اکتوبر کا مہینہ آتے ہی ہمارے شہروں اور قصبوں کے ماحول میں ایک خاص سی ہلچل شروع ہو جاتی ہے۔ ہوا میں ہلکی خنکی، درختوں سے پتوں کے جھڑنے کی آہٹ، اور شام کے وقت فضا میں ایک عجیب سا سکون محسوس ہوتا ہے۔ مگر یہ سکون زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا، کیونکہ اسی موسم کے ساتھ ایک پرانا دشمن مچھربھی جاگ اٹھتا ہے۔
یہ چھوٹا سا کیڑا، جسے ہم اکثر معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، درحقیقت ہمارے معاشرتی رویّوں اور غفلت کا عکاس ہے۔ ہمارے محلوں کی گلیوں میں اگر ذرا سا بھی پانی جمع ہو جائے، تو وہ مچھر کی نرسری میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بارش کے بعد چھتوں پر رکھے ٹینک، گملوں کے نیچے جمع پانی، یا گلی محلّوں میں کچرے کے ڈھیر،یہ سب مچھروں کے لیے موزوں مسکن بن جاتے ہیں۔
ہم صفائی پر توجہ نہیں دیتے، پھر حیران ہوتے ہیں کہ ڈینگی نے ہمارے علاقے کو کیوں آ گھیرا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈینگی، ملیریا یا چکن گونیا آسمان سے نازل نہیں ہوتے، بلکہ یہ سب ہماری اپنی لاپروائی کا نتیجہ ہیں۔
ڈینگی بخار کو ہی لیجیے۔اکتوبر کے مہینے میں یہ سب سے زیادہ عروج پر ہوتا ہے۔ شدید بخار، جسم درد، پلیٹ لیٹس میں کمی—زندگی ایک لمحے میں بے بسی کی تصویر بن جاتی ہے۔ ملیریا اگرچہ پرانی بیماری ہے، لیکن آج بھی ہمارے دیہات و شہروں میں عام ہے۔ چکن گونیا اور زیکا وائرس شاید پاکستان میں کم ہوں، مگر دنیا بھر میں یہ بھی انہی مچھروں کی دین ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس دشمن سے نمٹا کیسے جائے؟ علاج تو بعد کی بات ہے، اصل اہمیت احتیاط کی ہے۔ گھر کے صحن یا چھت پر پانی جمع نہ ہونے دیں، رات کے وقت مچھر دانی ضرور استعمال کریں، اور بچوں کو شام کے وقت مکمل بازوؤں والے کپڑے پہنائیں۔ اسپرے، کوائلز اور ریپیلنٹس اپنی جگہ، لیکن سب سے بڑی احتیاط اجتماعی شعور ہے۔
جب تک محلّے، گلی اور شہر کی سطح پر صفائی اور فومیگیشن کا عمل نہیں ہوگا، ایک گھر کی احتیاط زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی سے، حکومتی سطح پر چلائی جانے والی مہمات اکثر کاغذی حد تک محدود رہتی ہیں۔ ایک آدھ فومیگیشن کی تصویر اخبار میں چھپ جائے، تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ کام مکمل ہو گیا، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
مچھر کو مارنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اسے پیدا ہونے ہی نہ دیا جائے۔
اکتوبر کا مچھر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی لاپرواہیاں ہماری صحت، بچوں کے مستقبل اور اجتماعی بھلائی کے لیے بڑے خطرات پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ دشمن چھوٹا ضرور ہے، مگر ہماری بے خبری اور بے عملی اسے بڑا بنا دیتی ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے اجتماعی صفائی، شعور اور احتیاطی تدابیر کو اپنالیں، تو یہ مچھر صرف ایک معمولی کیڑا رہے گا، جان لیوا خطرہ نہیں۔