لاہور کی 1200 سے زائد لائبریریوں پر تحقیق کرنےوالی ‘ہاشمی لائبریری’

ذیشان ہاشمی کا تعلق لاہور کے ایک علمی گھرانے سے ہے۔زمانہ طالب علمی سے ناطہ کتاب سے یوں جڑا اور لائبریریوں کی خاک ایسے چھانی کہ یہ ہی ان کی زندگی کا نصب العین بن گیا۔ اس وقت ذیشان ہاشمی لاہور میں لائبریری کی صورت خانقاہِ ہاشمیہ سجائے ہوئے ہیں۔ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد کی طرح اپنا در علم کے متلاشیوں کے لیے ہر وقت کھولے رکھتے ہیں۔ لاہور کا کوئی کوچہ، بازار، محلہ، عمارت اور مقام ایسا نہیں جس پر ان کے تحقیقی قلم کی چھاپ نا لگی ہو۔

طبیعت میں نرم گوئی اور شگفتہ مزاجی کے علاوہ ہلکی پھلکی ظرافت بھی پائی جاتی ہے۔ ہر موضوع پر اپنی رائے رکھتے ہیں اور ارشاد کرتے وقت ‘مجھ پر کفر کا فتوی نہ لگایئے گا’ کہہ کر پیشگی خبردار بھی کرلیتے ہیں۔ وہ گزشتہ چند سالوں سے لاہور کی چھوٹی بڑی لائبریریوں پر تحقیق کر رہے ہیں اور 1200 سے زائد لائبریریاں دریافت کرچکے ہیں۔

تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ‘اسکول کے زمانے میں والد اور والدہ کو باقاعدگی کے ساتھ کتابیں اور اخبار پڑھتے دیکھنے کے بعد تحقیق کا سفر شروع ہوا۔ اوائل میں ہی پنجاب پبلک لائبریری کا ممبر بنا اور مزید موضوعات پر تحقیق کے سلسلے میں دیگر عوامی لائبریریوں میں آنا جانا شروع ہوا۔ اسی دوران یہ احساس بھی ہوا کہ ان لائبریریوں کی ممبرشپ میرے پاس ہونی چاہیے کیونکہ بعض اوقات کوئی خاص کتاب کسی عام لائبریری میں ہی ملتی ہے’۔
‘دہلی گیٹ کے قریب ہی شاہ غوث لائبریری سو سال پرانی ہے جبکہ باغ جناح میں واقع دارالسلام لائبریری کو ساٹھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ یہ اتنی مشہور نہیں، مگر کتابوں کا ایک زبردست ذخیرہ اس میں موجود ہیں۔’

لائبریریوں سے منسلک ہونے کے بعد ذیشان ہاشمی نے عوام کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیےایک تحقیق کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ’لاہور کی لائبریریز کے نام سے میری کتاب لاہور کی باالخصوص اور پاکستان کی باالعموم چھوٹی بڑی لائبریریوں کا احاطہ کرے گی۔ ‘

ان کے اندازے کے مطابق لاہور میں پندرہ سو سے دو ہزار تک لائبریریاں موجود ہیں جن میں ایک کروڑ سے زائد کتب ہوسکتی ہیں۔ ان میں ذیشان ہاشمی 12 سو سے زائد لائبریریوں کو دریافت کرچکے ہیں۔ان کی تحقیق طلبہ اور محققین کے لیے روڈ میپ کا درجہ رکھے گی اور رہنمائی کرے گی کہ فلاں موضوع پر تحقیق کے لیے مواد کہاں پایا جاسکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ’ میری یہ کتاب زیر قلم ہے اور بہت جلد منظر عام پر آجائے گی۔ اس کتاب میں لائبریریوں کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے نمبر پر عوامی لائبریریاں ہیں جہاں عوام بغیر کسی روک ٹھوک کے جاسکتی ہے اور اپنی علمی پیاس بجھاسکتی ہے۔ دوسرے نمبر پر وہ ہیں جہاں مواد دیکھنے کے لیے اجازت کی ضرور ت ہوتی ہے ، تیسرے نمبر پر سرکاری اور نجی اداروں کی اپنی لائبریریاں ہیں۔’
‘لاہور کی تقریبا غیر رسمی طور پر ڈھائی کروڑ کے قریب آبادی ہیں۔ ظاہری طور پر اس میں ہزاروں لوگوں کی اپنی ذاتی لائبریریاں بھی موجود ہیں۔ اس کا بھی میں دورہ کرتا ہوں اور جہاں دس ہزار سے زائد کتب موجود ہو ، اس کو فہرست میں شامل کرلیتا ہوں۔’

ذیشان ہاشمی کو جب کسی لائبریری کاعلم ہوجاتا ہے ، تو وہ اپنی فائل لے کر اس کا رخ کرتے ہیں۔ لائبریری کے قیام، مقصد، قسم اور وہاں موجود کتب کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اسے ریکارڈ کا حصہ بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ اس کتاب میں عوامی لائبریریوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جبکہ ریسرچ لائبریریوں کے بارے میں مختصر تبصرہ ہے۔ مثال کے طور پر جامعہ پنجاب میں میرے علم کے مطابق 121 لائبریریز ہیں۔ اب یہاں جامعہ پنجا ب کی مرکزی لائبریری کا ذکر مفصل جبکہ شعبہ جات کی لائبریریوں کا مختصر ہوگا۔’

ذیشان ہاشمی سمجھتے ہیں کہ ‘اگر طلبہ شوبز پرتحقیق کرنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب ان کو بتائے گی کہ اس موضوع پر تحقیقی مواد کہاں دستیاب ہیں۔شوبز پر سب سے زیادہ کام ہمارے ہاں اقبال قیصر نے کیاہے جنہوں نے ‘فلم تے لاہور’ نامی شاندار کتاب لکھی۔ اب طلبہ کو بتا دیا جائے گا کہ یہ کتاب کہاں کس لائبریری میں موجود ہے۔’

ذیشان ہاشمی کی اس کاوش میں جہاں ہمیں علمی جھلک نظر آتا ہےوہیں دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا سبق بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ علم اپنے مقصد میں کامیاب ہی تب ہوتا ہے جب دوسرے اس سے فیض یاب اور مستفید ہو۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں