جنہیں کئی دہائیوں تک نظرانداز کیا گیا ۔

ہمارے یہ قیمتی خزانے، جو دنیا کو ہماری شاندار ماضی کی گواہی دے سکتے تھے، طویل عرصے تک خاموشی کے پردے میں مٹی تلے دبے رہے۔یہی تجسس مجھے حال ہی میں ہڑپہ لے گیا، جو وادیٔ سندھ کی تہذیب کا گہوارہ ہے۔ وہاں جو کچھ میں نے دیکھا وہ کسی صورت بھی حیران کر دینے سے کم نہ تھا۔ ہڑپہ میوزیم، جو کبھی محض نوادرات کا ایک سادہ ذخیرہ تھا، اب ایک نئی سوچ کے ساتھ دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے۔ کیوریٹرز اور محققین کی انتھک کوششوں کی بدولت، اس کی دیواریں اب ہزاروں سال پرانی کہانیاں سرگوشیوں میں بیان کر رہی ہیں۔

ہڑپہ میوزیم کے کیوریٹر احمد نواز ٹیپو نے مجھے عجائب گھر کی اس غیر معمولی تبدیلی کے بارے میں بتایا۔ دھیمے مگر فخریہ لہجے میں بولے
ہم نے چار نئی گیلریاں بنائی ہیں۔

(Pre-Historic)
(Proto-Historic)
(Ethnological)
(Art & Craft)

ہر گیلری خود ایک مکمل داستان ہے، جو وادیٔ سندھ کی تہذیب (3500–1900 قبل مسیح) کے ارتقاء کو ایک نئے اور منظم انداز میں پیش کرتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نمائش میں ابتدائی برتن سازی اور زرعی اوزار سے لے کر مشہور مہریں، مٹی کی مورتیاں، زیورات اور دستکاری کے نمونے شامل ہیں، جو اس قوم کی ذہانت کو ظاہر کرتے ہیں جسے اکثر دنیا کی پہلی شہری سوسائٹی کہا جاتا ہے۔

یہ پرانے انداز کی نمائش نہیں ہے۔ یہ گیلریاں تحقیق اور جدت کا ایک حسین امتزاج ہیں۔ یہاں ڈائیوراما (Dioramas) کی مدد سے ہڑپہ کی زندگی کے مناظر کو دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے، جبکہ ڈیجیٹل سٹوری ٹیلنگ ، میوزیم آنے والوں کو ایک ایسی دنیا میں غوطہ زن کر دیتی ہے جس سے وہ ہزاروں سال پرانی تاریخ کو خود محسوس کرسکتے ہیں ۔ جب آپ عجائب گھر کا دورہ کرتے ہیں، تو ایسا محسوس ہو گا جیسے آپ 5,000 سالہ تاریخ میں قدم رکھ رہے ہیں۔ قدیم انسانی ڈھانچے (Skeletons) بھی عجائب گھر کا حصہ بنائے گئے ہیں جو ایک ایسی تہذیب کے گواہ ہیں جس نے کبھی انسانی تاریخ کی سمت متعین کی تھی۔

اس کو مزید کشادہ زاویے سے سمجھنے کےلیے میں نے سیکرٹری سیاحت، آثار قدیمہ اور عجائب گھر ڈاکٹر احسان بھٹہ سے بات کی ۔انہوں نے بتایا کہ ہڑپہ میوزیم کوئی واحد پراجیکٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع ثقافتی بیداری کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر احسان بھٹہ نے بتایا کہ حکومتِ پنجاب نے 101 تاریخی مقامات کی فہرست تیار کی ہے، اور ہم اس وقت چھ بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، “ان میں ہڑپہ، ٹیکسلا، قلعہ روہتاس، ہرن مینار، قلعہ دراوڑ ، اور بھیرہ شہر شامل ہیں جو کہ ایک عظیم تاریخی گہرائی رکھتا ہے۔”

روہتاس اوردراوڑ بھی عسکری شان و شوکت کی کہانیاں دہراتے ہیں، جبکہ ٹیکسلا اور ہرن مینار ہمارے ماضی کی فکری اور تعمیراتی تخلیق کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔

سب سے زیادہ قابلِ ذکر بات ہڑپہ میں کھدائی پر دوبارہ توجہ دینا ہے، جسے دو دہائیوں تک نظرانداز کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر احسان بھٹہ نے بتایا کہ یہاں آخری کھدائی 25 سال پہلے کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہم مختلف یونیورسٹیوں کے آثارِ قدیمہ کے طلبا کو اس کام میں شامل کر رہے ہیں ۔

تاہم، جس بات نے مجھے سب سے زیادہ چونکا دیا، وہ یہ انکشاف تھا کہ ہڑپہ اب بھی یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی عارضی فہرست میں شامل ہے اور ہم دنیا کے سامنے اس کا جائز مقام حاصل نہیں کر پائے۔ ڈاکٹر احسان بھٹہ نے یقین دلایا کہ اب اس صورتحال کو بدلنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ ہڑپہ کو وہ عالمی شناخت مل سکے جس کا یہ ہمیشہ سے حقدار رہا ہے۔

ہڑپہ سے واپسی پر، میرے دل میں فخر اور ایک حسرت کا انوکھا امتزاج تھا۔ فخر اس بات کا کہ پاکستان بالآخر اپنے ماضی کو عزت دینے کے لیے صحیح اقدامات کر رہا ہے۔ اور حسرت اس بات کی کہ ہم نے طویل عرصے تک اپنے قدموں تلے دفن خزانوں کو نظرانداز کیا۔ نئی ترتیب دی گئی گیلریوں کو دیکھتے ہوئے، میں نے اس دن کا تصور کیا جب حیران کن دریافتوں کے بارے میں دستاویزی فلمیں صرف مصر یا میسوپوٹیمیا کے بارے میں نہیں، بلکہ پاکستان کے بارے میں بھی بنیں گی۔

ہڑپہ کی مٹی اب خاموش نہیں ہے۔ وہ بولتی ہے، وہ سانس لیتی ہے، اور وہ ہمیں واپس سننے کے لیے پکارتی ہے۔ اور شاید، اس بار، ہم بالآخر جواب دیں گے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں