ڈیورنڈ لائن؛ ایک مفروضہ یا حقیقت؟

پاک افغان سرحد پر جھڑپوں کے بعد ڈیورنڈ لائن پھر سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی موجودہ حکومت کے کئی افغان وزراء اس پر بیانات دیتے آئے ہیں۔ 2023 میں افغان وزیر دفاع نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ “ڈیورنڈ لائن آج بھی ایک فرضی لکیر ہے۔ اس مسئلے کو ہم حکومتِ پاکستان کے سامنے مناسب وقت پر اٹھائیں گے۔”

اس تحریر میں ذرا تاریخی پس منظر سے جائزہ لیتے ہیں کہ آیا ڈیورنڈ لائن ایک حقیقت ہے یا محض ایک مفروضہ۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر میں آزاد پختون ریاست کا مطالبہ کوئی ایک صدی سے زائد پرانا ہے۔ 19ویں صدی میں جب برطانیہ نے پختون علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا، تو پختون ایک افغان قوم کے طور پر زندگی گزار رہے تھے۔ اس وجہ سے برطانیہ کو ان علاقوں میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

پختونوں کی مستقل اور پرتشدد مزاحمت کو دبانے کے لیے برطانیہ نے ہزاروں فوجی ان علاقوں میں تعینات کیے مگر کارگر ثابت نہ ہوسکے۔ نتیجے کے طور پر ایک ایسی لکیر کی ابتدا ہوئی جو آج افغانستان اور پاکستان کے درمیان “ڈیورنڈ لائن” کے نام سے جانی جاتی ہے۔

1893 میں برطانوی ہند کے خارجہ سیکریٹری سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان کی رضامندی سے یہ لکیر کھینچ دی۔ اس لائن نے نہ صرف پختونوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا بلکہ عظیم افغانستان اور پختونستان جیسے نظریات کو بھی جنم دیا۔ پختون قوم کا ایک حصہ لکیر کے اس پار برطانوی ہند میں، اور دوسرا افغانستان میں رہ گیا۔

ڈیورنڈ لائن نے اگرچہ بعد کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا ہے، مگر یہ برطانوی استعماری پالیسی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی زندہ مثال ہے۔ اس پالیسی نے خطے میں دو بڑے سیاسی مطالبات کو جنم دیا۔

پہلا مطالبہ صوبہ سرحد کے خان عبدالغفار خان اور ان کے پیروکاروں کا تھا، جنہوں نے پختون قومیت اور اتحاد کا نعرہ بلند کیا، جو برطانوی پالیسی کے خلاف تھا۔

دوسرا مطالبہ کابل کی مختلف حکومتوں کی طرف سے تھا، جن کا مؤقف رہا کہ یہ لکیر بین الاقوامی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لیے آج بھی اسے ایک “فرضی لکیر” سمجھا جاتا ہے اور جس کا مٹایا جانا عظیم افغانستان کی تکمیل کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ 1893 میں افغان قیادت ڈیورنڈ لائن پر راضی تھی۔ صرف راضی ہی نہیں، بلکہ بعد ازاں اس معاہدے کی توثیق سے بھی کوئی انکار نہیں کیا گیا۔ تاہم 1949 میں افغان حکومت نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

سرحد کے دونوں جانب پختون قوم پرستوں نے پختونستان کے قیام اور عظیم افغانستان کے لیے کوششیں کیں۔ مگر سب سے بڑی رکاوٹ یہی لکیر رہی۔ تاہم، یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ تقسیمِ ہند کے وقت صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے عوام نے ریفرنڈم میں 99 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں دیا لیکن اس کے باوجود ڈیورنڈ لائن پر تناؤ برقرار رہا۔

1955 میں پاکستان میں “ون یونٹ” فارمولے کے خلاف کابل میں شدید احتجاج ہوا، دونوں ممالک نے اپنے سفارتی نمائندے واپس بلا لیے، اور معاملہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے تک جا پہنچا۔اس وقت پاکستان کے وزیرِ خارجہ حمید الحق چوہدری نے واضح کیا تھا کہ “ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحد ہے اور ہمیشہ رہے گی”۔

2006 میں خان عبدالغفار خان کے بھائی عبدالولی خان کی وفات پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اس لائن کو “نفرت کی لکیر” قرار دیا تھا۔ یقیناً، یہ “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی برطانوی پالیسی کا نتیجہ تھا۔ اب اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ انگریزوں کے انخلا کے بعد یہ لکیر خود بخود ختم ہو جانی چاہیے، تو اس دعوے کی حقیقت پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

سب سے اہم دستاویز معاہدہ راولپنڈی (1919) ہے، جو تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد طے پایا۔ اس معاہدے کے آرٹیکل 5 میں واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ “افغان حکومت انڈو-افغان سرحد کو تسلیم کرتی ہے، جسے ہمارے امیر عبدالرحمن نے قبول کیا تھا۔”

میرے خیال میں معاہدے کی اس شق کے بعد تمام تر دعوے، تجزیے اور بیانات بے معنی رہ جاتے ہیں۔ اس کے بعد 1921 میں ہونے والے معاہدہ کابل کی شق دو میں بھی اس کی توثیق کی گئی۔ ویسے بھی یہ استعماری دور کے قصے ہیں اور اب یہ بحث عبث ہے۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ اس سرحد نے تبدیل نہیں ہونا۔ اس لیے دونوں ریاستوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کر کے اکیسویں صدی کے لیے کوئی منطقی راہ نکال لینی چاہیے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں