ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ، لیکن کیوں؟

اس کائنات میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جب محض عمل کافی نہیں ہوتا بلکہ ہر عمل کی پشت پر ایک نظریہ، ایک شعور اور ایک فلسفہ ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ فلسطین اور خاص طور پر غزہ کی سرزمین، گزشتہ کئی دہائیوں سے ظلم، جبر اور استعماری قوتوں کی یلغار کا شکار ہے۔ یہاں ہونے والا ظلم صرف جغرافیائی یا سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ تہذیبی، انسانی اور اخلاقی سطح پر بھی ایک چیخ ہے جو پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔

جب ہم غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں صرف بمباری، شہادتیں، اور عمارتوں کا ملبہ نظر نہیں آنا چاہیے، بلکہ اس کے پس پردہ وہ عالمی نظام بھی دکھائی دینا چاہیے جو اس ظلم کو سہارا دے رہا ہے۔ وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جو اربوں ڈالرز کماتی ہیں، ان کے منافع کا ایک بڑا حصہ ان قوتوں کو جاتا ہے جو براہِ راست یا بالواسطہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی مصنوعات کا استعمال ایک فرد کی سطح پر معمولی عمل لگ سکتا ہے، مگر جب کروڑوں لوگ ایک ہی عمل دہراتے ہیں تو وہ ایک عالمی طاقت بن جاتا ہے۔

یہاں ایک فلسفیانہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خریداری ایک غیر سیاسی عمل ہے؟ کیا ایک شخص کا اپنی ضرورت کی چیز خریدنا محض ایک ذاتی فیصلہ ہے؟ اگر کوئی شخص ایسی مصنوعات خرید رہا ہے جو ایک ظالم ریاست کو تقویت دیتی ہیں، تو کیا وہ لا شعوری طور پر اس ظلم کا شریک نہیں؟ یہیں سے بائیکاٹ کا نظریہ جنم لیتا ہے۔ یہ کوئی وقتی ردعمل یا محض غصے کا اظہار نہیں، بلکہ ایک شعوری، نظریاتی اور اخلاقی عمل ہے جو فرد کو اجتماعی ضمیر سے جوڑتا ہے۔

بائیکاٹ صرف اس لیے نہیں کیا جاتا کہ ہم کسی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، بلکہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے طے کریں کہ ہمارا پیسہ کہاں جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا وجود، ہمارا سرمایہ، اور ہماری قوتِ خرید کسی ایسی طاقت کو نہ ملے جو بچوں کو شہید کرتی ہو، ہسپتالوں پر بم گراتی ہو، اور قرآن مجید کی بے حرمتی کرتی ہو۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا بائیکاٹ سے کچھ بدلے گا؟ کیا ہماری انفرادی کوشش کوئی فرق ڈال سکتی ہے؟ یہ سوال دراصل اس فکری یاسیت کا نتیجہ ہے جو استعماری نظام ہم پر مسلط کر چکا ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب شعور بیدار ہوتا ہے، جب فکر عمل میں ڈھلتی ہے، تو بڑی سے بڑی سلطنتیں بھی زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف عالمی بائیکاٹ کی مہم ایک زندہ مثال ہے۔ اس بائیکاٹ نے عالمی رائے عامہ کو بدل دیا، معیشت پر دباؤ ڈالا، اور ایک ظالم نظام کو ختم کر دیا۔

بائیکاٹ کا فلسفہ اس سے بھی گہرا ہے۔ یہ فرد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی پر غور کرے، اپنی ترجیحات کا جائزہ لے، اور اپنی اخلاقی ذمہ داری کو پہچانے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ نہایت اہم ہے کیونکہ اسلام نہ صرف عبادات بلکہ معاملات میں بھی حق و باطل کی تمیز سکھاتا ہے۔ قرآن ہمیں بار بار ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا حکم دیتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم کو روکنے کے لیے زبان، ہاتھ یا دل سے مخالفت کرو۔ بائیکاٹ کم از کم وہ عمل ہے جو ایک عام انسان بھی خاموشی سے کر سکتا ہے مگر اس کی گونج دشمن کے ایوانوں تک سنائی دیتی ہے۔

یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ بائیکاٹ ایک طویل المیعاد جدوجہد ہے۔ یہ وقتی جذبات سے نہیں بلکہ مسلسل شعور، تعلیم، اور بیداری سے جُڑا ہوا عمل ہے۔ اس میں استقلال، قربانی اور وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں صرف پراڈکٹس سے نہیں بلکہ اس سوچ سے بھی بائیکاٹ کرنا ہے جو ہمیں غلامی، غفلت اور بے حسی سکھاتی ہے۔

آخر میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر ہم واقعی غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہیں، اگر ہم ان کے درد کو محسوس کرتے ہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین آزاد ہو، تو ہمیں اپنی عملی زندگی میں بھی اس احساس کو جگہ دینی ہو گی۔ ہمارا پیسہ، ہمارا طرزِ زندگی، اور ہماری ترجیحات؛ یہ سب گواہی دیں کہ ہم کسی ظالم نظام کے سہولت کار نہیں بلکہ ایک بیدار، با شعور اور حق پرست امت کا حصہ ہیں۔ یہی بائیکاٹ کی روح ہے، یہی اس کا نظریہ ہے، اور یہی اس کا فلسفہ۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں