ان لوگوں ک حیران کن کہانی جو ایک بار موت سےہمکنار ہوئے، زندگی مگر انہیں واپس لے آئی
ہم ایسے عجیب تجربات کی ایک جھلک پیش کر رہے ہیں جو ان غیر مسلم لوگوں نے بتائے ہیں جو موت کے منہ میں جاتے جاتے، واپس آگئے اور ایک بار پھر دنیا میں اپنے حصے کی زندگی گزار رہے ہیں یا گذار کر پھر ہمیشہ ہمیشہ موت کی وادیوں میں چلے گئے۔
ان کو عارضی موت کے دوران جنت جیسی خوبصورت ٹھنڈی فضائوں میں سانس لینے کے خوشگوار تجربات ہوئے اور بعض بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایسے ہولناک لمحات گزارے، جن کو صرف اور صرف دوزخ ہی کے تجربات کہا جاسکتا ہے اور اب ان لمحات کا تصور بھی خوفناک لگتا ہے۔ وہاں نہ صرف انھیں خوف اور ناامیدی کا احساس ہوا بلکہ انھوں نے خودکو ہولناک عذاب سے گزرتے بھی محسوس کیا تھا
سائنس دان کیا کہتے ہیں ؟
بیشتر سائنسدان اس طرح کے تجربات سے گزرنے کو شک کی نظر سےدیکھتے ہیں مگر کچھ ماہرین انھیں موت کے بعد زندگی کی حقیقت کے حوالے سے بطور ثبوت دیکھتے ہیں۔ بات جو بھی ہو مگر جو لوگ ان تجربات سے گزرے ہیں، ان کی بقیہ زندگی بالکل بدل گئی یا انھوں نے اس تجربے سے اپنی بقیہ زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے مدد لی ہے۔
سائنسدان کئی عشروں سے اس حوالے سے دنیا بھر میں تجربات اورمشاہدات کر رہے ہیں۔
سائوتھمپٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کے اسپتالوں میں اس طرح کے دو ہزار مریضوں کو مشاہدے میں رکھا ہے، جن کودل کا خطرناک دورہ پڑا تھا اور ان مریضوں میں سے جو بچ گئے، انھوں نے جو تجربات بتائے، ان کے مطابق دل کے دورے کے دوران جو لوگ طبی طور پرمردہ (clinically dead) قرار دیئے جا چکے تھے، ان میں سے جو 40 فیصد لوگ بچ گئے، ان کا کہنا ہے کہ انھیں نیند اور بیداری کی کچھ ایسی کیفیت کا تجربہ ہوا جو اُن کے لئے نئی تھی۔
ان کو یہ بھی احساس ہو رہا تھا کہ وہ مر چکے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی ’’محسوس‘‘ ہو رہا تھا کہ وہ زندہ طور پر کسی ایسے مقام پر آچکے ہیں، جو جنت ہے یا جہنم ہے!۔ یعنی کچھ لوگوں کو لگا کہ وہ جنت میں آچکے ہیں اور کچھ کو اس کے برعکس جہنم میں موجود ہونے کا ’’تجربہ‘‘ ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق جب وہ مریض دنیا سے باہر کے ان تجربات سے گزر رہے تھے، تب ان کا دل بالکل خاموش ہو چکا تھا، دھڑکن بند تھی، دماغ تقریباً مردہ ہوچکا تھا،اس لیے ان کی موت کا اعلان بھی کیا جا چکا تھا مگر تھوڑی ہی دیربعد ان کادل دوبارہ دھڑکنا شروع ہوگیا، دماغ بیدار ہوگیا اور وہ دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ آئے… ہماری اس دنیاوی زندگی کی جانب۔
ایسے ہی عارضی مردہ ہونے والے ایک شخص نے یہاں تک درست درست مشاہدہ شیئر کیا کہ جب ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے کر اس کے چہرے پر چادر ڈال دی تھی، اس وقت وہ خود اسی کمرے کے کونے میں کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد ایک نرس نے اس کے بدن کے ساتھ کیا کیا؟ وہ بھی اس نے درست طور پر تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیان کیا اور مذکورہ نرس کو درست شناخت کیا۔ ڈاکٹروں نے بھی اس کے بیان کی تصدیق کی کہ اس نے بالکل درست مشاہدہ بیان کیا ہے جو کہ حیرت انگیز بات ہے۔
وہ شخص تین منٹ تک ’’مردہ‘‘ رہا تھا۔ اس دوران اس کے جسم کے ساتھ منسلک مشینوں کی آوازوں میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں، وہ بھی اس نے درست طور پر بتائی تھیں۔
اس حیرت انگیز بات پر تبصرہ کرتے ہوئے سائوتھمپٹن یونیورسٹی کے سابقہ ریسرچ فیلو ڈاکٹر سام پرینا کہتے ہیں: جب دل دھڑکنا بند کردیتا ہے تو دماغ بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، مگر یہ ایک خاص واقعہ ہے، جس کی طبی سائنس میں مثال نہیں ملتی کہ ایک شخص کو ہم سب ڈاکٹروں نے مردہ قرار دیا۔ اس کی دھڑکن بالکل بند ہوگئی۔ ہماری جدید ترین مشینوں نے اس کی موت کی تصدیق کردی… مگر تین منٹ کی اس موت کے بعد وہ بندہ ایسے ’’زندہ‘‘ ہو گیا، جیسے عام طور پر آدمی نیند سے جاگ اٹھتا ہے۔ حالانکہ دل کی دھڑکن تھم جانے کے 20 سیکنڈ بعد دماغ بھی مردہ ہوگیاتھا!۔ وہ مریض بعد میں درست ترین طور پر وہ سب مشاہدات بتاتا ہے جو اس کی ’’موت‘‘ کے بعد اس کمرے میں ہوئے۔ اس نے مشین کی آواز میں ہونے والی تبدیلی بھی درست طور پربتائی۔
ڈاکٹر پرینا کہتے ہیں کہ اس طرح کے تجربات ان افراد کو ہوئے جو موت کے قریب آکر زندگی کی جانب لوٹ آتے ہیں مگر ان کی زندگی بچانے کے لئے ڈاکٹرز انھیں آخری لمحات میں جان بچانے والی جو ادویہ استعمال کراتے ہیں، ان میں مسکن اثرات ہوتے ہیں جو ان کے حافظے پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں اور جانبر ہونے کے بعد انھیں وہ لاشعوری یا شعوری مشاہدات یا خواب جیسے تجربات یاد نہیں رہتے کہ آخر انھوں نے موت کا ذائقہ عارضی طور پر چکھنے کے دوران کیا محسوس کیا، کیا دیکھا اور خودکو کس حال میں پایا؟
نوٹنگھم ٹرینٹی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ وائلڈ ریسرچ سائیکلولوجسٹ ہیں جو اس موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں، جس کا عنوان ماورائے جسم یاExperience Out of Body ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’میڈیکل سائنس ترقی کے معراج پر پہنچ چکی ہے مگر پھر بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ موت کا عارضی تجربہ کرنے والے لوگ آخر کن تجربات، مشاہدات یا واقعات سے گزرتے ہیں، جب وہ طبی طور پر مردہ ہو چکے ہوں۔ ہم اتنی بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسے وقت جب کوئی مریض طبی طور پر مر چکا ہو، تب کچھ نہ کچھ عجیب ہوتا ہے۔ مگر وہ مریض چونکہ دوائوں کی بھاری ڈوز کے اثرات میں مبتلا ہوتا ہے، اس لیے بعد میں اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ یہ تو ایسے لاکھوں مریضوں میں سے صرف ستر پچہتر مریضوں کے بیانات میڈیکل سائنس کی تاریخ میں رقم ہوئے۔
یہ ریسرچ دنیا کے ایک معروف سائنسی جریدے میں شائع ہوئی تو سائنس اورتحقیقی حلقوں میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ جریدے کے ایڈیٹر انچیف ڈاکٹر جیری نولان نے اس پر تبصرہ کیا کہ یہ ریسرچ جس میں تقریباً 2 ہزار سے زائد قریب المرگ یا طبی طور پر مردہ Clinically dead لوگوں پر تجربات کیے گئے اور ان سے بعد میں ان کے مشاہدات معلوم کیے گئے، وہ ایک نئی جہت کھولتی ہے۔ اس سے انسانذات کا وہ سوال بھی حاصل ہونے کے امکانات روشن ہو رہے ہیںکہ موت کے بعد کیا ہوگا یا موت کے بعد بھی زندگی ہے یا نہیں؟ دو ہزار سے زائد ان مریضوں میں سے صرف 60 مریض بچ سکے اور ان میں سے 39 نے بتایا کہ انھوں نے موت کے بعد والی ’’زندگی‘‘کامشاہدہ کیا ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
موت اور شعور
موت سے متعلق جو سوال سب سے زیادہ سامنے آتا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ جب جسم مر جاتا ہے تو اس انسان کے شعور کا کیا ہوتا ہے؟ کیا موت کے بعد شعور بھی مر جاتا ہے۔ اس نظریے کے ماننے کو دائمی تغافل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جو لوگ اس نظریے کو تسلیم کرتے ہیں کہ طبعی موت کے بعد شعور ہمیشہ کے لئے محفوظ رہ جاتا ہے، اسے آخرت کی زندگی کہا جاتا ہے، یہاں شعور سے مراد روح لی جاتی ہے۔
موت کے تجربے کا قدیم ترین بیان
مغربی دنیا کی تاریخ میں عارضی موت کے قدیم ترین تجربے کے متعلق جو مواد ملتا ہے، وہ یونان کے دانشور و فلسفی افلاطون کا بیان کردہ ہے۔ اس نے 380 قبل مسیح میں اپنی معرکہ آرا کتاب ’’جمہوریہ‘‘ کی دسویں جلدمیں ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے، جس کا عنوان اس نے Myth of Er rکھا ہے۔ یہاں لفظ Myth سے اس کی مراد حقیقی داستان یا کہانی ہے، دیومالا نہیں۔ یہ کہانی Er نام کے ایک سپاہی کی ہے جو میدان جنگ میں مارا گیاتھا۔ تین دن بعد جب جنگ میں مرنے والوں کی نعشیں اٹھائی جا رہی تھی تو دیکھا گیاکہ اس شخص Er کی نعش خراب نہیں ہوئی تھی، بالکل تازہ حالت میںتھی۔ اس کے دو دن بعد جب اسے جنازے کی صورت اٹھا کر لے جایا جا رہا تھا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ اس نے لوگوں کو اپنی اس پانچ روزہ ’’موت‘‘ کے عرصے میں پیش آنے والے واقعات بتائے۔ اس نے ایک دوسری دنیا کی سیر کی بات کی، جہاں سیارے ستارے اس کے اردگردگھوم رہے تھے۔ اس کہانی سے افلاطون نے یہ سبق اخذ کیا ہے کہ نیک لوگوں کو دوسری دنیا میں بھی انعامات سے نوازا جاتا ہے اور گناہگاروں کو سزا دی جاتی ہے۔ اس کہانی نے صدیوں تک یونان اور دیگر ملکوں کے فلسفیانہ، مذہبی اور سائنسی تحریروں پراثرات مرتب کئے ہیں۔
عارضی موت کا ذائقہ چکھنے والے بتاتے ہیں:
انیتا مورجان ہانگ کانگ کی بھارتی شہری ہیں، جن کو آخری درجے کا سرطان یعنی Hodgkin’s Lymphoma تھا اور اسپتال والوں نے لاعلاج قرار دے دیا تھا، اس لیے ان کے گھر ہی پر ان کی دیکھ بھال کی جا رہی تھی۔ 2 فروری 2006ء کی صبح وہ معمول کے مطابق نیند سے بیدار نہ ہوئیں اور کوما میں چلی گئیں۔ ڈاکٹروں نے تفصیلی معائنہ کرکے بتایا کہ وہ اگلے 36 گھنٹے میں مر جائینگی۔ ان کے اعضائے رئیسہ کام کرنا چھوڑ رہے تھے اور جسم پھولنا شروع ہو گیا تھا۔ جلد بھی پھٹنے لگی تھی۔ اس حالت میں کمرے کے اندر جو کچھ ہو رہا تھا، ان سے متعلق جو کچھ گفتگو ہو رہی تھی اور کمرے سے تقریباً 40 فٹ دور اُن کے شوہر ڈاکٹروں سے جو گفتگو کر رہے تھے، وہ تمام کی تمام بعد میں انیتا نے اس طرح بتادی، جیسے ریکارڈ کرلی ہو۔ انھوں نے اپنی ’’مردہ‘‘ کیفیت میں یہ بھی ’’دیکھا‘‘ کہ ان کے بھائی، ان کی موت کی خبر سن کر دوسرے شہر سے طیارے کے ذریعے آرہے تھے۔ یہاں تک کہ بھائی نے ہوائی اڈے پر گھر پر فون کر کے اپنی فلائٹ کا نمبر بتایا تو وہ بھی بعد میں انیتا نے بتادیا، جس کی بھائی نے بہت بعد میں پہنچ کر تصدیق کی تھی کہ وہ واقعی اس نمبر کی پرواز میں آئے ہیں۔ انیتا اس کوما کی کیفیت میں کسی اور حال میں بھی چلی گئی تھیں۔ اس سے متعلق انھوں نے بتایا:
’’وہ عجیب جہت تھی، جس میں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ میرے ہر جانب پیار ہی پیار پھیلا ہے۔ مجھے وہاں یہ بھی واضح طور پر معلوم ہو گیا تھاکہ آخر مجھے کینسر کیوں ہوا تھا؟ میرے اہل خانہ نے میری عدم موجودگی میںمیرے لئے کیا کچھ کیا تھا؟… اور ہاں، یہ بھی معلوم ہوا کہ زندگی آخر کس طرح چلتی ہے؟ زندگی خود کیا ہے، اس کا جوہر کیا ہے؟ یہ سب بھی وہاں اس جہت میں پتہ چل رہا تھا اور کچھ مہربان قسم کی روحیں بھی میرے آس پاس گھوم رہی تھیں، جنھوں نے مجھے مخاطب کیے بغیر ’’سمجھا‘‘ دیا کہ اب اگر مجھے زندگی بخشی جائے تو مجھے اس زندگی کو زمین پر جنت کا نمونہ بناکر رہنا ہوگا۔ اس کے لیے مجھے وہاں غیر محسوس طور پر کافی باتیں سمجھائی گئیں اور یہ بھی بغیر بولے کہا گیا کہ مجھے اس تمام معلومات کو دنیا کے لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا ہوگا۔ اسی ’’شیئرنگ‘‘ کے مقصد سے انیتا نے بعد میں ایک کتاب ’’Dying to be me‘‘لکھ کر شائع کی۔ اس میں وہ لکھتی ہیں:
’’مجھے اس عجیب جہت یا ’’زمانے‘‘ میں یہ بھی پیشکش ہو ئی کہ میں چاہوں تو دنیاوی زندگی کی جانب لوٹ جائوں اوراگر نہیں چاہتی تو پھر موت کے اندھیرے میں کھو جائوں۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ اگر میں اس دنیا کی زندگی منتخب کروں گی تو میرا سرطان زدہ جسم بہت تیزی سے صحت مند ہوتا چلا جائے گا۔ اس جگہ میں نے یہ بھی سمجھا کہ کوئی بھی بیماری پہلے ہماری توانائی اور قوت ارادی کو متاثر کرتی ہے، اس کے بعد وہ جسم پر اثر انداز ہوناشروع کرتی ہے۔ یہ توانائی ہماری روح کے باعث ہمارے بدن کے اردگرد موجود رہتی ہے، اس کی کوئی مادی شکل نہیں ہوتی، مگر پھر بھی یہ ہمارے اوپر ہر پہلو سے اثر مرتب کرتی رہتی ہے۔ یہ سب کچھ سن اور سمجھ کر میں نے ایک بار پھر زندگی کو منتخب کیا۔ جب میں بیدار ہونے لگی تو مجھے لگا کہ سب ڈاکٹرز گھبرائے اور الجھے ہوئے ہیں اور وہ کچھ کچھ ڈرے سہمے بھی تھے کہ مجھے جاگتا دیکھ کر بھی میرے قریب نہیں آرہے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے چہروں پر مسکراہٹ چھانے لگی۔ انھوں نے بھاگ کر باہر کھڑی میری فیملی کو خوشخبری سنائی کہ جو اعضاء اپنا کام چھوڑ کر مردہ ہو چکے تھے، وہی اب نارمل طور پر کام کرنے لگے ہیں، یہ طبی سائنس کا معجزہ ہے وغیرہ‘‘۔
