فنڈنگ او رفیڈنگ

بزرگ وبرتر اورعظیم المرتبت اللہ ربّ العزت کی زندگی بھر بندگی کیلئے ”عبادت“ اور”اطاعت“دونوں ناگزیر ہیں،عزازیل یعنی ابلیس بہت عبادت گزارتھا لیکن احکام الٰہی کی اطاعت سے انکار کے بعد اس کی عبادت بھی اکارت چلی گئی اوراسے بارگاہ الٰہی سے دھتکاردیا گیا۔اللہ ربّ العزت نے مختلف ادوارکی سرکش اقوام سے انتقام لیاہے، قرآن مجید اورتاریخ کے اوراق شاہد ہیں۔کس قوم پرکہاں اورکس طرح عذاب آیاتھا،قرآن مجید نے سب کچھ بتادیا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مشیت سے اس کی بے پایاں رحمت کواس کے غضب پرغلبہ حاصل ہے۔پاک پروردگار کے بینظیر محبوب سرورکونین حضرت سیّدنا محمدرسول اللہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم بھی دونوں جہانوں کیلئے سراپارحمت ہیں جبکہ دین فطرت اسلام امن وسلامتی کاعلمبردارہے تاہم ہمارا سچاربّ جو اپنے شایان شان ہم حقیر بندوں کے ساتھ سترماؤں سے زیادہ محبت اورہم پر رحم فرماتا ہے اس نے کسی انسان کوناحق موت کے گھاٹ اتارنے والے قاتل کیلئے سزائے موت مقررفرمائی ہے جبکہ سراپارحمت اور سرورکونین بھی اللہ ربّ العزت کی طرف سے خطاء کاروں اورگنہگاروں کیلئے مقرر کی گئی سزاؤں کے حامی ہیں۔اللہ ربّ العزت کی مقررہ حدودسے کوئی اسلام کاپیروکار تجاوزاورکوئی سچامسلمان ان میں مداخلت یاان کی مخالفت نہیں کرسکتا۔

اِسلامی تعلیمات کی روسے ایک انسان کاناحق قتل پوری انسانیت کاقتل ہے تاہم جس نے ایک انسان کو موت سے بچایایقینا اس نے پوری انسانیت کوبچایا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں ارشادفرمایا ”جان کا بدلہ جان ہے اور آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت اور زخموں میں قصاص ہے، سو کوئی اسے معاف کر دے تو وہ اس کی طرف سے کفارہ ہو جائے گا اور جو کوئی اللہ عزوجل کے نازل کئے ہوئے احکام کے موافق فیصلہ نہ کرے تو وہ ظالم ہیں“۔یادرکھیں کوئی بھی معاشرہ صرف بروقت اورسخت سزاؤں کی پختہ فصیل سے خطاؤں کے آگے بندباندھ سکتا ہے۔دِین فطرت اِسلام نے شروع سے اب تک خطاؤں اورسزاؤں کے معاملے میں کسی قسم کی مصلحت یا نرمی کامظاہرہ نہیں کیا۔بدقسمتی سے عہد حاضر میں ہمارے ہاں ہر طاقتور کیلئے ہمارا قانون موم کی ناک بن جاتا ہے لیکن جب بھی کسی کمزورنے انصاف کیلئے دروازہ کھٹکھٹایا تو”قانون“ نے ”قارون“ کا بہروپ دھارلیا۔جس معاشرہ کے افراد ایک دوسرے کااحساس اورایک دوسرے کے ساتھ انصاف نہیں کرتے وہاں زیادہ تر منصف بھی مصلحت پسند ہوتے ہیں لہٰذاء عالمی فہرست میں ہماری عدلیہ کی پوزیشن کاماتم کرنا کافی نہیں، بہتر ہوگاہم بھی اپنے اپنے گریبان میں ”جھانک“اورمٹھی بھردانائی ”پھانک“لیاکریں اورجہا ں جہاں ہمارے منصفانہ کردار کی باری آئے توہم بھی وہاں ڈنڈی نہ ماریں۔یادرکھیں ہم جودوسروں کودیتے ہیں وہ ہماری طرف پلٹ کرضرورآتا ہے۔جس بھائی نے باپ کے ورثہ میں سے اپنی بہنوں کاشرعی حق ہڑپ کیاہواس سے حساب ضرورلیاجائے گا۔

