ازبکستان میں سماجی تحفظ کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں، لاکھوں خاندان مستفید

ازبکستان نے حالیہ برسوں میں سماجی تحفظ کے شعبے میں نمایاں اصلاحات متعارف کراتے ہوئے غربت میں کمی اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے کئی نئے اقدامات کیے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں لاکھوں خاندانوں کی زندگیوں میں بہتری آئی ہے۔

صدر شوکت مرزائیوف کی قیادت میں 2017 سے شروع کی جانے والی اصلاحات اب ایک مربوط پالیسی فریم ورک میں ڈھل چکی ہیں، جس کا مقصد ایک ایسی ریاست قائم کرنا ہے جو اپنے شہریوں کو روزگار، بنیادی سہولیات اور فلاحی خدمات فراہم کرے۔

2023 میں منظور ہونے والے نئے آئین میں ازبکستان کو ایک “سماجی ریاست” قرار دیا گیا ہے، جبکہ “ازبکستان 2030” حکمت عملی کے تحت 2026 تک غربت کو نصف کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

نیشنل ایجنسی فار سوشل پروٹیکشن کے مطابق 2023 تک ملک بھر میں قائم “انسان” نامی مراکز کے ذریعے 23 لاکھ ضرورت مند خاندانوں کو مدد فراہم کی گئی ہے، جو کہ 2017 کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔یہ مراکز شہریوں کو ایک ہی مقام پر فلاحی اسکیموں، مالی امداد اور دیگر سماجی خدمات تک رسائی دیتے ہیں، جبکہ درخواست گزاروں کی سہولت کے لیے عملہ تربیت یافتہ اور ڈیجیٹل نظام سے منسلک ہے۔

ان سماجی اصلاحات کو عالمی اداروں، خاص طور پر عالمی بینک کی مالی اور تکنیکی معاونت بھی حاصل ہے۔ 2018 سے 2021 کے درمیان بینک نے ازبک حکومت کو 2.1 ارب ڈالر کے قرضے فراہم کیے، جن میں گورننس، روزگار اور سماجی بہبود کے شعبے شامل تھے۔

2024میں عالمی بینک نے “انسان” منصوبے کے تحت مزید 10 کروڑ ڈالر کی منظوری دی ہے، جس کے ذریعے 50 سے زائد کمیونٹی مراکز قائم کیے جائیں گے اور خدمات کا دائرہ کمزور طبقوں تک بڑھایا جائے گا ۔2024 میں شروع کیے گئے “غربت سے خوشحالی” پروگرام کے تحت حکومت سات اہم شعبوں میں خاندانوں کو مدد فراہم کر رہی ہے، جن میں روزگار، تعلیم، صحت، سماجی خدمات، رہائش، کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور سرکاری رابطہ شامل ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک چھ لاکھ سے زائد خاندانوں کو 13 لاکھ مختلف قسم کی سماجی سہولیات فراہم کی گئی ہیں، جبکہ ان خاندانوں کے افراد نے 22 لاکھ سے زائد طبی سہولیات سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

حکومت نے ضرورت مند خاندانوں کو مؤثر امداد دینے کے لیے ایک نئی درجہ بندی متعارف کرائی ہے۔’ریڈ‘ زمرے میں وہ خاندان آتے ہیں جن میں معذور افراد یا کفیل نہ ہونے والے افراد شامل ہیں۔’ییلو‘ میں وہ خاندان شامل ہیں جن کے افراد محنت کے قابل تو ہیں مگر مہارت یا مستحکم آمدنی نہیں رکھتے۔’گرین‘ میں وہ خاندان ہیں جو غربت سے نکل چکے ہیں مگر دوبارہ واپس جا سکتے ہیں۔ہر گروہ کے لیے الگ پروگرامز بنائے گئے ہیں، تاکہ حکومتی وسائل مؤثر انداز میں استعمال ہو سکیں۔

سماجی نگہداشت کے شعبے میں نجی اداروں کی شراکت داری بھی بڑھائی گئی ہے۔ اس وقت 13,800 افراد کو نجی شعبے کے ذریعے خدمات دی جا رہی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 2030 تک تین ملین شہری سالانہ سماجی خدمات حاصل کریں گے، جن میں سے 30 فیصد خدمات نجی شعبے سے فراہم ہوں گی۔

ادھر بچوں کے لیے حکومت نے تعلیمی اخراجات میں 90 فیصد تک سبسڈی کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت 2025 میں 1.25 لاکھ سے زائد بچوں نے رعایتی بنیادوں پر پری اسکول میں داخلہ لیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات صرف مالی مدد تک محدود نہیں بلکہ شہریوں کو خود کفیل بنانے، روزگار سے جوڑنے اور معاشی ترقی میں شمولیت کے مواقع پیدا کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر یہ اقدامات پائیدار اور شفاف طریقے سے جاری رہے، تو ازبکستان خطے میں ایک کامیاب سماجی ریاست کا ماڈل بن سکتا ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں