پاکستان کی آئینی تاریخ میں 1973ء قومی میثاقِ مقدس کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ عہد نامہ ہے جو نو تشکیل شدہ اسلامی جمہوریہ کی نظریاتی اساس کی حفاظت اور اس کے اسلامی تشخص کو دوام بخشنے کا ضامن ٹھہرا۔ جب بھی اس دستور میں کسی بڑی تبدیلی یا ترمیم کی بازگشت سنائی دیتی ہے تو نہ صرف سیاسی حلقوں میں ہلچل مچتی ہے بلکہ امت مسلمہ کے غیرت مند اور مذہب پسند طبقے کے ہاں بھی تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
آئین کا مقصد وقت کے ساتھ ساتھ قوم کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنا ہے اور اس میں ترامیم کا لایا جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ لیکن جب یہ ترامیم کسی نظریاتی کمپرومائز کی طرف اشارہ کرنے لگیں، یا ریاست کے بنیادی مذہبی خدوخال کو دھندلانے لگیں، تو اہل ایمان کے لیے یہ سوال اٹھانا ناگزیر ہو جاتا ہے کہ آیا یہ تبدیلی اصلاح کی نیت سے لائی جا رہی ہے یا یہ کسی وسیع تر ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک کے اسلامی ڈھانچے کو کمزور کرنا ہے۔ فکری دیانت کا تقاضا ہے کہ ہم ہر ترمیم کو عوامی فلاح اور اسلامی روح کے تحفظ کی میزان پر تولیں۔
موجودہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے خدشات کی جڑ دراصل اسی بنیادی آئینی معاہدے کو نشانہ بنانے کا خوف ہے جو مسلمانوں کے عقائد اور ملی غیرت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اہل فکر کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی، حکومتی اختیارات میں اضافہ یا عدلیہ کے ڈھانچے میں رد و بدل تو بظاہر محض انتظامی معاملات ہیں، مگر اس کی آڑ میں ان حساس شقوں کو بدلنے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے جو ہمارے ایمان اور اسلامی شناخت کی محافظ ہیں۔
ان تمام تحفظات میں سب سے زیادہ تشویش ناک وہ قیاس آرائیاں اور اطلاعات ہیں جو آئین کے آرٹیکل 260 کی ممکنہ تبدیلی یا اس پر پڑنے والے اثرات کے گرد گھومتی ہیں۔ یہ وہ تاریخی شق ہے جس کے تحت 1974ء میں احمدی گروہ (قادیانیوں) کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ یہ ترمیم ملتِ پاکستان کا اجماعِ کامل تھا جو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس شق میں کوئی بھی معمولی سی دراڑ ڈالنا یا اس کی آئینی حیثیت کو متزلزل کرنا پوری قوم کے بنیادی عقیدے پر حملہ تصور ہو گا، اور یہ ایک ایسا اقدام ہے جسے قوم کبھی بھی قبول نہیں کرے گی۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کچھ بیرونی اور اندرونی قوتیں ایک عرصے سے قادیانیوں کو ‘حقوق’ کے نام پر آئینی تحفظ دلوانے اور ان کے مذہبی تشخص کو بطور مسلمان تسلیم کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔ جب بھی کوئی بڑی آئینی ترمیم زیر بحث آتی ہے، یہ خدشہ اضافی قوت کے ساتھ سر اٹھاتا ہے کہ موجودہ حکومت غیر ملکی دباؤ کے تحت کہیں اسی مقدس حصار کو توڑنے کا ارادہ تو نہیں رکھتی۔ اگر ریاست نے اپنے دستور کی نظریاتی اساس اور تاریخ کے سب سے بڑے اجماع کی نگہبانی نہ کی تو یہ نہ صرف قومی انتشار کا باعث بنے گا بلکہ ریاست کی اسلامی شناخت پر بھی ایک ناقابل تلافی ضرب ہو گی۔
آئین میں ترامیم کو ہمیشہ شفافیت، پارلیمانی اتفاق رائے اور وسیع عوامی مشاورت کے ساتھ لایا جانا چاہیے۔ یہ ایک ناکام تجربہ ہوگا اگر کوئی بھی حکومت اپنے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے یا کسی بیرونی دباؤ کے تحت ان بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آئین کی روح اس کی نظریاتی اساس اور اس کے اسلامی اصولوں میں پیوست ہے۔ اگر یہ روح نکال دی گئی، تو آئین صرف مضبوط طبقات کی ڈھال بن کر رہ جائے گا، جو کہ یقیناً ملتِ پاکستان کے لیے خطرناک ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ یہ خدشات صرف آئینی ترمیم تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ حکومتی رویے اور اقدامات نے ان تحفظات کو مزید تقویت بخشی ہے۔ یہ تشویش اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو ملک میں مساجد اور مدارس کے لیے مخصوص اور تنگ کرنے والی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، اور احمدیوں کو ‘اقلیتی حقوق’ دینے کے نام پر آئین سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ سکھ برادری کو تو ان کے مذہبی اجتماعات کے لیے کھلی اجازت دی جاتی ہے، لیکن ایک مسلمان ملک میں غازی علم دین شہید اور مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال جیسی عظیم شخصیات کی برسیوں کو نہیں منانے دیا جاتا۔ حکومتی ترجیحات کا یہ دہرا معیار واضح طور پر مذہب پسند طبقے کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ریاست کا جھکاؤ نظریاتی اساس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ ان تمام اقدامات کے پس منظر میں ستائیسویں آئینی ترمیم کا آنا ایک سنگین خطرے کی گھنٹی ہے جو قوم کو اپنے ایمانی دفاع کے لیے تیار رہنے کی دعوت دے رہی ہے