پنجاب کی مٹی اپنے اندر ایک خاص سی خوشبو رکھتی ہے۔ یہ خوشبو صرف گندم کے کھیتوں، مالٹے کے باغوں یا ساون کی بارشوں سے نہیں آتی یہ خوشبو اُس تربیت کی ہے جو ایک پنجابی ماں اپنے بچوں کو بچپن سے دیتی ہے۔ تربیت کوئی رسمی عمل نہیں، بلکہ وہ مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے جو ماں کی گود سے شروع ہو کر قبر تک چلتا ہے۔ اور پنجابی ماں؟ وہ تو پورا ادارہ ہے!
جس طرح مٹی کے کچے گھروں میں گیلی مٹی کی خوشبو رچ بس جاتی ہے، اسی طرح ماں کی باتیں، اس کے انداز، اس کی لوریاں، اس کی دعائیں، اور اس کی ڈانٹ بھی بچے کی شخصیت میں رچ جاتی ہیں۔ پنجابی گھروں میں ماں صرف ماں نہیں ہوتی، وہ استاد بھی ہوتی ہے، محافظ بھی، اور سب سے بڑھ کر ایک روحانی مرشد بھی۔
میرے لیے میری ماں محض ایک ہستی نہیں، ایک مکمل اکیڈمی تھیں۔ ان کی تربیت کا انداز کچھ ایسا تھا کہ مجھے پتہ ہی نہ چلا کب میں نے گھرداری کے بڑے بڑے کام سیکھ لیے۔ نہ مار پیٹ، نہ زبردستی۔ نہ حکم، نہ بوجھ بس محبت، نرمی، اور دانائی۔
مجھے یاد ہے بچپن میں میری ماں نے مجھے دو کھلونے لے کر دیے ایک چھوٹی سی پرات اور ایک ننھی سی ہنڈیا۔ جب وہ آٹا گوندھتیں تو تھوڑا سا آٹا میری پرات میں ڈال دیتیں۔ کہتیں:
“پتر، تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کے گھوندو، جیویں میں کر رہی آں، توں وی کر۔”
اور میں کھیل ہی کھیل میں سیکھتی چلی گئی۔ کبھی وہ سبزی بناتیں تو تھوڑی سی سبزی، تھوڑا سا گھی، مصالحہ بھی مجھے دے دیتیں۔ میں اپنی ہنڈیا میں ڈالتی، اور ماں غور سے دیکھتیں، آخر میں مسکرا کر پوچھتیں:
“ویکھئے، اج کس دا سالن سواد اے؟”
اور اگر میری ہنڈیا “جت جاتی”، تو انعام ملتا، شاباشی ملتی۔
یوں کھیل کھیل میں، محبت بھری نگرانی میں، میں نے گھر داری کے وہ ہنر سیکھے جو کتابوں میں نہیں ملتے۔
مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کی مائیں اپنی بچیوں کی اس پہلو سے تربیت کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ بچیاں پڑھ لکھ جائیں جو بالکل درست بات ہے مگر ساتھ یہ سوچ لیتی ہیں کہ:
“ہن ایہ ہون ہتھ خراب نہ کرن، ایہ وی ہلے چھوٹی اے!”