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے،”قریش کے سردار قبیلہ بنو مخزوم کی فاطمہ بنت اسودنامی ایک چور عورت کی ممکنہ سزا کے معاملے میں کافی پریشان تھے، انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا، اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم سے کون بات کرے گا، ان میں سے ایک نے جواب دیا”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ“کے سوا کون اس کی ہمت کر سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت اسامہ ؓنے آپ سرکارؐ سے عرض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو،“ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا، ”لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور حال شخص چوری کرتا تو اس پر”حد“ جاری کرتے، اللہ کی قسم! اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا۔اسلام دین فطرت ہوتے ہوئے انسانیت کی بہبوداوربقاء کیلئے سخت سزاؤں کابانی اورحامی ہے۔

پچھلے دنوں شہر لاہور میں ”Redemption Pakistan“نامی این جی اونے چند گمنام اورناسمجھ مردوزن کو ظہرانہ کے نام پر ایک نام نہاد کانفرنس میں مدعوکیااورانہیں پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں رائج سزائے موت کے قانون سے متنفراوربیزار کر نے کی مذموم سازش کرتے ہوئے انہیں اس شرعی سزا کیخلاف سوشل میڈیا پر آوازاٹھانے کیلئے اکسایا۔افسوس اس ہرزہ سرائی،جہالت اورمذموم جسارت کیخلاف ہمارے ارباب اقتدارواختیار اور علماء کی طرف سے کسی قسم کاکوئی ری ایکشن نہیں آیا۔یادرکھیں دریاؤں یانہروں میں جو بظاہرچھوٹا شگاف پڑتے ہیں وہ انتظامیہ کی طرف سے بروقت حفاظتی اقدامات نہ کرنے پر رفتہ رفتہ بڑے ہوتے اورپھر شدیدسیلاب کاسبب بن جا تے ہیں،اگرفتنوں کوبروقت نہ دبایا جائے تووہ بہت کچھ فنا کردیتے ہیں۔اس این جی او کے زیراہتمام کانفرنس میں شریک افراد کی بات چیت کوڈیوس روڈلاہورکے ایک ا نگریزی اخبار نے12 اکتوبر2025ء کو اپنی اشاعت کاحصہ بنایاہے، پاکستان کے زندہ ضمیر انسان 12اکتوبر1999ء کی طرح اب 12اکتوبر2025ء کو بھی یوم سیاہ کے طورپریادرکھیں گے۔

اس معمولی این جی او کی ہرزہ سرائی کابروقت اورسخت نوٹس نہ لیاجانا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے،ارباب اختیار کی مذموم واقعات سے مجرمانہ چشم پوشی اورخاموشی اسلامی ریاست اورمعاشرت کیلئے زہرقاتل ہے۔ یورپی ملک اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے پاکستان کے اندر سرگرم مخصوص اورمنحوس این جی اوز کی ”فنڈنگ“ اور”فیڈنگ“کرتے ہیں اور ان سے ہمارے معاشرے میں فتنہ انگیزی اورشرانگیزی کاکام لیاجاتا ہے۔یورپی ملکوں کے چند”وظیفہ خوروں“ اور”بونوں“ کی مدد سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سزائے موت کا قانون ختم نہیں کیاجاسکتا۔ پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں قاتل کوتختہ دار پرلٹکایاجاتا ہے اورآئندہ بھی لٹکایاجاتارہے گا۔ہمارے ہاں عیدالاضحی پر جانور کی کھال وصول کرنے کیلئے ڈی سی کااین اوسی ناگزیر ہے لیکن ایک انسان دوسرے کی کھال اتارنے کیلئے کسی ڈی سی یاڈی پی او کی اجازت کاپابند نہیں۔مجھے علم نہیں،مغرب کی محب این جی اوز ہوٹل سمیت کسی بھی مقام پراپناکوئی پروگرام منعقدکرنے کیلئے ڈی سی سے باضابطہ اجازت کی پابندہیں یانہیں،اگرنہیں ہیں توانہیں پابندکیاجائے۔ڈی سی کی تحریری اجازت کے بغیر ہال یا ہوٹل مالکان کی طرف سے کسی این جی اوکواپنی حدودکے اندرپروگرام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ڈی سی حضرات بھی این جی اوزسے ان کی تحریری درخواست کے ساتھ ان کا تحریری ایجنڈا وصول کئے بغیرانہیں کسی پروگرام کی اجازت نہ دیں۔

