پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ دنوں کی سخت سرحدی جھڑپوں اور اس کے تناظر میں بالترتیب دوحہ اور استنبول مذاکرات کے دوران آبی تنازعے نے بھی زور پکڑ لیا، جب افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے وزارت توانائی و آبپاشی کو ہدایت کی کہ وہ غیر ملکی کمپنیوں کا انتظار کیے بغیر کنڑ دریا پر جلد از جلد ڈیم کی تعمیر کا کام شروع کرے۔
افغان طالبان کے سرکاری میڈیا آؤٹ لیٹ الامارہ نے وزیر توانائی و آبپاشی عبد اللطیف منصور کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ دریائے کنڑ پر ساگی اور شال کے دو ڈیم تعمیر کیے جائیں تو ان سے 1,200 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، جو نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرے گی بلکہ پاکستان کے قریبی علاقوں باجوڑ، چترال اور دیگر سرحدی علاقوں کو بھی سستی بجلی برآمد کی جا سکے گی۔
غیر یقینی صورتحال اور آبی معاہدے کی عدم موجودگی میں اس ڈیم کی تعمیر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے۔ تاہم، دیگر تنازعات کی طرح یہ مسئلہ بھی کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ مخصوص اوقات میں وقتاً فوقتاً اٹھتا رہتا ہے۔
پچھلے تین سالوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی افغان سرزمین پر موجودگی سے جہاں سرحدات، مہاجرین اور تجارت سے متعلق کئی مسائل ابھریں، وہیں آبی تنازعہ بھی موضوع بحث بنا رہا۔
یہ آبی تنازعہ 2016 سے جاری ہے، جب بھارت نے افغانستان میں دریاؤں پر ڈیم بنانے کے لیے افغانستان کی مدد شروع کی تھی۔ 4 جون 2016 کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے سابق افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ صوبہ ہرات میں 30 کروڑ ڈالر کی لاگت سے ‘انڈیا افغان دوستی ڈیم’ کا افتتاح کیا تھا، جو افغانستان میں انڈیا کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کا مظہر تھا۔
وسطی ایشیاء جریدے میں شائع ہونے والے 2017 کے ایک ریسرچ آرٹیکل کے مطابق بھارت کی مدد سے افغانستان دریائے کنڑ پر 12 ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان آنے والے پانی کے بہاؤ میں کمی ہو سکتی ہے، جس سے پشاور وادی کی آبپاشی اور زراعت متاثر ہو گی۔
افغانستان میں امارت اسلامیہ کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو ان ڈیموں کی تعمیر ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھی۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے ابتدائی طور پر 34 صوبوں کے 420 اضلاع میں چھوٹے ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں دریائے کنڑ پر تعمیر ہونے والا ‘کنڑ ڈیم’ بھی شامل تھا۔
افغان وزارت توانائی نے سال 2024 کے آغاز میں کہا تھا کہ کنڑ ڈیم پر کام کے لیے بھارتی کمپنی کے ساتھ بات چیت جاری ہے، جس سے 45 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور زراعت کے علاوہ پانی کا انتظام بھی بہتر ہوگا۔ اس سے پہلے نائب وزیر اعظم برائے معاشی امور ملا عبدالغنی برادر نے کہا تھا کہ افغانستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دریائے کنڑ کا بہاؤ روکا جائے گا۔
ان دونوں بیانات کے جواب میں بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امارت اسلامیہ کا یہ فیصلہ یکطرفہ ہے، پاکستان کو اس پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تو سخت نتائج نکلیں گے۔
اس کے بعد اگست 2024 میں افغانستان کی وزارتِ پانی اور توانائی نے اعلان کیا کہ ایک چینی کمپنی نے کنڑ دریا پر تین بڑے ڈیموں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جن کی مجموعی پیداوار کی صلاحیت 2,000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی ہے۔
