انسانیت کی تاریخ ہمیشہ طاقت اور مزاحمت کے درمیان لکھی گئی ہے۔ جب طاقت انسان کے وجود کو مٹانے پر تل جائے، تو مظلوم کی خاموشی بغیر کسی حرکت خود ہی اپنا دفاع کرنے لگتی ہے۔ ظلم جب اپنے وجود پر جواز تراشنے لگتا ہے تو دراصل اپنی شکست کا اعلان کر رہا ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھول جاتا ہے کہ روح پر قبضہ ممکن نہیں۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ تمام فراعین و نمارید اسی گمان میں تھے کہ وہ دلوں پر حکومت کر سکتے ہیں، مگر عام انسان کی آزاد روح نے ہمیشہ ان کے محلات کو جڑوں تک کھود دیا، یہاں تک کہ وہ اپنے تخت و تاج سمیت ایک عبرت ناک کہانی کے کردار بن گئے ۔ اکیسویں صدی میں یہی منظر آج غزہ کی زمین پر پھر سے دہرایا گیا جہاں ایک چھوٹے سے خطے نے نام نہاد آزادی اور مساوات کے نعرے لگانے والوں کے کھوکھلے افکار اور منافقت کو برسر بازار برہنہ کر دیا۔
7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والا یہ المیہ اب دو برس مکمل کر چکا ہے۔ مگر یہ دو سال صرف کیلنڈری عدد نہیں ہیں، یہ دو برس انسانیت کی پیٹھ پر زخموں کے کندہ نشان ہیں۔ ان دو برسوں میں زمین نے اتنا خون دیکھا جتنا شاید کبھی دیکھا ہو۔ غزہ کے گلی کوچے، جہاں کبھی بچوں کی ہنسی قلقاریاں مارا کرتی تھی، اب قبروں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ غزہ کا کوئی انسان، جانور، عمارت، سڑک، یہاں تک کہ شاید کوئی پتھر بھی ایسا نہ بچا ہو جس پر صیہونی درندے کے بارودی فنگر پرنٹس نہ لگے ہوئے ہوں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دو برسوں میں کم از کم چھیاسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔. غور کیا جائے تو ہر ایک انسان کی الگ کہانی ہے۔ ہر عدد کے پیچھے ایک چہرہ ہے، ایک نام ہے، ایک رشتہ ہے، اور نہ جانے کتنے ادھورے خواب ہیں۔زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بڑھ چکی ہے، نہ جانے کتنے لوگ اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں، اور کتنے ہی ایسے ہیں جو نہیں جانتے کہ ان قریبی ترین انسان زندہ بھی ہے یا نہیں؟
ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، اس تباہی سے اٹھارہ ارب پچاس کروڑ ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان اعداد کا حساب کون دے گا جو انسانوں کے کھو جانے کا ہے؟ رہائشی عمارات کا تہتر فیصد حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ لاکھوں عمارتیں یا تو زمین بوس ہو چکیں یا قابلِ رہائش نہیں رہیں۔ ان میں گھروں کے ساتھ ساتھ اسکول، مساجد اور ہسپتال بھی شامل ہیں۔ نہ جانے کون سا عالمی قانون ہے جو ایک نائن الیون کو لے کر پوری مسلم دنیا ہر دہشت گردی کا ٹھپہ تو لگا سکتا ہے، لیکن غزہ کا مکمل انفراسٹرکچر تباہ ہونے پر بھی وہ کان لپیٹے سویا ہوا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 97 فیصد تعلیمی ادارے کسی نہ کسی درجے کی تباہی کا شکار ہوئے۔ یونیورسٹیاں بند پڑی ہیں، اور لاکھوں بچے دو برس سے کسی باقاعدہ تعلیم سے محروم ہیں۔ صحت کا نظام بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آیا۔ تقریباً 84 فیصد طبی مراکز غیر فعال ہو چکے ہیں۔ کئی ہسپتال مکمل طور پر تباہ ہو گئے، اور جو بچے ہیں، وہاں بجلی، پانی اور ادویات نایاب ہیں۔ 36 میں سے بیشتر ہسپتال یا تو بند ہیں یا جزوی طور پر چل رہے ہیں۔ اس جنگ نے خاص سے لے کر عام تک کسی کو نہیں بخشا، یہاں تک کہ سچ سنانے اور دکھانے پر مامور میڈیا کے لوگ بھی نہیں بچ سکے اور تقریباً 247 سے 273 صحافی اور میڈیا ورکرز شہید ہوئے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غزہ برباد ہو چکا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ غزہ والوں کا ایمان پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔ وہاں عورتیں آج بھی اپنے بیٹوں کی شہادت پر سر بلند رکھتی ہیں۔ وہاں مسجدیں تباہ ہو گئی تو کیا ہوا؟ غزاوی مرد راکھ پر بھی اسی خشوع سے سجدہ کرتے ہیں جس خشوع سے وہ سنگ مر مر کے سپید پتھروں پر کیا کرتے تھے۔
فکری زاویے سے دیکھا جائے تو یہ اگرچہ دوملکوں کی سیاسی جنگ ہے، مگر سارے عالم کا اخلاقی امتحان بھی ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں، امن کے دعوے دار اداروں اور انسانیت کا جھوٹا نقاب پہنی تنظیموں کے لبوں پر ایک خوفناک خاموشی ہے۔ یہ خاموشی دراصل ضمیر کی موت کا سوگ ہے۔ جب دنیا بچوں کے قتل پر بھی “سیاسی پیچیدگی” کے جملے تراشنے لگے تو سمجھ لیجیے کہ تہذیب اپنی بنیادوں سے ہل چکی ہے، اور اس پر ماتم کرنے کا وقت سر پر آ چکا ہے۔