فینسی ہیئر کٹنگ سیلون

آبادیوں کی ادل بدل نے ایک دن ایک اجنبی شہر میں چار حجاموں کو اکٹھا کر دیا۔ وہ ایک چھوٹی سی دکان پر چائے پینے آئے۔ جیسا کہ قاعدہ ہے، ہمپیشہ لوگ جلد ہی ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں۔ یہ لوگ بھی بہت جلد ایک دوسرے کو جان گئے۔ چاروں وطن سے لُٹ للٹا کر آئے تھے۔ جب اپنی اپنی بپتا سنا چکے تو سوچنے لگے کہ اب کریں تو کیا کریں۔ تھوڑی تھوڑی سی پونجی اور اپنی اپنی کسبت ہر ایک کے پاس تھی ہی۔ صلاح ٹھہری کہ چاروں مل کر ایک دکان لیں اور ساجھے میں کام شروع کر دیں۔
یہ تقسیم کے آغاز کا زمانہ تھا۔ شہروں میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ دل جمعی سے کوئی کام نہ کر پاتے تھے۔ تمام کاروبار سرد پڑے ہوئے تھے، پھر بھی ان حجاموں کو دکان کے لئے کافی دوڑ دھوپ کرنی پڑی۔ وہ کئی دن تک سرکاری دفتروں کے چکر کاٹتے رہے اور چھوٹے چھوٹے افسروں، کلرکوں اور چپراسیوں تک کو اپنی دکھ بھری کہانی بڑھا چڑھا کر سناتے رہے۔ آخر کار ایک افسر کا دل پسیج گیا اور اس نے ان چاروں کو شہر کے ایک اہم چوک میں ایک حجام ہی کی دکان دلا دی جو ہنگامہ کے دنوں میں دکان میں تالا ڈال بھاگ گیا تھا۔
یہ دکان زیادہ بڑی تو نہ تھی، پر اس کے مالک نے اس میں اچھا خاصا سیلونوں کا ساٹھاٹھ باٹھ کر رکھا تھا۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختے جوڑ اوپر سنگ مرمر کی لمبی لمبی سلیں جما، ٹیبل سے بنا لیے تھے۔ تین ایک طرف اور دو ایک طرف۔ ہر ایک ٹیبل کے ساتھ دیوار میں جڑا ہوا ایک بڑا آئینہ تھا اور ایک اونچے پایوں کی کرسی جس کے پیچھے لکڑی کا گدی دار اسٹینڈ لگا ہوا تھا۔ گاہک ٹھنگنے قد کا ہوا تو اسٹینڈ کو نیچے سر کا لیا، لمبے قد کا ہوا تو اونچا کر لیا اور گدی پر اس کے سرکو ٹکا مزے سے ڈاڑھی مونڈنے لگے۔
ضرورت کی یہ سب چیزیں مہیا تو تھیں مگر تھیں ذرا پُرانے فیشن کی اور ٹوٹی پھوٹی۔ سنگ مر مر کی سِلوں کے کنارے اور کونے جگہ جگہ سے شکستہ تھے۔ آئینے تھے تو بڑے بڑے مگر ذرا پتلے، اس کی وجہ سے گاہکوں کو اپنی صورتیں چپٹی سی نظر آتی تھیں۔ ایک آئینے کے بیچ میں کچھ اس طرح بال پڑ گیا تھا کہ دیکھنے والے کو اس میں بیک وقت ایک کے دو چہرے نظر آتے، مگر دونوں ادھورے جو ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو کر مضحکہ خیز صورتیں پیدا کرتے۔ چنانچہ اس آئینے کے سامنے بیٹھنے والا اپنی گردن کو تین چار مرتبہ مختلف زاویوں پر اونچا نیچا کیے بغیر نہ رہ سکتا۔ علاوہ ازیں اس دکان میں شیمپو کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔
لیکن ان حجاموں نے ان خامیوں کا زیادہ خیال نہ کیا۔ سچ یہ ہے، یہ بات ان کے وہم و خیال میں بھی نہ آسکتی تھی کہ ایک دن انہیں یہ سب سامان بنا بنایا مفت مل جائے گا۔ اپنے وطن میں وہ ادب تک بڑی گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے تھے۔ ان میں سے ایک جو عمر میں سب سے بڑا تھا اور استاد کہلاتا تھا، اس نے کچ مستقل گاہک باندھ رکھے تھے، جن کے گھر وہ ہر روز یا ایک دن چھوڑ کر ڈاڑھی مونڈنے جایا کرتا تھا۔ اس سے عمر میں دوسرے درجے پر جو حجام تھا اس نے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور لاریوں کے اڈے سنبھال رکھے تھے۔ دن بھر کسبت گلے میں ڈالے ڈاڑھی بڑھوں کی ٹوہ میں رہا کرتا اور دوسرے دو حجام جو نو عمر تھے، ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو روپے یومیہ پر کبھی کسی دکان میں تو کبھی کسی دکان میں کام کیا کرتے تھے۔ اب اچانک قسمت نے ان لوگوں کو زندگی میں پہلی مرتبہ آزادی اور خودمختاری کا یہ موقع جو بخشا تو وہ بہت خوش ہوئے اور دکان کو اور زیادہ ترقی دینے اور اپنی حالت کو سنوارنے پر کمر بستہ ہو گئے۔
سب سے پہلے ان لوگوں نے بازار سے ایک کوچی اور چونالا کر خود ہی دکان میں سفیدی کی اور اس کے فرش کو خوب دھویا پونچھا۔ اس کے بعد نیلام گھر سے پُرانے انگریزی کپڑوں کے دو تین گٹھر سستے داموں خریدے، ان میں سے قمیصوں اور پتلونوں کو چھانٹ کر الگ کیا۔ پھٹے کپڑوں کو سیا۔ جہاں جہاں پیوند لگانے کی ضرورت تھی وہاں پیوند لگائے، جن حصوں کو چھوٹا کرنا تھا ان کو چھوٹا کیا اور یوں ہر ایک نے اپنے لیے دو دو تین تین جوڑے تیار کر لیے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کو ایک ایک چادر کی بھی ضرورت تھی جسے بال کاٹنے کے وقت گاہک کے جسم پر گردن کے نیچے لپیٹنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ذرا مشکل کام تھا مگر ان لوگوں نے شالوں، جمپروں، کوٹوں اور پتلونوں کو پھاڑ کر جیسے تیسے دو چادریں بنا ہی لیں۔ کپڑوں کے اسی ڈھیر میں انہیں ریشم کا سیاہ پردہ بھی ملا جس پر سنہرے رنگ میں تتلیاں بنی ہوئی تھیں، کپڑا تھا تو بوسیدہ مگر ابھی تک اس میں چمک دمک باقی تھی۔ اس احتیاط سے دھوکر دکان کے دروازے پر لٹکا دیا۔
اپنے اپنے اوزار سب کے پاس تھے ہی، ان کی تو فکر نہ تھی، البتہ تھوڑے تھوڑے داموں والی کئی چیزیں خریدی گئیں مثلاً سلولائڈ کے پیالے صابن کے لیے، ڈاڑھی کے برش، پھٹکری، چھوٹی بڑی کنگھیاں، تولیے، دو تین تیز خوشبو والے دیسی تیلوں کی شیشیاں، ایک گھٹیا درجے کے کریم کی شیشی، ایک سستا سا پوڈر کا ڈبہ۔ علاوہ ازیں کباڑیوں کی دکانوں سے ولایتی لونڈر کی ٹیڑھی ترچھی خالی شیشیاں خرید ان میں سرسوں کا تیل بھر دیا۔
دکان کی آرائش کی طرف سے بھی یہ لوگ غافل نہ رہے۔ دکان کے پہلے مالک نے اس میں نہ جانے کس زمانے کی دقیانوسی مذہبی تصویریں لٹکا رکھی تھیں، ان کو اُتار ڈالا ان کی جگہ دو ایک پُرانے امریکن فلموں کے بڑے بڑے رنگدار پوسٹر جو ایک کباڑیے کے ہاں سے لے آئے تھے، دکان کے اندر دیواروں پر چسپاں کر دیے۔ علاوہ ازیں دو تین قطعات اور ایک کیلنڈر جس میں ملک کے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے فوٹو تھے، دیوار پر ٹانگ دیے۔
دکان کو جلد چلانے کے خیال سے انہوں نے اُجرتیں بہت کم رکھیں۔ مروّجہ اجرتوں سے نصف سے بھی کم، چنانچہ ایک گتے پر سیاہ روشنائی سے حجامت کی اجرتیں لکھوا کر اسے دیوار پر ایسی جگہ لٹکا دیا کہ گاہک جیسے ہی دکان میں داخل ہو اس کی نظر سب سے پہلے اسی پر پڑے۔
پہلے حجام نے اس دکان کا نام ’’فینسی ہیئر کٹنگ سیلون‘‘ رکھا تھا۔ یہ نام دکان کی پیشانی پر بہت جلی حروف میں، انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں لکھا ہوا تھا۔ ایک بابو سے ’’فینسی‘‘ کا مطلب معلوم کر کے بہت خوش ہوئے اور فیصلہ کیا کہ فی الحال اسی سے کام لیا جائے۔ کوئی نیا نام رکھتے تو اس کو مٹانے اور اس کو لکھوانے پر خاصی رقم خرچ کرنی پڑتی۔
جس روز باقاعدہ طور پر دکان کا افتتاح ہونا تھا، انہوں نے دوپہر کو بڑی محنت سے ایک دوسرے کی حجامتیں بنائیں، لمبی لمبی قلمیں رکھیں۔ گرم پانی سے خوب مل مل کر نہائے، صاف ستھری قمیصیں اور پتلونیں پہنیں، جن کو انہوں نے قریب کی ایک لانڈری سے دھلوا لیا تھا۔ بالوں میں تیل ڈالا، پٹیاں جمائیں، گردن اور چہرے پر ہلکا ہلکا پوڈر ملا اور یوں چاق و چوبند ہواگر بتیوں کی بھینی بھینی خوشبو میں، اُستروں کو، جن کی دھار وہ رات بھر سلیوں پر تیز کرتے رہے تھے، ہتھیلیوں پر ہلکا ہلکا پٹکے ہوئے خود کو خدمتِ خلق کے لیے پیش کر دیا۔
