صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کے درمیان گزشتہ روز ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا کہ امریکہ اور سعودی عرب میں ایک سو بیالیس ارب ڈالر کی تاریخی ڈیفنس ڈیل کی گئی ہے۔ رائٹرز اور دیگر امریکی سورسز کے مطابق یہ ڈیل دراصل ایک تفصیلی پیکج ہے
اس 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کی اہم تفصیلات
1. فضائی اور میزائل دفاعی نظام
اس معاہدے میں جدید فضائی اور میزائل دفاعی نظام شامل ہیں تاکہ سعودی عرب کی فضائی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ یہ نظام خاص طور پر فضائی حملوں کو روکنے اور دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔
2. فضائی قوت اور خلا کی صلاحیت
اس معاہدے کے تحت سعودی عرب کی فضائی فوج کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس میں جنگی طیاروں کی جدید کاری اور نگرانی کی صلاحیتوں کا اضافہ شامل ہے۔ سعودی عرب نے لاک ہیڈ مارٹن کے F-35 اسٹیلتھ فائٹر جیٹس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن ابھی تک امریکہ نے اس خریداری کی اجازت نہیں دی ہے۔ یاد رہے کہ مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے پاس پچھلے کئی برسوں سے ایف پینتس لڑاکا طیارے ہیں۔ اگر سعودی عرب کو یہ طیارے فروخت کئے گئے تو وہ مشرق وسطیٰ کا دوسرا ملک بن جائے گا۔ یاد رہے کہ ایف پینتیس ففتھ جنریشن فائٹر طیارہ ہے جوجدیدترین طیاروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
3. بحری تحفظ
اس معاہدے میں بحری تحفظ کے لیے جدید بحری جہازوں اور ٹیکنالوجی کی خریداری بھی شامل ہے تاکہ سعودی عرب کی ساحلی حدود اور سمندری مفادات کی حفاظت کی جا سکے۔
4. سرحدی اور ساحلی سیکیورٹی
معاہدے میں سعودی عرب کی سرحدوں اور ساحلوں پر سیکیورٹی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے نگرانی اور دفاعی نظام میں بہتری شامل ہے۔
5. معلوماتی اور مواصلاتی نظام
اس معاہدے میں سعودی فوج کے مواصلاتی اور معلوماتی نظام کو بہتر بنانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ فوجی تعلقات اور ڈیٹا مینجمنٹ کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
6. تربیت اور سپورٹ سروسز
اس معاہدے میں سعودی فوج کے لیے تربیتی خدمات شامل ہیں، جس میں سعودی فوجی اسکولوں اور طبی خدمات کی بہتری بھی شامل ہے۔
اس معاہدے کے اسٹریٹجک اثرات
یہ معاہدہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ صدر ٹرمپ کے پچھلے دور میں بھی سعودی عرب نے امریکہ سے تاریخی خریداری کی تھی ، تاہم صدر بائیڈن کے دور میں یہ تعلقات ویسے نہ رہ سکے ، کانگریس نے بھی تب سعودی عرب کو اسلحہ دینے پر اعتراضات کئے تھے، تاہم صدر ٹرمپ کے دوسرے دور میں یہ تعلقات بہت تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