دنیا ایک عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد جس خاموشی نے عالمی ضمیر کو اپنی گرفت میں لیا ہے، اس نے صاف بتا دیا کہ انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور جمہوری قدریں اصل میں طاقت کے کھیل کے مقابلے میں ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ گئی ہیں۔ اسرائیل نے جس بےرحمی سے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنایا، اور پھر جنگ بندی کے اعلان کے باوجود بمباری جاری رکھی، اس نے اس دعوے کی قلعی کھول دی کہ مغربی طاقتیں امن کی خواہاں ہیں۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ امریکی قوت امن منصوبے کے پردے میں اسرائیل کی حکمتِ عملی کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
ایسے میں فلسطینی کھلاڑی، فن کار، دانش ور اور عام شہری پوری دنیا میں ایک ہی آواز بلند کر رہے ہیں کہ دنیا اس قبضے کو روکنے کے لیے آواز بلند کرے۔ اس وقت اسپین میں فلسطینی قومی فٹبال ٹیم کھیلنے کے لیے موجود ہے۔ ان کے کوچ ابو جزر کے الفاظ کسی بھی مطمئن دل کو چھلنی کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نصف سے زیادہ کھلاڑی اپنے گھر، اپنے رشتے دار اور اپنے دوستوں کو کھو چکے ہیں۔ ان کے پاس فٹبال کے میدان تک نہیں بچے، وہ نکلے تو کھیلنے کے لیے ہیں، لیکن دنیا تک فلسطینیوں کا دکھ اور درد پہنچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ عالمی ضمیر اس وقت کان لپیٹے خراٹے لے رہا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی امن منصوبے کی بات تو کر رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ امن کس کے لیے؟ حملہ آور کے لیے، یا اس قوم کے لیے جو مسلسل حملوں کا شکار ہے؟ امریکہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کا فوجی، سیاسی اور سفارتی پشت پناہ ہے۔ اس پس منظر میں اس کے کسی امن منصوبے کو معصوم یا غیر جانب دار قرار دینا بہت مشکل ہے۔ امریکہ اسرائیل تعلقات پر نظر ڈالی جائے تو بندر بانٹ والی بلی کی طرح امریکہ کی ثالثی بھی خود بخود مشکوک ہو جاتی ہے۔ صاف بات ہے کہ امریکہ کی کوششیں امن لانے سے زیادہ مزاحمت کو غیر مؤثر بنانے کے لیے ہو رہی ہیں، تاکہ اسرائیل نئے منصوبوں پر بہت آسانی سے عمل درآمد کر سکے۔
اسی تناظر میں غزہ میں بین الاقوامی فوج بھیجنے کے منصوبے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فوج کس سے امن قائم کرے گی؟ کیا یہ فوج اسرائیلی فورسز کو کنٹرول کرے گی، یا اس فوج کا مقصد مزاحمت کو ہٹانا ہو گا تاکہ اسرائیل کو ایک نئی سیاسی سانس مل سکے؟ مزاحمت کو تشدد کہہ کر بدنام کرنا اور اسرائیلی جارحیت کو دفاع کہنا پچھلے کئی برسوں سے عالمی سیاست کی پہچان بن چکا ہے۔ ایسے میں عالمی فوج کا آنا فلسطینیوں کے لیے ایک نیا خطرہ بن سکتا ہے، کیونکہ اس کا اصل ہدف شاید وہی مزاحمتی ڈھانچہ ہو جس نے اسرائیل کے خلاف فلسطینی شناخت کو مسلسل زندہ رکھا ہے۔
آج غزہ میں قحط بڑھ رہا ہے، بچے ٹھٹھرتی سردی میں خیموں میں سہمے ہوئے ہیں، اور ہسپتال بند پڑے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد بھی ہلاکتیں نہیں رکیں۔ یہ سب کچھ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ لیکن عالمی طاقتیں یا تو خاموش ہیں یا ایسی سکیمیں بنا رہی ہیں جن کا نتیجہ ایک ہی دکھائی دیتا ہے؛ اسرائیل کا سیاسی فائدہ اور فلسطینیوں کی مزید کمزوری۔ یہی وجہ ہے کہ کھیل کے میدان ہوں یا میڈیا کے فورم، ہر جگہ فلسطینی یہ بتا رہے ہیں کہ وہ آزادی کے بعد ایک dignified اور باوقار زندگی چاہتے ہیں؛ نہ یہ کہ ایک قبضے کے بعد دوسرا قبضہ ان پر مسلط کر دیا جائے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بدل رہی ہے۔ اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر شعور بڑھ رہا ہے، مغربی میڈیا پر سوال اٹھ رہے ہیں، نوجوان نسل حقائق کو نئے زاویوں سے دیکھ رہی ہے۔ آنے والے مہینے یہ طے کریں گے کہ یہ بیداری سیاسی شکل اختیار کرتی ہے یا طاقت ور حسبِ سابق فلسطینیوں پر ایک اور بوجھ مسلط کرنے والا ہے۔ جو کچھ بھی ہو، ایک بات تو طے ہے؛ فلسطینی مزاحمت اب صرف غزہ میں نہیں ہو رہی، ہر خطے کے انسان کے ذہن میں بھی ہو رہی ہےاور بعید نہیں ہے کہ یہ معرکہ پوری طرح مستقبل کو بدل دے۔