پہلی شام کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہوئی۔ کل پانچ گاہک آئے، تین شیو اور دو بال کٹائی کے اور وہ بھی آدھ آدھ پاؤ پاؤ گھنٹے کے وقفے پر، مگر یہ لوگ ذرا مایوس نہ ہوئے۔ ہر گاہک کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ اس کو بٹھانے سے پہلے کرسی کو دوبارہ جھاڑا پونچھا۔ اس کی ٹوپی پگڑی یا کوٹ لے کر احتیاط سے کھونٹی پر ٹانگ دیا۔ ڈاڑھی کے بال نرم کرنے کے لیے دیر تک برش سے جھاگ کو پھینٹا، بڑے نرم ہاتھ سے استرا چلایا، اور اگر احتیاط کے باوجود کہیں ہلکا سا چرکا لگ بھی گیا تو بڑی چابک دستی سے خون کو صابن کے جھاگ میں چھپائے رکھا تا وقتیکہ پوری ڈاڑھی نہ مونڈ لی اور پھر اطمینان سے پھٹکڑی پھیر کر زخم کو نیست و نابود کر دیا۔
ایک حجام نے اس خیال سے کہ بال کاٹنے میں زیادہ وقت لگایا جائے تو گاہک خوش ہوتا ہے، ایک دفعہ بال تراش کر دوبارہ تراشنے شروع کر دیے۔ آخر میں اس نے گاہک کے سر میں تیل ڈال یوں ہلکے ہلکے مزے مزے سے ملنا شروع کیا کہ گاہک کی آنکھوں میں سرور کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس کو اپنی محنت کا صلہ جلد ہی مل گیا۔ گاہک نے اجرت کے علاوہ ایک آنہ اسے ’’بخشیش‘‘ کے طور پر بھی دیا۔ اس شام کام کی کمی کے باوجود ان لوگوں نے دیر تک دکان کھلی رکھی، پھر دکان بڑھانے کے بعد بھی وہ دیر تک جاگتے رہے اور ہنسی مذاق کی باتیں کرتے رہے۔
دوسرے دن دفتروں میں کوئی تعطیل تھی۔ صبح کو آٹھ بجے ہی سے گاہک آنے شروع ہو گئے۔ دس بجے کے بعد تو یہ کیفیت ہو گئی کہ ایک گیا نہیں کہ دوسرا آ گیا، پھر بعض دفعہ تو تین تین کاریگر بیک وقت کام میں مصروف رہے۔ رات کو دکان بڑھا کر حساب کیا تو ہر ایک کے حصے میں تقریباً چار چار روپے آئے۔ تیسرے روز پھر مندارہا مگر چوتھے روز پھر گاہکوں کی گہما گہمی دیکھ کر چاروں کو یقین ہو گیا کہ دکان قطعی طور پر چل نکلی ہے۔
یہ لوگ اس اجنبی شہر میں اکیلے ہی آئے تھے لہٰذا رات کو فرش پر بستر جما دکان ہی میں پڑ رہتے، ایک چھوٹی سی انگیٹھی، ایک کیتلی اور دو تین روغنی پرچ پیالیاں خرید لیں۔ صبح کو دکان ہی میں چائے بناتے اور ناشتہ کرتے، دوہپر کو تنور سے دو ایک قسم کے سالن اور روٹیاں لے آتے اور چاروں مل کر پیٹ بھر لیتے۔
دکان کو قائم ہوئے ابھی آٹھ دن ہی ہوئے تھے کہ ایک سہ پہر کو ایک ادھیڑ عمر دبلا پتلا شریف صورت آدمی دکان میں داخل ہوا۔ اس کے کپڑے میلے تھے، مگر پھٹے ہوئے نہ تھے۔ سر پر اس وضع کی پگڑی جیسے منشی لوگ باندھا کرتے ہیں، پاؤں میں نری کا جوتا۔ ڈاڑھی بڑھی ہوئی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اس میں سفید بال زیادہ ہیں یا کالے۔ ایک گھٹیا درجہ کی عینک لگائے ہوئے تھا جس کی ایک کمانی ٹوٹی ہوئی تھی اور اسے دھاگے سے جوڑ رکھا تھا۔ ان لوگوں نے اسے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ پہلے تو وہ جھجکا مگر پھر بیٹھ گیا۔
ایک حجام نے پوچھا۔ ’’شیو؟‘‘
اس نے کہا۔ ’’نہیں۔‘‘
’’بال؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اور پھر کیا چاہتے ہو؟‘‘ استاد نے پوچھا۔
’’مہربانی کر کے میرے ناخن کاٹ دو۔‘‘ اس نے کہا۔
ناخن کٹوانے کے بعد بھی وہ شخص وہیں بیٹھا رہا۔ آخر جب ان لوگوں نے بار ابر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے کہنا شروع کیا۔
’’صاحب میں ایک غریب مہاجر ہوں۔ میں اپنے وطن میں ایک بنیے کا منشی تھا، اس کے ہاں راشن کارڈوں کی پرچیاں لکھا کرتا تھا اور حساب کتاب کا کام بھی کیا کرتا تھا۔ وطن چھوٹا تو یہ روزگار بھی چھوٹ گیا۔ اس شہر میں کئی دن سے بیکار پھر رہا ہوں، کئی جگہ نوکری کی تلاش میں گیا مگر ہر جگہ پہلے ہی سے منشی موجود تھے۔ اگر آپ مجھے کوئی کام دلوا دیں تو عمر بھر احسان نہ بھولوں گا۔ میں اس بیکاری سے ایسا تنگ آ گیا ہوں کہ جو کام بھی آپ مجھے بتائیں گے دل و جان سے کروں گا۔ حساب کتاب کے کام کے علاوہ میں کھانا پکانا بھی جانتا ہوں۔‘‘
اس کی بات سن کر یہ لوگ تھوڑی دیر خاموش رہے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے صلاح مشورے کرتے رہے۔ آخر استاد نے زبان کھولی:
’’دیکھو میاں! ہم خود مہاجر ہیں اور نیا نیا کام شروع کیا ہے۔ تنخواہ تو ہم تم کو دینے کے نہیں، ہاں کھانا دونوں وقت ہمارے ساتھ کھاؤ بلکہ خود ہی پکاؤ کیونکہ تمام ہمارے بھائی ہو۔ بس تھوڑا سا اپنا دکان کو جھاڑ پونچھ دیا کرنا۔ پھر جب کہیں تمہارا کام بن جائے تو شوق سے چلے جانا، ہم روکیں گے نہیں۔‘‘
اس شخص نے بڑی خوشی سے ان کی یہ شرط منظور کر لی۔ شکریہ ادا کیا اور وہیں رہ پڑا۔
دوسرے دن بازار سے ایلومینیم کی ایک دیگچی اور کچھ اور برتن خریدے گئے اور دکان میں ہنڈیا پکنے کا سامان ہونے لگا مگر پہلے ہی روز ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ یہ شخص کھانا پکانا کچھ واجبی ہی جانتاہے تاہم اسے نکالا نہیں گیا۔ جھاڑنے پونچھنے میں وہ کافی چست تھا۔ بازار سے سودا بھی دوڑ کر لے آتا تھا، سچ یہ ہے کہ ایک شخص جو آٹھ پہر غلامی کرنے کو تیار تھا، خط پتر لکھ سکتا تھا، حساب کتاب جانتا تھا، آقاؤں سے ادب سے پیش آتا تھا، دو وقت کی روٹی پر کچھ مہنگانہ تھا۔
یوں ہی دن گزرتے گئے، یہاں تک کہ دکان کھلے دو مہینے ہو گئے۔ اس عرصے میں دکان نے خاصی ترقی بھی کر لی تھی۔ ان لوگوں نے اس کے لیے کچھ نیا فرنیچر بھی خرید لیا تھا۔ شیمپو کے لیے بیسن وغیرہ بھی لگوا لیا تھا اور تھوڑی تھوڑی رقم ہر ایک نے بچا بھی لی تھی۔
تیسرا مہینہ ابھی آدھا ہی گزرا تھا کہ ایک دن صبح ہی صبح استاد کو اپنے بیوی بچوں کی یاد بے طرح ستانے لگی۔ دوپہر ہوتے ہوتے وہ ٹھنڈے ٹھنڈے سانس لینے لگا، تیسرے پہر اس کی اداسی اور بھی بڑھ گئی۔ شام ہونے سے پہلے ہی اس نے اپنے ساتھیوں سے چار دن کی چھٹی لی اور بیوی بچوں کو لے آنے کے لیے روانہ ہو گیا جو کوئی دو سو میل دور کسی شہر میں اپنے کسی رشتہ دار کے دروازے پر ناخواندہ مہمان بنے پڑے تھے۔
استاد نے چار دن میں لوٹ آنے کا پکا وعدہ کیا تھا اور بڑی بڑی قسمیں کھائی تھیں مگر واپسی میں پورے پندرہ دن لگ گئے۔ بیوی بچوں کو تو اسٹیشن کے مسافر خانے ہی چھوڑا اور خود دکان پر پہنچا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو بیماریوں کی ایک طویل داستان سنائی جن میں اس کی بیوی اور چار بچے مبتلا تھے، اور وہ تکلیفیں بھی بیان کیں جو بیوی بچوں کو یہاں تک لانے میں اسے اٹھانی پڑیں۔ آخر میں اس نے خرچ کی تنگی کا ذکر کیا اور روپیہ قرض مانگا۔
یہ بات تو ظاہر ہی تھی کہ جتنے روز استاد نے دکان میں کام نہیں کیا تھا اتنے روز کی آمدنی میں اس کا کوئی حصہ نہ تھا اور پھر ایک کاریگر کے کم ہو جانے سے آمدنی بھی نسبتاً کم ہی ہوتی تھی، مگر کچھ تو بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے اور کچھ مروت کی وجہ سے اس کے ساتھیوں نے اسے یہ بات نہ جتائی بلکہ ہر ایک نے اپنی اپنی جیب سے پانچ پانچ روپے نکال کر اس کے حوالے کر دیے۔ پندرہ روپے استاد کی ضرورتوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تھے مگر وہ چپ چاپ یہ رقم لے کر چلا گیا۔
دوسرے دن سے پھر چاروں آدمی کام کرنے لگے۔ اب تک تو ان کا یہ قاعدہ رہا تھا کہ گاہکوں سے اجرتیں لے لے کر اپنے پاس ہی جمع کرتے رہتے اور رات کو دکان بڑھاتے وقت ساری رقم اکٹھی کر کے آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیتے۔ دکان کے رکھ رکھاؤ، ٹوٹ پھوٹ اور اپنے اور نوکر کے کھانے پینے پر جو رقم خرچ ہوتی اس میں وہ چاروں ربابر کے ساجھی تھے، مگر استاد نے دوسرے ہی دن باتوں باتوں میں اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ بھئی میں بیوی بچوں والا ہوں، پردیس کا معاملہ ہے ان کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہوں، اس لیے رات کو میں ان کے پاس سویا کروں گا، دوسرے یہ کہ کھانا بھی میں ان کے ساتھ ہی کھایا کروں گا۔ آج سے تم کھانے پینے کے خرچ میں میرا نام نکال دو… اور بھائیو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ادھر تو تمہارے ساتھ خرچ کروں اور ادھر گھر پر بھی۔
