برتولٹ بریخت ایک جرمن شاعر اور ڈراما نگار تھے۔ وہ 10 فروری 1898ء کو پیدا ہوئے اور 14 اگست 1956ء کو مشرقی برلن میں وفات پا گئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ :”اگر تم کسی قوم کو تباہ کرنا چاہو تو ان کی خوراک کا راستہ بند کر دو؛ باقی تباہی خود بخود آ جائے گی۔”
عصرِ حاضر میں اگر خوراک کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی سب سے واضح اور بےرحم مثال دیکھی جائے، تو غزہ اس کی تصویر بن کر سامنے آتا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے تحت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض ایک عسکری تصادم نہیں، بلکہ جدید نسل کُشی کی ایک ایسی شکل ہے جس میں بھوکا مارنے کو ریاستی پالیسی بنا دیا گیا ہے۔ امدادی سامان سے بھرے ٹرک مہینوں بارڈر پر کھڑے گلتے رہتے ہیں، اور عالمی طاقتیں صرف “تشویش” کا اظہار کر کے اپنی سیاسی منافقت کو چھپاتی رہتی ہیں۔
اگرچہ جنگوں میں جانوں کا ضیاع کوئی نئی بات نہیں، لیکن مسلسل اور منظم طریقے سے خوراک، پانی اور دوا تک کی رسائی روک دینا ایک ایسا جرم ہے جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ اخلاقی ضمیر کی مکمل موت کا اعلان بھی ہے۔ اس وقت غزہ کے بچے اور بوڑھے، مرد اور عورتیں صرف بموں سے نہیں مر رہے بلکہ خوراک کی عدم دستیابی کے باعث سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔ اور یہ سب ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جسے عالمی طاقتیں خاموشی سے دیکھ رہی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف اسرائیل اس جرم کا مرتکب ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی بے حسی، فکری جمود، اور اخلاقی دیوالیہ پن اس المیے کو اور بھی گہرا کر دیتا ہے۔ جو لوگ “جسدِ واحد” ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کے ہاں کسی عضو کی چیخ و پکار پر کوئی ردعمل نظر نہیں آتا۔ اگر پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا کہ “مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں”، تو اس جسم کی رگوں میں خون کی جگہ اب شاید بے حسی اور خودغرضی نے لے لی ہے۔ آج اگر ایک طرف خوراک کا ہتھیار استعمال ہو رہا ہے، تو دوسری طرف مسلم دنیا کے بینک اور گودام حلق تک بھرے ہونے کے باوجود سیاست دانوں کے ضمیر مفلوج پڑے ہیں۔
یہ المیہ صرف فلسطین تک محدود نہیں۔ درحقیقت، عصرِ حاضر کا عالمی نظام’ خوراک کو ایک اسٹریٹجک آلہ بنا چکا ہے۔ وہ ریاستیں جن کے پاس وسائل کی کثرت ہے، وہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں خوراک کی رسد و طلب کو کنٹرول کر کے اپنی سیاسی پالیسیوں کو آگے بڑھاتی ہیں۔ بڑی بڑی کارپوریشنز زمینوں پر قبضے کر کے مقامی پیداوار کو عالمی منڈیوں کے تابع بنا دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر نام نہاد عالمی ادارے اس مسئلے پر بارہا بیانات جاری کرتے ہیں، لیکن ان کے عملی اقدامات سفارتی چالاکیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ جب اسرائیل انسانی امداد کی راہ داریوں کو بند کرتا ہے تو کوئی ادارہ اسے جواب دہ بنانے کی جرات نہیں کرتا۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ “انسانی حقوق” کا بیانیہ طاقت ور کے لیے تحفظ کا ضامن ہے، مظلوم کے لیے نہیں۔ انسانی وقار، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی جزو ہے، اس وقت عالمی سیاست کے سب سے بڑے مذاق میں تبدیل ہو چکا ہے۔
غزہ کا مسئلہ دراصل امت کے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے۔ یہ ہمیں بار بار جھنجھوڑ کر پوچھ رہا ہے کہ تمہارا ایمان کہاں ہے؟ کہاں گئے تمھارے بھائی چارگی کے نعرے؟ تمہارے اجتماعی فیصلے کس اصول پر مبنی ہیں؟ تمہاری قیادت، تمہاری دولت، اور تمہارے خزانے کس کے لیے ہے؟ اگر غزہ کے مظلوم بچے چیختے چیختے مر جائیں اور ہم محض مظاہروں، دعاؤں اور بیانات تک محدود رہیں تو ہم تاریخ کے صرف تماشائی نہیں بلکہ شریکِ جرم بھی ہوں گے۔
اب وقت ہے کہ حفظانِ خوراک کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے بیانیے کا مرکزی نکتہ بنایا جائے۔ اس کے لیے ہمیں فکری سطح پر تجزیہ، اخلاقی سطح پر جذبہ، اور عملی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ خوراک کی عدم دستیابی کو صرف ایک مسئلہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ جانا جائے کہ یہ محرومی ایک منصوبہ بندی کے تحت کی جا رہی ہے۔ ہمیں اپنی تعلیمی، مذہبی اور سیاسی گفتگو میں “حفظانِ خوراک” کو ایک نئے مفہوم کے ساتھ شامل کرنا ہو گا؛ ایسا مفہوم جو عدل، ہم دردی اور اخوت پر مبنی ہو۔