یہ سوچ بچی کی عملی زندگی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اگر میں بچپن میں اپنی ماں سے یہ سب نہ سیکھتی تو شاید آج میں خود اپنی بیٹی کو بھی وہ تربیت نہ دے سکتی۔
پنجابی کلچر میں ماں کی گود صرف محبت کا گہوارہ نہیں، ایک مکمل درسگاہ ہے۔ جہاں بچوں کو صرف باتیں کرنا، یا نظم پڑھنا ہی نہیں، بلکہ زندگی جینا سکھایا جاتا ہے۔ کھانا پکانا، عزت کرنا، صبر کرنا، صلہ رحمی، اور سب سے بڑھ کر خود مختاری یہ سب ایک پنجابی ماں کی تربیت کے تحفے ہیں۔
جس طرح مٹی کے کچے گھروں میں گیلی مٹی کی خوشبو رچ بس جاتی ہے، اسی طرح ماں کی باتیں، اس کے انداز، اس کی لوریاں، اس کی دعائیں، اور اس کی ڈانٹ بھی بچے کی شخصیت میں رچ جاتی ہیں۔ پنجابی گھروں میں ماں صرف ماں نہیں ہوتی، وہ استاد بھی ہوتی ہے، محافظ بھی، اور سب سے بڑھ کر ایک روحانی مرشد بھی۔
گاؤں کے صبح کے مناظر یاد آتے ہیں، جب ماں سورج نکلنے سے پہلے اُٹھ کر دودھ اُبالتی، روٹیاں پکاتی، اور ساتھ ساتھ بچوں کو اُٹھا کر نہلاتی، صاف کپڑے پہناتی، اور اسکول جانے کے لیے تیار کرتی۔ اُس سارے عمل میں صرف کام نہیں ہوتا تھا، تربیت ہوتی تھی۔ بچوں کو صفائی کی عادت، وقت کی پابندی، محنت کی اہمیت یہ سب وہ بغیر کسی لیکچر دیے سکھا دیتی تھی۔
پنجابی کلچر میں ادب اور لحاظ کا جو درس بچپن میں ماں دیتی ہے، وہ کہیں اور ممکن نہیں۔ “پتر، وڈے نوں سلام کر،” “اوئے، مہمان آیا اے، پانی لیا”، “کدی کسی دے رزق نوں نہ تکیا کر” بیٹی اگر لیٹی ہوتی تو ماں باپ کے انے پر یا بڑے بھائی کے انے پر فورا کہتی کہ اٹھو اور سر پہ دوپٹہ لو اور سمجھاتی کہ ہمیشہ کسی بھی بڑے کے انے پر اگر اپ لیٹے ہو تو اٹھ کے بیٹھ جاؤ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں شخصیت کے بڑے ستون بن جاتی ہیں۔ پنجابی ماں صرف زبان سکھاتی ہے، الفاظ نہیں وہ لہجہ دیتی ہے، وہ انداز دیتی ہے جس میں محبت بھی ہو، غیرت بھی، اور حیا بھی۔
ماں کی گود میں سنائی جانے والی وہ لوریاں “چُپ کر جا، سون پتر، رب نیہاں لائیندا اے” صرف نیند کے لیے نہیں ہوتیں، وہ ایک فلسفہ ہوتی ہیں۔ ان میں یقین، صبر، اور خدا پر بھروسہ شامل ہوتا ہے۔
پنجابی ماں کی تربیت کا خاص رنگ اُس وقت نظر آتا ہے جب بیٹی کو سسرال رخصت کرتے ہوئے کہتی ہے،
“پتر، گھر نوں اپنا گھر سمجھیں، ہر گل دا جواب نہ دیو، صبر نال سب ٹھیک ہو جائے گا”
اور بیٹے کو رخصت کرتے وقت کہتی ہے:
“پتر، حلال کمائی کما، کسے نوں دکھ نہ دیو، تے رب دا شکر ادا کریا کر”۔
یہ تربیت ہی ہے جس نے پنجابی سماج میں رشتوں کو مضبوط رکھا، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے پیار، ہمسائیوں سے خلوص، اور مہمان نوازی جیسی خوبیاں پروان چڑھائیں۔
اب زمانہ بدل رہا ہے۔ تربیت کے ذرائع بدل گئے ہیں۔ سوشل میڈیا، یوٹیوب، اور اسکولنگ سسٹم نے بچوں کی شخصیت سازی میں ایک بڑا کردار لینا شروع کر دیا ہے۔ مگر جو کردار پنجابی ماں کا ہے، وہ آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ وہ آج بھی بچے کے بولنے سے پہلے اس کے لہجے کو سمجھ لیتی ہے، وہ آج بھی صرف ایک نظر ڈال کر جان جاتی ہے کہ پتر دی طبیعت ٹھیک نئیں۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ
قومیں سکولوں سے نہیں، ماؤں کی گود سے بنتی ہیں۔
اور جب ماں پنجابی ہو چاہے وہ سوہنے چہرے والی ہو یا جھریوں والی، چاہے وہ جدید تعلیم یافتہ ہو یا صرف “پانچ جماعتاں” پڑھی ہو وہ دلوں کو سنوارنے والی، نسلوں کو نکھارنے والی ہوتی ہے۔
تربیت مائیں کرتی ہیں اور جب ماں پنجابی ہو، تو تربیت صرف اچھی نہیں، شان دار ہو جاتی ہے۔