پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت اور اہمیت ایک اہم ایشو ہے۔مایوسیوں، سازشوں اور انتظار کی راکھ میں دَبی یہ چنگاری ابھی بجھی نہیں۔کچھ ہی عرصہ بعداسے ہوا مِل جاتی ہے، پھر یوں ہوتا ہے کہ اخبارات وغیرہ میں چند روز مضامین اور کالموں کا غبار اٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ گرد بیٹھ جاتی ہے۔مگر چنگاری کو شعلہ بننے کا موقع نہیں مل پاتا۔یہ بھی الگ کہانی ہے کہ اس چنگاری کو ہوا کیوں ملتی ہے؟ مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ اس کے پیچھے اخلاص ہوتا ہے یا مفاد؟ چونکہ یہ ایشو بہت اہم اور عوام کی ضرورت کے مطابق ہے، اس لئے اِس پر کسی نہ کسی طرف سے آواز اٹھتی رہتی ہے۔ بحث ہوتی ہے، تجاویز سامنے آتی ہیں، جذبات کا اظہار ہوتا ہے، مایوسیوں کی کہانی ہوتی ہے، امیدوں کے چراغ جلتے ہیں، سب کچھ ہوتا ہے، مگر عمل نہیں ہوتا، کیونکہ جس نے عمل کرنا ہے وہ خاموش ہے، خاموشی کا یہ روزہ کبھی افطار بھی نہیں ہوتا ، جس نے عمل کرنا ہے وہ ہے ہر حکومتِ وقت۔
جب نئے صوبوں کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے پنجاب پر نظر پڑتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے دنیا میں تیرھوں بڑے ملک کا درجہ رکھتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت پنجاب کے اضلاع کی تعداد سولہ تھی، اب اکتالیس ہے، پورے ملک میں چھ ڈویژن تھے اور اب تیس سے زائد ہیں، مگر تعداد نہیں بڑھی تو وہ ہیں صوبے۔ قیامِ پاکستان کے چند ہی برس بعد پاکستان کو دو صوبوں میں ون یونٹ کی صورت میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ جن میں ایک صوبہ مشرقی پاکستان تھا اور دوسرا مغربی پاکستان۔ پھر اُنیس سو ستر میں ون یونٹ ختم کر دیا گیا، چاروں صوبے بحال کر دیئے گئے۔جب صوبوں میں اضافہ کی بات ہوتی ہے تو پنجاب کی تقسیم کا تصور ہی سامنے آتا ہے، یوں جنوبی پنجاب کی قسمت جاگتی محسوس ہوتی ہے۔ مگر جنوبی پنجاب کا معاملہ بھی بہت سادہ نہیں،جنوبی پنجاب کے آخری ضلع سے تخت لاہور کا فاصلہ موٹر ویز وغیرہ بن جانے کے باوجود بھی سات آٹھ گھنٹے پر محیط ہے۔ لاہور جانے آنے کا کم از کم خرچہ دس ہزار روپے تک ہے، ایسے میں اگر وہاں جانے پر عام آدمی کاکام نہیں ہوا، رات رہنا پڑگیا تو معاملہ اس سے بھی اوپر۔
جنوبی پنجاب کے مقدمے میں ایک بڑا مسئلہ صوبہ بہاول پور کی بحالی کا ہے۔ چونکہ پاکستان کے آئین میں نئے صوبہ کا قیام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پہلے متعلقہ صوبے میں دو تہائی اکثریت سے نئے صوبے کا بل منظور ہو، اس کے بعدیہی وظیفہ قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا میں بھی دہرایا جائے، پھر صدرِ پاکستان کی نگاہِ کرم کا انتظار۔ یہ اکثریت اب خواب ہی دکھائی دیتی ہے، مگر ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے یہ کام کرنا ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں، کیونکہ جب معزز ممبرانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کا موقع آتا ہے تو ّّمحمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپوزیشن (خواہ حکومت کوئی بھی ہو، زمانہ کوئی بھی ہو) کسی جماعت کی بھی ہو، ہر کام میں حکومت کی مخالفت کو فرضِ عین جانتی ہے، شاید یہی رسمِ دنیا ہے۔ حکومت کا فیصلہ یا بِل یا قرارداد خواہ کتنی بھی اچھی اور ملک و ملت کے لئے ضروری کیوں نہ ہو، اپوزیشن نے مخالفت کا فرض ہر قیمت پر نبھانا ہوتا ہے۔ مگر جب تنخواہوں میں اضافہ کا معاملہ آتا ہے تو سب شِیروشکر ہو جاتے ہیں، رسماً بھی مخالفت نہیں کرتے، کہ کہیں واقعی محروم نہ رہ جائیں۔
صوبوں کے قیام میں بھی سیاسی پارٹیوں کا عجیب رویہ ہے، جب کوئی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو نئے صوبے بنانے کی بھر پور حمایت کرتی ہے، الیکشن کے موقع پر بھی صوبوں کا وعدہ دہرایا جاتا ہے، مگر حکومت کے ایوانوں میں پہنچ جانے کے بعد سارے وعدے بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں۔ ون یونٹ کے قیام کے وقت بہاول صوبہ کی حیثیت سے موجود تھا، جونہی ون یونٹ ختم ہوا، بہاول پور کو پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ ریاست بہاول پور کے زمانے کے پاکستان پرنواب بہاول پور کے احسانات دیکھے جاتے تو بہاول پور کا اخلاقی طور پر ہی صوبہ بحال رکھا جاتا، جب پاکستان کے پاس اپنے ملازمین کو دینے کے لئے تنخواہ تک نہ تھی، تو نواب صادق خان عباسی پنجم نے پورے ملک کے سرکاری ملازمین کے لئے قائدِ اعظم کو چیک پیش کر دیا تھا، بے شمار مہاجروں کو ریاست بہاول پور میں زمینیں الاٹ کیں، اُن کو آباد کیا۔
انیس سو ستر میں جب ون یون ختم کرنے پر بہاول پور کی صوبائی حیثیت ختم کی گئی تو بہاول پور میں صوبہ بحالی کی تحریک نے زور پکڑا، تین اہم واقعات پیش آئے، اول ؛ تحریک میں دو افراد حکومتی گولی کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگئے۔دوم؛ اس کے بعد ہونے والے قومی الیکشن میں بہاول پور میں وہ تمام امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوئے جو صوبہ بحالی تحریک کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کے انیس سو تہتر کے آئین پر بہاول پور کے تین ممبرانِ قومی اسمبلی نے اس لئے دستخط نہیں کئے کہ اُن کا بہاول پور صوبہ بحالی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔بہاول پور میں یہ تحریک اب بھی موجود ہے، تمام قومی سیاسی پارٹیاں الیکشن کے موقع پر اس مطالبے کو اپنے زبانی منشور کا حصہ بنا کر عوام کے جذبات سے کھیلنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ میاں شہباز شریف کے وزارتِ اعلیٰ کے زمانے میں پنجاب اسمبلی نے مخدوم احمد محمود اور ڈاکٹر سید وسیم اختر کی کوششوں سے قرار داد منظور ہو گئی تھی، مگر قومی اسمبلی میں اسے طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا، حالانکہ پی پی حکومت نے بھی صوبہ بحالی کا وعدہ کیاہوا تھا۔جنوبی پنجاب میں اب سرائیکی صوبہ کے قیام کا مطالبہ بھی موجود ہے۔ بڑی پارٹیوں نے صوبوں کے قیام کو صرف نعرے کی حد تک ہی اپنا رکھا ہے، ورنہ حکومتوں کے لئے کیا مشکل ہے۔
گزشتہ حکومت کی اعلان کردہ پانچ تحصیلوں کو بھی ضلع کا درجہ دیا گیا ہے، چند ماہ قبل اُن کا نوٹیفیکشن ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہاول پور ڈویژن کی تحصیل صادق آباد اور خان پورآبادی کے لحاظ سے پنجاب کے تیرہ اضلاع سے بڑی ہیں۔ایک تحصیل احمد پور شرقیہ پنجاب کے آٹھ اضلاع سے بڑی ہے، اسی طرح بہاول پور کی تحصیل حاصل پور تین اضلاع سے بڑی اور بہاول پور سے نوے کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ صوبے بنانا تو دور کی بات ہے ، بہاول پور میں اضلاع بھی نہیں بنائے جارہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں بننے والا ہر ضلع بہاول پور کی تحصیلوں سے چھوٹا ہے۔ صوبے بننے میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بدنیتی کے علاوہ کچھ بھی رکاوٹ نہیں، مگر بہاول پور ڈویژن میں اضلاع کے قیام میں شاید مقامی ممبرانِ اسمبلی کی عدم دلچسپی اور کسی حد تک نااہلی کا بھی بہت عمل دخل ہے۔