اس کے ساتھی یہ بات سن کر خاموش ہو رہے۔ اب استاد دوپہر کو کھانا کھانے گھر چلا جاتا جو اس نے قریب ہی کہیں لے لیا تھا۔ دو گھنٹے بعد لوٹتا، رات کو بھی وہ جلد دکان بڑھوا، اپنا حصہ لے چلتا بنتا۔
کوئی ہفتہ بھر تک یہی سلسلہ رہا مگر اس کے بعد استاد کے تینوں ساتھیوں کے طور ایک دم سے بدل گئے۔ اب وہ اکثر آپس میں کھسر پھسر کرتے اور چپکے چپکے استاد کی حرکات و سکنات کو غور سے دیکھتے رہتے۔ خصوصاً اس وقت جب حجامت کے بعد گاہک سے استاد اجرت وصول کرتا، وہ کن آنکھیوں سے دیکھتے رہتے کہ استاد پیسے کس جیب میں ڈالتا ہے۔
ایک رات جب استاد دکان سے رخصت ہوا تو اس کے تینوں ساجھی دیر تک جاگتے اور آپس میں باتیں کرتے رہے۔ انہیں استاد کے خلاف کئی شکایتیں تھیں جنہیں وہ اب تک بڑے صبر سے درگزر کرتے رہے تھے مگر اب، جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ استاد روپے پیسے کے معاملے میں بھی کھرا نہیں ہے تو وہ صبر نہ کر سکے۔ انہوں نے استاد کی اس دھوکہ بازی کی روک تھام کے لیے بہت سی تجویزیں سوچیں مگر کسی پر دل نہ جما، آخر بڑی رات گئے، ایک ترکیب ان کے ذہن میں آئی اور وہ اطمینان سے سو گئے۔
دوسرے دن جب استاد دکان پر آیا تو ان تینوں نے آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:
’’میں نے خود اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رات تم نے گاہک سے چونی لے کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی حالانکہ سارے پیسے تم اپنی قمیص کی جیب میں ڈالا کرتے ہو۔‘‘
دوسرے نے کہا، ’’تم بکتے ہو۔ تم خود پکے بے ایمان ہو۔ پرسوں گاہک نے تمہیں ایک دونّی اور دوا کنیاں دی تھیں۔ ایک دونی اور ایک اکنی تو تم نے جیب میں ڈال لی اور ایک اکنی چالاکی سے انگلیوں کے بیچ ہی میں دبائے رکھی۔‘‘
اس پر تیسرے نے کہا، ’’ارے میاں لڑتے، جھگڑتے کیوں ہو، جو ہوا اس کو تو کرو معاف، آئندہ کے لیے میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی چاہے بھی تو اس قسم کا دھوکا نہیں کر سکے گا۔ وہ یہ کہ دروازے کے قریب میز کرسی ڈال دو۔ کرسی پر تو منشی کو بٹھا دو اور میز پر ایک صندوقچی رکھ دو جس کے ڈھکنے میں سوراخ ہو، بس گاہک حجامت کے پیسے اس صندوقچی میں خود ہی ڈال دیا کرے۔ ہم میں سے کوئی خود ایک پائی بھی وصول نہ کرے۔ منشی مفت میں روٹیاں بٹورا کرتا ہے اس سے یہ کام کیوں نہ لیا جائے۔ یہ اس بات کا بھی دھیان رکھے گا کہ کوئی شخص بغیر اجرت دیے نہ چلا جائے یا کھوٹے سکے نہ دے دے۔ پھر چاہو تو منشی ساتھ ساتھ کاپی میں رقمیں بھی لکھتا جائے گا، آخر کس لیے رکھا ہے اس کو!‘‘
اس پر پہلے نے کہا، ’’بہت ٹھیک۔ مجھے منظور ہے لیکن یہ نہیں مانے گا، بے ایمانی جو ٹھہری جی میں۔‘‘ اس پر دوسرے نے بھنا کر کہا، ’’کیوں میں کیوں نہ مانوں گا، اچھا ہے، ایسا ہو جائے۔ جھوٹ سچ آپ ظاہر ہو جائے گا۔‘‘
تیسرے نے استاد سے پوچھا، ’’کیوں استاد تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
استاد کچھ نہ کہہ سکا۔ نہ اس تجویز کے حق میں نہ اس کے خلاف۔ اس نے خاموش ہی رہنے میں مصلحت سمجھی۔
دوسرے ہی دن سے اس تجویز پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ ہر روز رات کو دن بھر کی آمدنی کا باقاعدہ حساب ہوتا اور اس میں سے ہر ایک کو پورا پورا حصہ ملتا۔ چار دن نہ گزرنے پائے تھے کہ اس میں اتنی ترمیم اور کر دی گئی کہ آمدنی کا حصہ بخراروز کے بجائے ہفتہ کے ہفتہ کیا جائے، اس طرح ہر شخص کو معقول رقم مل سکے گی۔ ہر روز جو تھوڑے تھوڑے پیسے ملتے ہیں ان سے تو کسی کی بھی پوری نہیں پڑتی۔ ہاں اگر ہفتہ ختم ہونے سے پہلے ہی کسی ساجھے دار کو کچھ رقم کی ضرورت پڑ جائے تو وہ منشی سے پرچی لکھوا کر پیشگی لے سکتا ہے۔
استاد نے اس کی بھی نہ مخالفت کی نہ موافقت۔ وہ خاموش ہی رہا۔
مگر استاد اپنی خاموشی کو زیادہ دن تک قائم نہ رکھ سکا۔ ایک دن وہ صبح ہی صبح دکان پر پہنچا اور چموٹے پر استرے کی دھار گھستے ہوئے ایک دم اپنے ساتھیوں پر برس پڑا:
’’بس جی بس۔ میں تم لوگوں کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔ انصاف کا تو آج کل زمانہ ہی نہیں ہے۔ تم نے گدھے اور گھوڑے کو برابر سمجھ لیا ہے۔ تم میں سے نہ تو کوئی میرے جتنا پرانا کاریگر ہے اور نہ ہنر مند، پھر ڈاڑھی مونڈنے میں میرا ہاتھ ایسا ہلکا ہے کہ ہر شخص مجھی سے ڈاڑھی منڈانا چاہتا ہے۔ میں ایسے کئی آدمیوں کو جانتا ہوں کہ جب میں کام میں مصروف ہوتا ہوں تو وہ دکان میں آتے ہی نہیں۔ بلکہ باہر ہی باہر ٹہلتے رہتے ہیں کہ کہیں دوسرے سے ڈاڑھی نہ منڈانی پڑ جائے، پھر جہاں مجھے خالی ہوتے دیکھتے ہیں، لپک کر میری کرسی پر آبیٹھتے ہیں۔ منشی اس بات کا گواہ ہے کہ میری روز کی کمائی تم لوگوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اب تم ہی انصاف کرو کہ جب میں ہنر میں بھی تم سے بڑھ کر ہوں اور گاہک بھی زیادہ میرے ہی پاس آئیں، کام بھی زیادہ میں ہی کرروں، کمائی بھی زیادہ میری ہی ہو، تو پھر اس کی کیا وجہ کہ مجھے بھی اتنا ہی ملے جتنا تم سب کو ملتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تم لوگ میرا حصہ مجھے دے دو اور دکان خود سنبھال لو۔ اگر یہ نہیں تو کام کے لحاظ سے ہر ایک کی تنخواہ مقرر کر دو۔ آمدنی میں سے تنخواہیں نکال کر جتنی رقم بچے گی وہ ہم چاروں آپس میں برابر برابر بانٹ لیا کریں گے۔ اگر تم کو یہ بات منظور ہو تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں، ورنہ صاحب ایسی دکان اور ایسی ساجھے داری کو میرا دور ہی سے سلام۔ بندہ کہیں اور قسمت آزمائے گا۔ جتنے پیسے مجھے یہاں ملتے ہیں اس سے زیادہ تو میں آنکھ بند کر کے جس سیلون میں چلا جاؤں، لے سکتا ہوں۔‘‘
استاد کی یہ تقریر اس کے تینوں ساجھیوں نے بہت غور اور توجہ سے سنی۔ اس میں کچھ باتیں ٹھیک بھی تھیں مثلاً ہنر مندی میں استاد واقعی ان تینوں سے کہیں بڑھ کر تھا، مگر اس کا یہ مطلب تھوڑا ہی تھا کہ وہ ساجھے داری میں اپنی ہنر مندی کا ناجائز دباؤ ڈالے، جب ساجھا ہی ٹھہرا تو ہنر کی کون پروا کرتا ہے۔ ساجھا ایک کنبہ کی طرح ہے، جس میں کمانے والے فرد اپنی اپنی بساط کے مطابق کنبہ کی پرورش کرتے ہیں۔ کم و بیش کمانے والوں یا نہ کمانے والوں میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جاتی اور یہ استاد کی حد درجہ کم ظرفی ہے کہ وہ زیادہ ہنر مند اور کم ہنر مند کا سوال اٹھا کر ساجھے میں تفریق پیدا کرنا چاہتا ہے۔
استاد کے دکان سے قطع تعلق کر لینے کا مطلب بھی وہ خوب سمجھتے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ ایک بھاری رقم بطور معاوضہ استاد کودینا اور یہ رقم ان کے پاس نہ تھی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ یہ تینوں دکان سے علیحدہ ہو جاتے مگر علیحدہ ہو کر جاتے تو کہاں جاتے۔ نہ کام ہی میں ایسی مہارت تھی کہ دوسری جگہ آسانی سے نوکری مل سکتی اور نہ سر چھپانے ہی کا کوئی ٹھکانہ تھا۔ لہٰذا گلے شکوے تو انہوں نے بہت کیے مگر انجام کار انہوں نے استاد کی تنخواہوں والی شرط مان ہی لی۔ تنخواہیں مقرر کرنے کے مسئلے نے خاصا طول کھینچا، آخر بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ استاد کو تو ڈیڑھ سو روپے ماہوار ملے اور اس سے نچلے کاری گر کو ایک سو بیس، تیسرے کو سو اور چوتھے کو اسی۔ ساتھ ہی یہ بھی قرار پایا کہ تنخواہوں کا حساب مہینے کے مہینے ہوا کرے۔