اللہ ربّ العزت کی متعدد اعلیٰ ترین صفات میں ر حمت کی صفت نمایاں ہے۔ معبودبرحق نے اپنی بے پایاں رحمت والی صفت کے باوصف سچے قرآن مجید کی سچی آیات کی وساطت سے ہم بندوں کوخود سے ڈرنے کی جوبیش قیمت”صلاح“ دی اس میں ہماری”اصلاح“اور”فلاح“کاراز پنہاں ہے۔اللہ تعالیٰ کے ڈر کاہنٹریقینا ہمیں برائیوں اوربربادیوں کی بندگلی میں نہیں جانے دیتا۔ یقینی اورسخت سزاؤں کے ڈر سے خطاؤں کے خطرناک طوفان تھم جایاکرتے ہیں۔قادر،قہار،کارسازاورقوی اللہ تعالیٰ کا”ڈر“ ہمیں اس کے ”در“سے جوڑتا،وہاں جھکاتا اورغرورسے بچاتا ہے۔گناہوں کے معاملے میں نڈر ہونا حماقت اورجہالت کے سوا کچھ نہیں۔تعجب ہے شہرت اورشہوت کاکوئی اسیر اپنے چہرے پرنقاب نہیں پہنتا،محض شہرت کی ہوس میں اپنی بدکاریوں،فنکاریوں اورشعبدہ بازیوں کی ویڈیوبنانے اورانہیں وائرل کرنیوالے ابوجہل کی باقیات میں سے ہیں۔

|جوملک اورمعاشرے مجرمانہ،باغیانہ اورجاہلانہ سرگرمیوں کے سدباب کیلئے سخت سزاؤں پرسمجھوتہ نہیں کرتے وہاں قانون کی حکمرانی اورانصاف کی فراوانی سے پائیدارامن اورحمیت کاراج برقراررہتا ہے لیکن جہاں مخصوص شتر بے مہاروں کی مہاریالگام نہ کھینچی جائے وہاں بے حیائی کادہکتا سورج سوانیزے پرآجاتا ہے۔یادرکھیں اللہ ربّ العزت کی مشیت کادوسرانام شریعت ہے،جس کسی نے اس سے انحراف،راہ فرار یاانکار کیاوہ دونوں جہانوں میں رسوا، ناکام اور نامراد ہوگا۔ہمارے برادراسلامی ملکوں سعودیہ اورایران میں بروقت،سخت اورسرعام سزاؤں کاسلسلہ ان کی معاشرت کیلئے امرت اورپاکستان سمیت ہراسلامی ریاست کیلئے قابل تقلید ہے۔سعودیہ میں سرعام کسی شاہراہ عام پر تلوار سے قاتل کواس کے منطقی انجام تک پہنچایا جبکہ ایران کے اندر انہیں کسی بڑے چوک میں تختہ دار پرلٹکایا جاتا ہے۔بے رحم قاتل یقینا بے رحمی سے بھرپورانتقام اورانجام کے مستحق ہوتے ہیں،قاتل پررحم کرنا معاشرے میں قتل عام کاراستہ ہموارکرنا ہے۔ہماری انتظامیہ بھی سی سی ڈی کی متنازعہ مہم جوئی کے بغیر بروقت شرعی سزاؤں کے بندسے مجرمانہ سرگرمیوں کے سیلاب کو روک سکتی ہے،جہاں انصاف آسان اورعام ہووہاں قتل عام نہیں ہوتا۔ پاکستان بحیثیت اسلامی ریاست ہراس فرد،طبقہ اور این جی اوکیخلاف انتہائی راست اقدام یقینی بنائے جو منظم”ایجنڈے“کے ساتھ شرعی سزاؤں کیخلاف شرانگیز”پروپیگنڈے“میں ملوث ہو

Author

اپنا تبصرہ لکھیں