تاہم اب افغان وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ ‘ہم متعدد غیر ملکی کمپنیوں سے بات چیت کر چکے ہیں، مگر انہوں نے طویل عرصے کے باوجود کوئی حتمی جواب نہیں دیا، اس لیے اب ہم افغان سرمایہ کاروں کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں اور منافع کے ساتھ ملک کی تعمیر میں کردار ادا کریں۔’
دوسری جانب پاکستان کا خیال ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان میں پانی کی منتقلی متاثر ہوگی۔ افغان حکومت کے اس اعلان پر پاکستانی دفتر خارجہ نے جمعے کو کہا کہ اس معاملے کو مناسب طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔
دریائے کنڑ کیا ہے؟
چیئرمین سندھ طاس کونسل سلیمان خان نے تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ “دریائے کنڑ کو عمومی طور پر دریائے چترال بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان سے شروع ہونے والا دریائے چترال، دریائے کنڑ کا معاون دریا ہے، جبکہ دریائے کنڑ، دریائے کابل سے جا ملتا ہے۔ اسی طرح دریائے کابل آگے اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔”
آبی معاہدے کی عدم موجودگی سے متعلق سوال پر وہ بولے کہ “پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ موجود ہے۔ بھارت پاکستان میں داخل ہونے والے کسی بھی دریا پر ڈیم بناتے وقت اس معاہدے کے لائحہ عمل اور ضابطہ اخلاق کا پابند ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہے، اس لیے افغانستان قانونی طور پر ہزاروں ڈیم بنانے کا مجاز ہے۔”
سلیمان خان کہتے ہیں کہ “ہم نے بارہا مطالبہ کیا کہ اس معاہدے کی اشد ضرورت ہے۔ دریائے کابل پر ڈیم بنانے کے بعد پاکستان میں 7 سے 8 ملین ایکڑ فٹ پانی کم ہو جائے گا۔ سابق چیئرمین واپڈا جنرل (ر) مزمل حسین کے دور میں پاکستان نے ایک کابل ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنانے کی تجویز دی تھی، تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔”
پاک افغان آبی معاہدہ: دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند
دریائے کابل اور اس کے معاون دریا پر افغانستان کا 85 فیصد علاقہ آباد ہے، جبکہ پانی کی زیادہ ضرورت صرف 15 فیصد علاقے میں ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں ڈیموں کی تعمیر فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ بارش کے موسم میں پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے گا،ضرورت کے وقت بجلی پیدا کی جا سکے گی،زراعت کی ضروریات پوری ہوں گی، اور ڈیم کی موجودگی سے سیلاب کا خطرہ کم ہو جائے گا۔
سلیمان خان کے مطابق کنڑ ڈیم کوئی چھوٹا منصوبہ نہیں، اس کی تعمیر پاکستان پر اثر ڈالے گی۔ لیکن اگر دونوں ممالک باہمی معاہدے پر پہنچ جائیں تو یہ دریائے کابل اور پاکستان دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ معاہدے کے ذریعے ڈیموں میں پانی کی ذخیرہ اندوزی اور بہاؤ میں توازن قائم ہوگا۔ سیلاب کے دنوں میں پانی روکا جائے گا اور ضرورت کے وقت ڈیم کھول دیا جائے گا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ڈیموں کا مقصد پانی کو مستقل طور پر روکنا نہیں ہوتا، بلکہ ایک مخصوص مرحلے پر اس کا بہاؤ کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے۔ معاہدے کے تحت، سیلاب کے دنوں میں پانی ذخیرہ ہوگا، افغانستان ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرے گا اور اپنی زراعت کے لیے پانی استعمال کرے گا، جبکہ پاکستان بڑی تباہی سے بچ جائے گا۔”
سلیمان خان نے واضح کیا کہ “معاہدے کی غیر موجودگی نقصان دہ ہوگی۔ اگر افغانستان اپنی مرضی سے پانی روکے یا چھوڑ دے تو پاکستان کو غیر ضروری نقصان یا سیلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دشمنی یا غیر منظم پانی کے بہاؤ کی صورت میں صرف نقصان نہیں بلکہ تباہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے معاہدہ دونوں ممالک کے لیے سودمند اور ضروری ہے۔”