استاد دل میں بہت خوش تھا کہ بالآخر اس نے اپنا تفوق اپنے ساتھیوں پر قائم کر لیا۔ ادھر اس کے ساتھی کچھ دن پژمردہ رہے مگر پھر مہینے کے بعد ایک معقول رقم ہاتھ آنے کے خیال نے رفتہ رفتہ ان کا غم دور کر دیا اور وہ بڑی بے تابی سے مہینہ کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
خدا خدا کر کے جب مہینہ ختم ہوا اور تنخواہ کا دن آیا تو یہ دیکھ کر ان چاروں حجاموں کی حیرانی اور مایوسی کی کوئی حد نہ رہی کہ پچھلے مہینے دکان سے جو آمدنی ہوئی تھی، اُس میں سے ان کی آدھی آدھی تنخواہیں بھی نہیں نکلتی تھیں۔ ان لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا اس بات پر ہوا کہ دکان پہلے سے زیادہ ترقی پر تھی، گاہک بھی پہلے سے زیادہ آرہے تھے مگر اس کے باوجود انہیں جو رقم ملی اس کا یومیہ ابتدائی دنوں کے یومیہ سے بھی کم تھا۔ منشی کے کھاتے کی جانچ پڑتال کی گئی مگر اس نے پائی پائی کا حساب بتا دیا، ہر شخص کی روز کی کمائی، چاروں کی روز کمائی، ہفتہ کی کمائی، مہینہ کی کمائی، الگ الگ بھی اور مشترکہ بھی، پورا چٹھا کھول کر رکھ دیا، کیا مجال جو کوئی شخص اس کے حساب میں غلطی نکال سکے۔
قاعدہ ہے کہ روپیہ باہر سے آنے والا ہو یا بندھی ہوئی تنخواہ ہو تو انسان خواہ مخواہ اپنا خرچ بڑھا لیتا ہے، یا اس کے بھروسے پر قرض لے لیتا ہے۔ ا ن میں سے دو حجام ایک استاد اور ایک اور اسی امید پر محلے کے بعض دکانداروں کے مروض ہو گئے۔ قرض خواہ کے تقاضے کا ڈر تو تھا ہی، آئندہ قرض کا دروازہ بند ہو جانے کا بھی احتمال تھا۔
اس روز رات کو جب وہ دکان بڑھانے لگے تو حد درجہ دل شکستہ اور مایوس نظر آتے تھے۔ سب سے زیادہ مسکین پن منشی کے چہرے سے ٹپک رہا تھا، ہر چند اس کی کوئی تنخواہ مقرر نہ تھی، پھر بھی اپنے آقاؤں کی اس مصیبت میں وہ برابر کا شریک نظر آتا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اٹھاتا ان کے قریب آیا اور درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں جھجک جھک کر کہنے لگا:
’’آپ لوگوں نے میرے ساتھ جو بھلائی کی ہے میں عمر بھر اسے نہیں بھول سکتا۔ آج آپ کو پریشان دیکھ کر میرا دل بے حد کڑھا ہے۔ اب میں آپ کو سچی بات بتاتا ہوں، وہ بات یہ ہے کہ جب میں اپنے وطن میں بنیے کے ہاں نوکر تھا تو ہر مہینے تنگی ترشی کر کے اپنی تنخواہ میں سے کچھ روپے بچا لیا کرتا تھا۔ چند مہینوں میں خاصی پونجی جمع ہو گئی، وطن سے چلتے وقت ساتھ لیتا آیا اور یہاں ڈاک خانے میں جمع کرا دی تا کہ آڑے وقت میرے کام آئے… مگر اب آپ کو پریشان دیکھ کر دل نے گوارانہ کیا کہ میرے پاس روپیہ ہو اور میں اسے اپنے بھائیوں سے چھپائے رکھوں… اگر آپ کہیں تو کل میں ڈاک خانے سے اپنا روپیہ نکال لاؤں۔ آپ اسے کام میں لائیے جب دکان کی آمدنی بڑھ جائے تو مجھے لوٹا دینا۔ میں کوئی نفع نہیں لوں گا۔‘‘
’’تمہارے پاس کتنے روپے ہیں؟‘‘ حجاموں نے پوچھا۔ کچھ تامل کے بعد منشی نے دھیرے سے کہا، ’’سو روپے!‘‘
دوسرے دن منشی ڈاک خانہ سے سو روپے نکال لایا اور ان سے الگ الگ رسید لے کر وہ رقم ان میں تقسیم کر دی۔ اس طرح ان کی پریشانیاں کسی قدر دور ہو گئیں مگر اگلے مہینے دکان میں اس سے بھی کم آمدنی ہوئی۔ اب تو یہ لوگ بہت ہی گھبرائے۔ منشی نے بڑی چھان بین کے بعد آمدنی کے کم ہونے کی یہ وجہ دریافت کی کہ چونکہ چوک کے دوسرے ہیئر کٹنگ سیلونوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یا مندے کی وجہ سے اپنے ہاں کی اجرتیں کم کر دی ہیں، اس لیے وہ گاہک جو محض کفایت کے خیال سے ان کے ہاں لپک آئے تھے۔ اب ان سب سیلونوں میں بٹ گئے ہیں۔
