وزیرِ اطلاعات و نشریات پاکستان کے بقول پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے، جن کا بنیادی ایجنڈا افغان سرزمین کے استعمال سے سرحد پار دہشت گردی کو روکنا تھا۔
وزیرِ اطلاعات نے حکومتی موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے مذاکرات میں بارہا تحریری طور پر دو-حہ معاہدے کے وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا اور طالبا-ن وفد کے سامنے دہشت گردوں کی جانب سے سرحدی کارروائیوں کے شواہد پیش کیے گئے۔ اُن کے بقول میزبان ملکوں قطر اور ترکیہ نے میزبانی اور ثالثی کی مخلصانہ کوششیں کیں جن کے لیے پاکستان شکر گزار ہے۔
حکومتِ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ افغان وفد نے مذاکرات کے دوران پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبات تسلیم کیے اور پیش کیے گئے شواہد بھی قبول کیے گئے، مگر طالبان کی طرف سے کسی ٹھوس یقین دہانی یا ذمہ داری قبول نہیں کی گئی، اس لیے مذاکرات کسی قابلِ عمل نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ وزیرِ اطلاعات نے بتایا کہ طالبان وفد نے بعض مواقع پر الزام تراشی، ٹال مٹول اور مذاکرات کے بنیادی مدے سے انحراف کا راستہ اپنایا، جس کی وجہ سے بات چیت ناکام رہی۔
پاکستان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ افغان حکومت نے سرزمینِ افغانستان پر موجود دہشت گرد عناصر کی حمایت جاری رکھی، جس نے پاکستان کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ وزیرِ اطلاعات نے مزید کہا کہ افغان حکومت کو افغانستان کے عوام کی نمائندہ حکومت قرار دینا مشکل ہے اور وہ بقا کے لیے جنگی معیشت پر انحصار کرتی ہے؛ اسی پس منظر میں پاکستان نے متعدد مذاکرات کیے مگر افغان فریق کے رویّے سے اُطمینان حاصل نہیں ہوسکا۔ اُن کے الفاظ میں چار برسوں کی جانی و مالی قربانیوں کے بعد پاکستان کا صبر لبریز ہو چکا ہے۔
ایک طرف جہاں پاکستانی حکومت نے ثالثی کی کوششوں کو سراہا اور قطر و ترکیہ کو امن کے لیے ایک اور موقع دینے پر سراہا، وہیں وزیرِ اطلاعات نے واضح کیا کہ قومی سلامتی اولین ترجیح رہے گی۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ حکومت دہشت گردوں، اُن کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کے خلاف ہر ممکنہ اقدام اٹھائے گی اور تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے