غز- ہ میں جنگ بندی کے باوجود بھوک اور قلت کا بحران برقرار

غز-ہ میں جنگ بندی کے بعد بھی حالات معمول پر نہیں آ سکے۔ دو سال سے جاری جنگ نے علاقے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور اب لوگ خوراک، پانی اور ادویات کی شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگرچہ جنگ بندی کا معاہدہ امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام کی مشکلات میں کوئی خاص کمی نہیں آئی۔

غز-ہ کے شمالی علاقوں میں صورتحال خاص طور پر سنگین ہے۔ بہت سے خاندان کھنڈرات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بچے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ صاف پانی کی عدم دستیابی نے بیماریوں کے پھیلاؤ کو بڑھا دیا ہے۔ اسپتالوں میں ادویات ختم ہو چکی ہیں اور زخمیوں کے علاج کے لیے درکار سامان نہ ہونے کے برابر ہے۔

اقوامِ متحدہ اور امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر امداد نہیں پہنچی تو غز-ہ میں ایک بڑے انسانی بحران کا خدشہ ہے۔ امدادی قافلے موجود ہیں لیکن سرحدی پابندیاں اور سیکورٹی چیک پوسٹوں کی سختیاں ان کی رسائی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

کئی شہریوں نے شکایت کی ہے کہ وہ دنوں سے صرف روٹی اور پانی پر گزارہ کر رہے ہیں۔ کچھ علاقوں میں پینے کے پانی کے لیے لوگ میلوں پیدل سفر کر رہے ہیں۔ اسپتالوں میں بجلی کی قلت کے باعث جنریٹرز بند پڑے ہیں، اور مریض اندھیرے کمروں میں تکلیف میں مبتلا ہیں۔

غز-ہ کی مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک موصول ہونے والی امداد بہت کم ہے اور یہ ضرورت کے مقابلے میں “سمندر میں ایک قطرے” کے برابر ہے۔ وہ عالمی برادری سے اپیل کر رہے ہیں کہ امداد میں تیزی لائی جائے اور بند راستے کھولے جائیں تاکہ لوگوں تک فوری مدد پہنچ سکے۔

ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی صرف گولیوں کے رکنے کا نام نہیں، بلکہ اس وقت تک بے معنی ہے جب تک عوام کی زندگیوں میں حقیقی آسانی پیدا نہ ہو۔ غزہ کے لوگ اب بھی خوف، بھوک اور بے یقینی کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں