امریکہ کی ریاست مشی گن میں سائنسدانوں نے کینسر کے علاج کا ایک نیا اور انقلابی طریقہ دریافت کیا ہے۔ اس طریقے میں مریضوں کا علاج کسی سرجری یا دردناک عمل کے بغیر صرف آواز کی لہروں سے کیا جاتا ہے۔ اسے ہسٹوٹرپسی کہا جاتا ہے، جو الٹراساؤنڈ لہروں کے ذریعے جسم کے اندر موجود ٹیومر کو توڑ دیتا ہے۔
یہ علاج سب سے پہلے جگر کے ٹیومر کے لیے استعمال کیا گیا، اور امریکی ماہرین نے اسے باضابطہ طور پر منظور بھی کر لیا ہے۔ تجربات سے پتا چلا ہے کہ یہ طریقہ نہ صرف مؤثر ہے بلکہ محفوظ بھی ہے۔ مریضوں کو نہ نشہ دینا پڑتا ہے، نہ زخم لگتے ہیں، اور وہ علاج کے فوراً بعد گھر جا سکتے ہیں۔
اس علاج میں آواز کی طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ الٹراساؤنڈ لہریں جسم کے اس حصے پر مرکوز کی جاتی ہیں جہاں ٹیومر موجود ہوتا ہے۔ یہ لہریں ننھے بلبلے پیدا کرتی ہیں جو پھٹ کر کینسر کے خلیوں کو ختم کر دیتے ہیں، اور پھر جسم کا مدافعتی نظام باقی خلیوں کو خود ختم کر دیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اس وقت صرف جگر کے کینسر کے لیے استعمال ہو رہی ہے، لیکن مستقبل میں اسے گردوں اور لبلبے کے کینسر کے علاج میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر ژین شو، جنہوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا، کہتی ہیں کہ “کینسر کے مریضوں کے لیے یہ امید کی نئی کرن ہے — ایک ایسا علاج جو محفوظ، تیز اور کم تکلیف دہ ہے۔”