یہ ایک ایسا موضوع ہے جو سنجیدگی کے ساتھ زیرِ بحث لانے کا متقاضی ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی رویہ ہے جو مذہبی فضا میں پیدا ہوتا ہے مگر اپنے اندر نہایت سطحی نوعیت کے جذبات رکھتا ہے۔ بسا اوقات سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کسی بھی مذہبی شخصیت کی تصویر لگانا، اس پر دل فریب شاعری لکھنا، یا ان کی تصویر کے پس منظر میں عشقیہ شاعری کی ریکارڈنگ لگا کر ریلز بنانا اور اس سب کو واٹس ایپ اسٹیٹس کی زینت بنانا بظاہر ایک دینی وابستگی کا اظہار سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے پیچھے اکثر جذبات کی وہ سطحی لہر کارفرما ہوتی ہے جو مذہب کو صرف ایک رومانی تاثر تک محدود کر دیتی ہے۔ اس رجحان کو اگر ہم باریک بینی سے دیکھیں تو یہ دراصل مذہب کے تقدس کو ایک ایسے دائرے میں لے آتا ہے جہاں وہ محض شخصی کشش کا ایک سبب اور بہانہ بن کر رہ جاتا ہے۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ مذہب اور روحانیت جیسی عظیم شئے ایک ذاتی دل چسپی یا تفریح کے آلے میں بدل چکی ہے۔ نوجوان لڑکیاں کسی عالم دین، مبلغ یا دینی رہنما کی شخصیت سے اس حد تک متاثر ہو جاتی ہیں کہ ان کی باتوں کو محض ہدایت یا علم کے لیے نہیں بلکہ جذباتی تسکین کے لیے سنتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے اکاؤنٹس بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں جہاں کسی مذہبی رہنما کی تصویر کے ساتھ سطحی قسم کے رومانوی اشعار لکھے ہوں گے۔ “ان کی محفل میں نصیر ان کے تبسم کی قسم” والی ریلز سے شاید ہی کوئی مذہبی شخصیت بچ پائی ہو۔ یہ عمل نہ صرف مذہب کے وقار کو مجروح کرتا ہے بلکہ ایک ایسا اخلاقی بحران پیدا کرتا ہے کہ جہاں دین کا اصل مقصد نظر انداز کر کے اسے اپنے جذباتی کھیل کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض لڑکیاں مذہبی لبادہ اوڑھنے والے نوجوانوں سے متاثر ہو کر ان کے قریب آنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ جو شخص دین کی بات کرتا ہے وہ لازماً نیک، مخلص اور شفاف کردار کا حامل ہوگا۔ مگر یہ گمان اکثر انہیں مایوسی کی طرف لے جاتا ہے جب وہ دیکھتی ہیں کہ سامنے والا شخص ان کی دل چسپی کو محض وقتی تعلق کے طور پر لیتا ہے، شادی کے وعدے کرتا ہے مگر نبھاتا نہیں، اور یوں وقت گزاری کا ایک سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس طرح کے تعلقات نہ صرف دینی اور اخلاقی لحاظ سے نقصان دہ ہیں بلکہ نفسیاتی سطح پر بھی لڑکیوں کو توڑ دیتے ہیں اور انہیں مذہب سے بےزاری تک پہنچا سکتے ہیں۔
یہ صورتِ حال مذہب کے تصورِ تقدس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ جب مذہب کو عشق و محبت کے کھیل میں تبدیل کر دیا جائے تو اس کی اصل روح ختم ہو جاتی ہے۔ مذہب کا مقصد انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت ہے، اسے خدا سے جوڑنا ہے، لیکن جب اسے محض کسی شخصی کشش کا وسیلہ بنا دیا جائے تو یہ تعلق ایک کھیل، ایک تفریح اور بعض اوقات ایک جذباتی لت میں بدل جاتا ہے۔ ایسے میں نہ تو دین کی حرمت باقی رہتی ہے اور نہ ہی فرد کا باطنی سکون قائم رہتا ہے۔
یہ رویہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ ہمارا معاشرہ مذہب کے ساتھ کس قدر سطحی سطح پر جڑا ہوا ہے۔ ہم دین کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر اپنانے کے بجائے اسے اپنے ذوق اور جذبات کے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں۔ مذہبی ٹھرک پن اسی بیماری کا نام ہے کہ ہم دین کو اپنی جذباتی کم زوریوں کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں، نہ کہ ان کم زوریوں پر قابو پانے کے لیے۔ یہ کسی ایک صنفِ جنس کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر سینکڑوں نوجوان نظر آئیں گے جنہوں نے مذہب کو اپنے لیے ایک طرح کا “برانڈ” بنا لیا ہے، انہوں نے داڑھی رکھی ہوگی، ٹوپی پہنی ہوگی، مذہبی جملے استعمال کریں گے، ان کی ہر ریل میں “حلال” “نکاح” اور “اسلامک” جیسے الفاظ ہوں گے اور اس سب کے ذریعے اپنی شخصیت کو دل کش بنا کر دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مذہب اور شخصیت کے درمیان نہ صرف فرق قائم کریں، بلکہ مذہب کی اصل روح اور مقصد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دین کے احترام کا مطلب کسی خاص شخصیت پر فریفتہ ہو جانا نہیں ہے بلکہ دین کے اصولوں اور تعلیمات کو اپنانا ہے۔ کسی بھی عالم، خطیب یا مبلغ کا احترام اپنی جگہ مگر اس کی شخصیت کو عشق و محبت کا مرکز بنا دینا ایک غیر متوازن رویہ ہے۔ یہ رویہ نہ صرف فرد کو گم راہ کرتا ہے بلکہ مذہبی ماحول کو بھی آلودہ کر دیتا ہے، کیونکہ وہاں دینی خلوص کی جگہ جذباتیت لے لیتی ہے۔
یہ بھی غور طلب بات ہے کہ یہ سب کچھ عموماً سوشل میڈیا کے دباؤ اور وہاں پائی جانے والی دکھاوے کی دنیا کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ جب ہر شخص اپنی زندگی کو کسی نہ کسی انداز میں پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو مذہب بھی ایک “ایکسسری” کی طرح استعمال ہونے لگتا ہے۔ مذہبی ریلز اور سٹیٹس اکثر حقیقی روحانیت کی بجائے محض ایک فیشن کے طور پر لگائے جاتے ہیں۔ جب مذہب کو فیشن اور اظہارِ برتری کا ذریعہ بنا دیا جائے تو اس کا اصل مقصد باقی نہیں رہتا۔
یہ رویہ ہمیں اس بڑے سوال کی طرف لے جاتا ہے کہ ہماری دینی تربیت میں کیا کمی ہے۔ اگر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دین کو محض ظاہری کشش کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین کی روح اور اس کی اصل تعلیمات ان کے دلوں تک نہیں پہنچ رہیں۔ ہمیں ایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں دین کو محبت اور عقیدت کے ساتھ سیکھا جائے لیکن اس محبت میں شعور اور سنجیدگی بھی شامل ہو۔
اگر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دین کا تعلق جذبات سے زیادہ ہدایت اور تقویٰ سے ہے۔ محبت اگر دین کی ہو تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو، اگر ہم کسی عالم سے محبت کرتے ہیں تو وہ بھی اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا کی خاطر ہو۔ دین کی محبت میں کوئی شخص ہمیں متاثر بھی کرے تو ہمیں اپنی جذباتیت پر قابو رکھنا چاہیے اور تعلقات کو ایسے رخ پر نہیں لے جانا چاہیے جو ہمیں دین سے دور کر دے۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مذہب کوئی کھیل نہیں بلکہ زندگی کا سب سے سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگر ہم نے اسے جذبات کی دنیا میں قید کر دیا تو یہ ہمیں اس کی اصل روشنی سے محروم کر دے گا۔ مذہبی ٹھرک پن ایک فکری و اخلاقی بیماری ہے جس کا علاج دین کی اصل تعلیمات کو شعور کے ساتھ سمجھنے اور اپنانے میں ہے۔ جب تک ہم دین کو محض رومانوی کیفیت یا وقتی کشش کا ذریعہ بناتے رہیں گے،نہ ہمارا دل سکون پا سکے گا اور نہ ہی ہم اپنی روح کو پاکیزگی فراہم کر سکیں گے۔