ان لوگوں نے منشی کی بات کا کچھ یقین کیا کچھ نہ کیا، بہرحال وہ اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ چونکہ منشی اب کے اپنے ایک بھائی سے سو روپے قرض لے آیا تھا، اس لیے ان لوگوں کو زیادہ پریشان نہ اٹھانی پڑی۔ تیسرے مہینے صورتحال کچھ کچھ سدھر گئی اور انہوں نے کسی قدر اطمینان کا سانس لیا مگر چوتھے مہینے آمدنی ایک دم پھر کم ہو گئی۔ اس پرستم یہ ہوا کہ اس دفعہ منشی نے ان کی امداد کرنے سے بالکل معذوری ظاہر کر دی۔ اس نے کہا:
’’بھائیو! اگر میرے پاس روپیہ ہوتا یا میں کہیں سے لا سکتا تو میں آپ کے قدموں میں نچھاور کر دیتا لیکن میرے پاس جو کچھ تھا، میں پہلے ہی آپ کی نذر کر چکا ہوں۔‘‘
اس روز تو انہوں نے زیادہ اصرار نہ کیا مگر دوسرے دن صبح ہوتے ہیں چاروں نے پھر منشی کو آ گھیرا، جب ان کی خوشامدوں اور التجاؤں کی حد نہ رہی تو منشی نے کہا۔ ’’اچھا بھائیو! شام تک صبر کرو۔‘‘
شام ہوئی تو وہ چاروں حجاموں سے یوں مخاطب ہوا:
’’صاحبو! مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دکان کی حالت کبھی نہیں سدھرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے اپنی اپنی جو تنخواہیں مقرر کر رکھی ہیں، آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دکان چلے اور آپ کی پریشانیاں دور ہوں تو سب سے پہلے آپ اپنی اصلاح کیجیے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ آپ سب اپنے اپنے اخراجات کو کم کیجیے اور دوسرے یہ کہ آپ اپنی اپنی ہی تنخواہیں مقرر کیجیے جتنی عام طور پر اس قسم کے سیلونوں میں ملازموں کو دی جاتی ہیں۔
اگر آپ میری تجویز کی ہوئی تنخواہ منظور کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، بلکہ اس بات کا ٹھیکہ لیتا ہوں کہ ہر مہینے آپ کو پوری تنخواہ ملا کرے گی۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر آپ میرے کہنے پر چلیں تو آپ کو ہر مہینے کی پہلی کو پیشگی ہی تنخواہ مل جایا کرے گی۔ یہ روپیہ کہاں سے آئے گا، اس سے آپ کو مطلب نہیں۔ چاہے میں چوری کروں، ڈاکہ ڈالوں، مگر آپ کو تنخواہ پیشگی ہی ملتی رہے گی۔ آپ نے میرے ساتھ ایسی بھلائی کی ہے کہ میں عمر بھر نہیں بھول سکتا اور بھائیو! اگر آپ کو یہ شرط منظور نہ ہو تو آپ جانیں اور آپ کا کام۔ میں آپ کے لیے روپے کا بندوبست نہیں کر سکتا۔‘‘
چند لمحے خاموش رہی۔ اس کے بعد استاد نے منشی سے پوچھا:
’’اچھا بتاؤ تو تم ہماری کیا کیا تنخواہیں مقرر کرتے ہو؟‘‘
منشی نے جواب دیا، ’’گستاخی معاف۔ میں زیادہ سے زیادہ آپ کو اسی روپے دے سکتا ہوں۔ دوسرے نمبر والے کو ساٹھ، تیسرے کو پچاس اور چوتھے کو چالیس۔ اگر آپ لوگ یہ تنخواہیں منظور کریں تو ابھی جا کر، چاہے مجھے دگنے تگنے سود پر قرض ہی لینا پڑے، آپ سب کے لیے دو سو تیس روپے بطور پیشگی تنخواہ کے لے آتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ ہر مہینے اسی طرح آپ کو پیشگی تنخواہ ملا کرے گی۔ یاد رکھو میرے دوستو یہ تنخواہیں کسی بڑے ہیئر کٹنگ سیلون کے ملازموں کی تنخواہوں سے کم نہیں ہیں۔ آپ لوگ جا کر خود دریافت کر سکتے ہیں البتہ ملازموں کو پیشگی تنخواہ دینا صرف اسی سیلون کی خصوصیت ہو گی۔‘‘
منشی کی یہ تقریر سن کر چاروں حجام گم صُم سے رہ گئے اور کسی نے اس کی بات کا جواب نہ دیا مگر یہ خاموشی بڑی صبر آزما تھی۔ انہوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر گردنیں جھکالیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں