ٹماٹر بھی عجیب سبزی ہے۔ سبزی کاتو بس نام ہی ہے۔ خوبصورت رنگت کی بنا پر اِس کی الگ ہی پہچان ہے۔صرف ٹماٹر پر ہی کیا موقوف بہت سی سبزیاں مختلف اور شوخ رنگوں کی حامل ہوتی ہیں، زمین سے نکلنے یا پودوں پر لگنے کی وجہ سے سبزی کہلاتی ہیں۔ ٹماٹر بھی اُن میں نمایاں ہے۔ رنگت ایسی پائی ہے کہ دیکھنے والا صرف دیکھتا ہی نہیں رہ جاتا بلکہ کھانے پر آمادہ بھی ہو جاتا ہے۔ ویسے تو بہت سُرخ رُو چہرے والے کو بھی ٹماٹر سے تشبیہ دے کر اُس کے حُسن کو دوبالا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ چہرے کی رنگت کو ٹماٹر سے مشابہ قرار دینے میں ٹماٹر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، یا ٹماٹر رنگ چہرے والے کی قدر میں۔ اوصاف کیسے بھی ہوں، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ٹماٹر کی سب سے بڑی خوبی اُس کا رنگ ہی ہے۔ ٹماٹر کی خوبصورتی بہت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ چمکتے دمکتے ٹماٹر گھر لانے کے بعد یا تو سلاد کی حیثیت سے پلیٹ میں رکھ کر کھانے کے لئے پیش کر دیئے جاتے ہیں، یا پھر سالن میں کھٹاس بڑھانے کے لئے ہنڈیا کی نذر کر دیئے جاتے ہیں۔ یوں سارا حُسن دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔
گزشتہ چند روز سےٹماٹر کی قیمت نے آسمان سے باتیں شروع کر دی ہیں، سبزی فروش سو روپے کے سُرخ نوٹ کے بدلے میں تین چار ٹماٹر تھما کر احسان کی نگاہ گاہک پر ڈالتا اور جھونگے میں مسکراہٹ پیش کرتا ہے، جواب میں گاہک خون کے گھونٹ بھر کر رہ جاتا ہے۔ ٹماٹر خور قوم کو سوشل میڈیا پر چلنے والی اُن ویڈیوز کا منظر بہت اچھی طرح یاد ہوگا، جب ایک لوڈر سوار فرطِ جذبات میں چھوٹی نہر کے کنارے رُک کر پانچ پانچ کلو والے ٹماٹر بھرے شاپر نہر میں گرا رہا تھا۔ وہ یہ کام اپنی ویڈیوز کو مقبول بنانے کے لئے نہیں، بلکہ احتجاج کے طور پر کر رہا تھا۔ کھیت میں فصل کاشت کرنے والے کو بے پناہ مراحل اور مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ زمین کی تیاری، معیاری بیج کا حصول، کھاد کا استعمال، کاشت کے لئے مزدور اور اس کی مزدوری، فصل کی تیاری میں سپرے سمیت دیگر حفاظتی اور ضروری انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ فصل کی برداشت کے الگ اخراجات ہیں۔ کھیت سے منڈی تک پہنچنے کی الگ قیمت ہے۔ وہاں کسان خود کو آڑھتیوں اور مڈل مینوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جس فصل پر ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں، وہ کوڑیوں کے دام بِکتی ہے تو کسان کا دل ڈوب جاتا ہے۔ مذکورہ بالا ویڈیو میں لوڈر والے کا ر دعمل منڈی میں ہونے والے رویوں کا عکاس تھا۔ جس کی لگی لاگت بھی اسے نہ ملے وہ اپنی بے مُول فصل کو کہا ں پھینکے گا۔ نہر ہی اسے بہترین مقام محسوس ہوا، سو اُس نے اپنے ٹماٹر نہر بُرد کر دیئے۔
اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ٹماٹر سونے کے بھاؤ فروخت ہو رہا ہے۔ ایک تو اپنے ہاں فصلوں کی جائز قیمت کسان کو ادا نہیں کی جاتی، اس سارے معاملے میں اعتدال نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومتوں کی کوئی گرفت نہیں ہے، انتظامی افسران عام دکانوں اور غریب ریڑھی والوں پر تو اپنا حکم چلاتے دکھائی دیتے ہیں، مگر منڈیوں میں بھاؤ تاؤ پر کنٹرول نہیں کرتے۔ اگر کرتے بھی ہیں تو کسان کو اُس کا حق نہیں ملتا۔ دوسرا اہم مسئلہ کسانوں کا بھی ہے۔ ایک سال ایک فصل کی قیمت بہت زیادہ ہوگئی تو اگلے برس تمام فصلوں کو نظر انداز کرکے اکثر کسان وہی فصل کاشت کر لیتے ہیں، جس کی قیمت بہت زیادہ تھی ، یوں ہر طرف وہی فصل دکھائی دیتی ہے، جس وجہ سے مناسب قیمت نہیں ملتی۔ اثرات تمام کاشت کاروں پر پڑتے ہیں۔ یہی حال خریدار کا ہوتا ہے، کبھی “ٹکے ٹوکری” اور کبھی سونے کے بھاؤ۔ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ٹماٹر افغانستان اور ایران سے درآمد کیا جاتا تھا ، افغانستان کے ساتھ جنگی جھڑپوں کی وجہ سےحالات کشیدہ ہونے کا نتیجہ نکلا ہے۔ پاکستان میں آنے والے سیلاب اور بارشوں کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اور ٹماٹر کی کاشت کم ہونا بھی ایک وجہ بیان کی گئی ہے۔
معاملہ صرف ٹماٹر کا نہیں، اپنے ہاں تو آلو پیاز کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ یا پہلے برآمد کر دیا جاتا ہے یا کم کاشت ہونے کی صورت میں آخری وقت میں جب قیمت آسمان کو چھوتی ہے تو مزید مہنگے داموں درآمد کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ چینی کو دیکھ لیں، کبھی برآمد تو کبھی درآمد۔ اب قیمت دو سو روپے کو چھو رہی ہے۔ آٹا بھی قابو سے باہر ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں کی بے اعتدالی میں سب سے زیادہ عمل دخل اور ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ حکومتی ارکان کے ارد گرد ایسے مافیا اکٹھے ہوتے ہیں، جو اپنے مفادات کے لئے حکومتی ذمہ داران کو اپنے تعلق کے حوالے سے اس قدر متاثر کرتے ہیں کہ ان کی خوشنودی کے لئے ایسے ایسے فیصلے کر دیئے جاتے ہیں، جو ملکی مفاد میں تو کسی صورت نہیں ہوتے، البتہ بہت سوں کی معاشی حالت بہت بہتر ہو جاتی ہے۔ قوم کا چاہے کچھ نہ رہے۔
حکومتی اور کسانوں کی تمام تر بے اعتدالیوں کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم لوگ اپنے گھر والوں تک کو اس بات پر قائل نہیں کر سکتے کہ اگر کوئی چیز بہت مہنگی ہوگئی ہے تو اس کے بغیر کام چلانے کی کوشش کریں، مگر مجال ہے جو خواتین اپنے باورچی خانہ میں ٹماٹر کی غیر موجودگی کو برداشت کریں، شاید رنگ سے ہی رونق ہے۔ کچھ بھی ہو جائے، قیمت کتنی ہی ہو جائے، حالات کیسے بھی ہو جائیں، ٹماٹر کے بغیر سالن نہیں بنتا، یا مکمل نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ کام دہی سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ یہی عالم پیاز اور چینی وغیرہ کا ہے۔ اگر آسمان کی طرف جاتی قیمتوں والی اشیاء کو کچھ وقت کے لئے نظر انداز کر دیا جائے، یا اُن کے بغیر کام چلانے کی کوشش کی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ مشکل ناممکن کے قریب ہے۔ اب ممکن ہے ٹماٹو کیچپ کی قیمت میں بھی اضافہ ہو جائے، کیونکہ کمپنی کے پاس بہت معقول جواز موجود ہے۔ یہ بھی اپنے ہاں کی روایت ہے کہ کسی بھی ماحول میں یا کسی بھی وجہ سے ایک دفعہ اوپر جانے والی قیمت کبھی نیچے نہیں آتی