اس کے بعد انیتا تیزی سے صحت یاب ہونے لگی۔ ڈاکٹروں کو حیرت تھی کہ ایسا کیسے ہو رہا ہے؟ جب مریضہ ٹھیک ہو گئی تو وہ اصرارکرکے انھیں ہسپتال لے گئے اور کینسر کے ٹیسٹ دوبارہ، سہ بارہ لیے گئے۔ ان کے سر سے لے کر پیٹ تک لیموں کے برابر جو رسولیاں تھیں، وہ اب غائب ہو چکی تھیں، بس ان کی نشانیاں رہ گئی تھیں اور یہ نشانیاں بھی اگلے چھ ماہ میں ختم ہو گئیں۔ انیتا پوری طرح صحتیاب ہوگئیں۔ انھوں نے بعد میں سرطان کی سابقہ سرگرمی کو دیکھنے کے لیے ان کی بون میرو بایوپسی کرائی تاکہ اگر کچھ رہ گیا ہو تو کیموتھراپی کی جائے۔ مگر بون میرو میں بھی کچھ ظاہر نہیں ہوا۔ ڈاکٹرز تو جیسے پاگل ہوگئے۔ انھوں نے انیتا کے ایک کے بعد دوسرے ٹیسٹس کیے مگر سب کلیئر آرہے تھے۔ انیتا کہتی ہیں:
’’طبی سائنس کے لیے یہ واقعہ کچھ بھی ہو، میرے یہ نئی زندگی معجزہ ہے اور مجھے اب 200 فیصد یقین ہو گیا ہے کہ معجزے اب بھی ہوتے ہیں۔ زندگی یہ بھی ہے اور اس سے آگے بھی ہے۔ زندگی عظیم مقاصد کے لیے ہوتی ہے۔ مجھے وہ عظیم مقصد حاصل کرنے کے لیے دوسرا چانس ملا ہے تاکہ میں اس دنیا کو جنت بنانے کی کوشش کروں‘‘۔
موت کے بعد زندگی جنت ہے
ڈیوک یونیورسٹی کے نیوروسرجن ایبن الیگزینڈر اپنی کتاب ’’Proof of Heaven: A neurosergeons Journey into after life‘‘کے باعث دنیا بھر میں شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ کتاب نیویارک ٹائمز کی سوانح حیات کے شعبے میں برسوں تک بیسٹ سیلر کے مرتبے پر رہی ہے۔ اس میں مذکورہ نیوروسرجن نے خود اپنا تجربہ بیان کیا ہے جو انھیں 2008ء میں کوما کی کیفیت میںمبتلا ہونے کے دوران ہوا تھا۔ وہ بتاتے ہیں:
’’موت ایک نظر کا دھوکہ یا llusion ہے۔ قبر سے آگے ایک دائمی زندگی ہماری منتظر ہوتی ہے۔ اس زندگی میں فرشتے، پرکیف فضا،طرح طرح کی نعمتیں، ہم سے پہلے گزر چکے ہمارے رشتہ دار اور دہقانوں جیسے کپڑوں میں ملبوس خوبصورت لڑکیاں ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی۔ میں جب کوما کی کیفیت میں یہ سب دیکھ آیا تو پھرفیصلہ کرلیا کہ آئندہ جو زندگی مل رہی ہے، اس میں شعور کی درست طور پر تلاش کروں گا اور یہ حقائق بھی ثابت کرنے اور پھیلانے کی کوشش کروں گا کہ ہم انسان اپنے مادی دماغ سے بہت ہی آگے کچھ اور ہیں‘‘۔
“جنت” میں ڈیڑھ گھنٹہ
پیساڈینا کیلی فورنیا کا ریورینڈ ڈان ہائپر 1989ء کی ایک صبح اپنی کار میں ہائی وے پر جا رہا تھا کہ اس کی گاڑی، ایک اٹھارہ وہیلر ٹرک سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ موقع پر پہنچنے والے طبی عملے نے پائپر کو مردہ قرار دے دیا۔ وہ اگلے ڈیڑھ گھنٹے یعنی 90 منٹ تک ’’مردہ‘‘تھا، بعد میں جب وہ زندگی کی جانب لو ٹ آیا تو اس نے بتایا:
’’ایک راہگیر میرے مردہ جسم کے برابر کھڑا ہو کر دعائیں پڑھ رہا تھا۔ اسٹیئرنگ وہیل میرے سینے میں گھسا ہوا تھا اور کار کی چھت میرے اوپر ٹوٹ کر گری ہوئی تھی۔ اس لیے میرے بچ نکلنے کی امید نہ تھی۔ خواب کی اس کیفیت کے دوران مجھے جو تجربہ ہوا، اسے میں ’موت کے بعد کی زندگی‘ قرار دیئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ مجھے ایسی خوشبوئیں آرہی تھیں جو میں نے زندگی میں کبھی نہیں سونگھی تھیں اور ایسی آفاقی موسیقی سنائی دے رہی تھی جو میں نے اس دنیا میں قطعی نہیں سنی تھی۔ میرا دادا ایک جانب کھڑا مسکراتا ہوا مجھے خوش آمدید کہہ رہاتھا۔ ان کے ساتھ ہمارے وہ اعزاء کھڑے تھے جو بہت پہلے مر چکے تھے۔ وہ سب لوگ ایک ایسے شاہی دروازے کے سامنے کھڑے تھے جو رنگوں، روشنیوں اور پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ اس ’استقبالیہ کمیٹی‘میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جن کے متعلق میں کئی عشرے پہلے بھول چکا تھا کہ وہ کبھی ہمارے رشتہ دار رہے تھے اور دنیا سے گزر گئے ہیں‘‘۔
پائپر جب اس فانی دنیا میں ’’واپس‘‘ لوٹ آیا تو اس نے بھی اپنے تجربے سے متعلق کتاب لکھی، جس کا عنوان ’’ Minutes in Heaven 90‘‘ تھا۔ یہ کتاب بھی نیویارک ٹائمز میں بیسٹ سیلر رہی ہے۔ پائپر کو یقین ہے کہ قدرت نے اسے یہ دوسرا موقع اس لئے فراہم کیا ہے کہ اس فانی دنیا کو اگلی دائمی دنیا سے متعلق بتا سکے اور لوگوں کو جنت سے متعلق بھی آگاہ کرسکے۔
اداکارہ ایلزبتھ ٹیلر کا موت کے مقابل ہونا
ماضی کی سپر سٹار ایلزبتھ ٹیلر سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بھی ایک موقع پرسرجری کراتے ہوئے پانچ منٹ کے لئے موت کے منہ میں چلی گئی تھیں۔انھیں مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔ ایک انٹرویو میں اداکارہ نے اس تجربے سے متعلق معروف صحافی لیری کنگ کو اس کے مشہور پروگرام لیری کنگ لائیو میں بتایا تھا:
’’یہ واقعہ پچاس کی دہائی کے آخری برس کا ہے۔ جب میری سرجری ہو رہی تھی، تب میرے ڈاکٹروں کے مطابق میں اس آپریشن کے دوران جانبر نہ ہو سکی تھی اور انھوں نے مجھے باقاعدہ مردہ قرار دے دیا تھا۔ یہ کوئی پانچ منٹ کا عرصہ تھا، جس کے دوران میری دھڑکن رکی رہی اور دماغ بھی مردہ ہوگیا تھا۔ اس تھوڑے سے وقت میں، میں نے دیکھا کہ میں روشنی کی ایک سرنگ میں سے گزر کر پار پہنچی ہوں۔ وہاں میرے آنجہانی شوہر مائیکل ٹوڈ کھڑے تھے جو 1958ء میں ایک ایئر کریش کے نتیجے میںگزر گئے تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ میں نے اپنے شوہر سے بہت محبت کی تھی۔ اس لیے جب وہ مجھے نظر آئے تو میں نے ان کے ساتھ رہنا چاہا مگر مائیک نے مجھے سمجھایا کہ دنیا میں تمہاری ابھی کافی زندگی باقی ہے، تمھیں واپس جانا ہے اور بہت سارے کام کرنے ہیں۔ میں جب زندگی کی جانب لوٹ آئی تو کمرے میں گیارہ افرادکی میڈیکل ٹیم موجودتھی، جو مجھے مردہ قرار دے کر میرے مرنے کااطلاع نامہ لکھ کر دیوار پرچپکا چکے تھے۔ مگر میری زندگی ابھی باقی تھی، اس لیے میں ایک طرح سے جنت سے واپس اس دنیا میں لوٹ آئی‘‘۔
جارج، ایک دہریہ جو ’مر کر‘روحانیت کا علمبردار بن گیا
جارج رودونیا 1976ء میں روس سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹوں کے ہاتھوں حادثے کا شکار ہو کرتین دن سرد خانے میں ’’مردہ‘‘ پڑا رہا۔ وہ ایک نیوروپیتھالوجسٹ تھا، جس کے روسی حکومت سے اختلافات ہو گئے تھے۔ وہ جب ماسکو سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو رہا تھا تو کے جی بی والوں نے اسے ٹکر ماردی، جس کے نتیجے میں جارج موقع پر ہی ’’ہلاک‘‘ ہو گیا۔ اس کی نعش سرد خانے میں رکھوا دی گئی۔ جب تین دن بعد ایک ڈاکٹر نے اسے وہاں سے اٹھوا کر پوسٹمارٹم کے لے پیٹ چاک کیا تو اس پر انکشاف ہوا کہ جارج اب بھی سانس لے رہا تھا۔ اسے طبی امداد دی گئی تو وہ زندگی کی جانب لوٹ آیا۔ اس نئی زندگی میںجارج نے لادینیت ترک کردی اور مذہب اوردین کا قائل ہوگیا۔ اس نے مذاہب عالم اور روحانیت کا مطالعہ شروع کردیا۔ اپنی دوسری پی ایچ ڈی اس نے مذاہب کی نفسیات کے موضوع پر کی اور اس کے بعد ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ کا پادری بن گیا۔ جارج 1989ء میںروس سے امریکہ آیا اور وہاں ٹیکساس کے شہر بے ٹائون میں سینٹ پال یونائیٹڈ میتھوڈسٹ چرچ میں پاسٹر کے طور پر خدمات انجام دینے لگا۔ ڈاکٹر جارج رودونیا کی عارضی موت کے تجربات کو فلپ برمین نے اپنی کتاب The Journey homeمیں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جارج 2004ء میں ہمیشہ کے لئے دنیا سے گزر گیا۔
خطرناک جگہ کے دروغے بہت بھیانک ہیں
ویرونیکا الراٹک بار تھل 1980ء کے ایک دن اپنی کار میں ہائی وے پر جا رہی تھیں۔ طوفان بادوباراں اور گرج چمک کے باعث اس نے گاڑی کی رفتار کم رکھی تھی۔ مگر اچانک آسمانی بجلی اس کی گاڑی پر گری۔ اس کے بعد کی کہانی خود ویرونیکا کی زبانی پڑھیے:
’’پہلے مجھے لگا کہ میرے ہاتھوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ جب وہ آگ بڑھ کر مجھے اپنی لپیٹ میں لے چکی تو ایسا لگا کہ مجھے کسی نے اٹھا کر ایک ایسی جگہ پھینک دیا ہے، جو اپنی تمام علامتوں اور نشانیوں سے دوزخ لگ رہی تھی۔ مجھے خوفناک مخلوق نے اٹھایا اور لاکرایک ایسے کمرے میںپھینکاجو مجھے انتظار گاہ جیسا لگ رہا تھا۔ وہاں جو مخلوق کام کرتی نظر آ رہی تھی، وہ خوفناک فلموں میں دکھائے جانے والے کرداروں سے زیادہ ڈرائونی لگ رہی تھی۔ ان میں سے کچھ آگے آتے اور پہلے سے منتظر بیٹھے لوگوں کو اٹھا کر قریب موجود غاروں اور گڑھوں میں پھینک دیتے اور پھر ان پر اوپر سے تیر اندازی کرتے۔ وہاں اتنی بدبو تھی کہ سانس لینا محال تھا۔ اس سے آگے ایک آتش فشانی گڑھے میںبھی لوگ تھے جو تکلیف سے چلا رہے تھے۔ اس زمین پر ہرطرف سانپ رینگتے پھر رہے تھے‘‘۔
اتنا کچھ دیکھنے کے بعد ویرونیکا ہوش میں آگئیں تودیکھا کہ وہ ایک گاڑی میں لے جائی جا رہی ہیں۔ بعد میں انھیں بتایا گیا کہ انھیں مردہ قرار دے کر سردخانے لے جایا جا رہا تھاکہ وہ ’’زندہ‘‘ ہو گئیں۔
ڈاکٹر میری نیل کو قدرت نے پیشگی آگاہ کیا
ڈاکٹر میری نیل اپنے علاقے کی جھیل میں کشتی کھیتی جا رہی تھی کہ وہ الٹ گئی اور میری ڈوب گئی۔ ان کے زیرِ آب رہنے کا وقفہ تقریباً 25 منٹ کا تھا، جس میں میری نے موت کا ذائقہ چکھنے کی بات کی ہے۔ بعد میں اسے بچا لیا گیا مگر ریسکیو ورکرز نے یقین سے کہا تھا کہ وہ مر چکی ہے۔ ڈاکٹر میری اپنی اس عارضی موت کے دوران خود پر بیتنے والی کیفیت سے متعلق اس طرح بتاتی ہے:
’’مجھے ایک خوشگوار مقام پر موجود ہونے کا احساس ہوا۔ مجھے قدرت کافی ایسی باتوں سے آگاہ کر رہی تھی جو میرے لیے ایک طرح سے پیشن گوئیاں تھیں۔ مثلاً بتایا گیا کہ تم زندہ رہو گی اور اپنے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت کرو گی۔ مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ صدمہ کب اور کیسے دیکھوں گی۔ جب میں دوبارہ زندگی کی جانب لوٹی تو میری دونوں ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور پھیپھڑے اس طرح متاثر ہوئے تھے کہ میں زندگی بھر علاج کراتی رہی ہوں۔ میرا بیٹا وِلِی جس کے لئے صدمے والی پیشنگوئی ہوئی تھی، میں اس کی بہت حفاظت کرتی تھی مگر انیس سال کی عمر میں وہ سامنے سے آنے والی گاڑی کی ٹکر سے مجھ سے بچھڑ گیا‘‘۔
ڈاکٹر میری نیل نے اپنے تجربات سے متعلق To Heaven & Back کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔
موت کے مشاہدات او تجربات پر تحقیق انیسویں صدی سے مسلسل ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ وقیع کام ڈاکٹر ریمنڈ اے موڈی کا ہے، جن کی کتاب Life After Life دنیا بھر میں تہلکہ مچا چکی ہے۔ ڈاکٹر ریمنڈ اے موڈی کہتے ہیں کہ جس مریض کو مردہ قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ وہ ابھی زندہ ہوتا ہے تو وہ اپنی موت کا اعلان سن کر پریشان ہوجاتا ہے۔اس اعلان کے بعد وہ اپنی روح کو جسم سے باہر نکلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ ایک سرنگ سے گذرنے کا ہوتا ہے۔اس کے بعد اسے اپنے وہ عزیز نظر آتے ہیں جو بہت پہلے مر چکے ہوتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو اسے نور، روشنی اور آفاقی رنگ و خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ یہ اصل میں جنت کا نظارہ ہوتا ہے۔اس کے دوسری جانب بھیانک اندھیرے اور خوفناک آوازوں کا راج ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دوزخ ہوگی۔ اب اس بندے کو یہ بات سُجھائی جاتی ہے کہ وہ ان دو مظاہر کی حدود پہ کھڑا ہے۔ اگر وہ آگے بڑھے گا تو ہمیشہ عالم بالا میں رہے گا، جب تک کہ قیامت برپا نہ ہو۔ اور اگر وہ پیچھے لوٹنا چاہتا ہے تو اب بھی فانی دنیا میں اس کی باقی ماندہ زندگی اس کی منتظر ہے۔ اس طرح وہ شخص جیسے ہی اس دنیاوی زندگی کا سوچتا ہے تو اسے اپنا جسم نظر آجاتا ہے، جس کے گرد ڈاکٹرز کھڑے ہوتے ہیں اور اسے زندہ رکھنے کے جتن کر رہے ہوتے ہیں۔
اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں، جن میں لوگ خود بتاتے ہیں یا ان کے ڈاکٹرز اس طرح کے مشاہدات لوگوں کو بتاتے ہیں کہ کس طرح کوئی شخص موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کی موت کا ماہر ڈاکٹروں نے اعلان بھی کر دیا مگر وہ ایک بار پھر حیرت انگیز طور پر زندگی کی جانب لوٹ آیا اور اس وقفے سے متعلق، جسے ماہرین نے اس کی موت قرار دیا تھا، بہت ہی حیرت ناک، ’’غیردنیاوی‘‘ تجربات سے گزرنے کی باتیں بتائیں۔
ہم مسلمان لوگ موت کے بعد کی دائمی زندگی پر ایمان رکھتے ہیں مگر اوپر جتنے واقعات بتائے گئے ہیں، وہ سب غیرمسلموں کے ہیں اور ان کے نتیجے میں وہ لوگ بھی موت کے بعد کی زندگی کے نہ صرف قائل ہوئے بلکہ انھوں نے ملنے والی اس دوسری زندگی میں نیکی کی راہ بھی اپنائی ہے۔
اللہ بس، باقی ہوس