ماہرینِ ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ آسٹریلیا کے بارانی (tropical) جنگلات اب کاربن جذب کرنے کے بجائے خود کاربن خارج کرنے لگے ہیں، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا ایک سنگین اشارہ ہے۔
سائنس جریدے “نیچر” میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، آسٹریلیا کے صوبہ کوئنزلینڈ کے جنگلات میں بڑھتی ہوئی گرمی اور خشک سالی کے باعث درختوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ نئے درختوں کی افزائش کم ہو گئی ہے۔
تحقیق کے مطابق، تقریباً پچیس سال پہلے سے ان جنگلات کے سوکھے تنے اور شاخیں جنہیں “ووڈی بایوماس” کہا جاتا ہے . کاربن جذب کرنے کے بجائے خارج کرنے لگی ہیں۔ یہ تبدیلی عالمی سطح پر کاربن کمی کے اہداف کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھی جا رہی ہے۔
تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر ہنا کارل کا کہنا ہے کہ موجودہ ماڈلز میں جنگلات کی کاربن جذب کرنے کی صلاحیت کو زیادہ سمجھا گیا ہے، لیکن اب یہ صلاحیت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق، درختوں کی اموات میں اضافہ درجہ حرارت میں شدت، فضائی خشکی اور خشک سالی کے باعث ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 49 سال کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئنزلینڈ کے جنگلات میں طوفانوں کی شدت اور تعداد دونوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے نئے درختوں کی افزائش مزید متاثر ہوئی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آسٹریلیا کے یہ جنگلات دنیا کے دیگر ٹراپیکل جنگلات کے لیے بھی ایک “انتباہی مثال” بن سکتے ہیں، کیونکہ باقی خطوں کے جنگلات بھی اسی طرح کے خطرات کا سامنا کر سکتے ہیں۔
آسٹریلیا دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو فی کس سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ حکومت نے آئندہ دس سالوں میں 62 فیصد تک کاربن اخراج کم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، لیکن فوسل فیول (تیل و گیس) کے بڑے منصوبوں کی اجازت دینے پر عالمی سطح پر تنقید جاری ہے۔