مجرم کیوں چھوٹ گیا؟

جب بھی قتل کے کسی مقدمے میں کوئی طاقتور شخص سزا سے بچ جاتا ہے تو میڈیا میں، بالعموم قانون سے ناواقف تجزیہ نگار ملبہ قصاص و دیت کے قانون پر گرانا شروع کردیتے ہیں۔ ’شاہ رخ جتوئی کیس ‘ میں بھی ایسا ہوا، حالانکہ اس کیس میں قاتل کے بچ نکلنے کی ذمہ داری مقتول کے ورثا پر نہیں، بلکہ ریاست پر عائد ہوتی تھی۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج کے بیٹے کے خلاف مقدمہ ختم کردیا گیا ہے، تو اس کی ذمہ داری بھی مرنے والی خواتین کے ورثا پر نہیں، بلکہ ریاست پر – اور ’حقوقِ انسانی‘ کے بین الاقوامی قانون پر عائد ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے فوجداری قانون میں ’نوخیز مجرموں‘ کو خصوصی رعایتیں دینی پڑی ہیں، لیکن مجال ہے کہ ان دو امور پر کوئی بات کرے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے جنھیں اس موضوع پر بحث میں عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔
چار الگ قسم کے حقوق

اسلامی قانون کی رو سے قتل کے جرم کی وجہ سے چار مختلف حقوق پامال ہوتے ہیں اور ان چار میں سے ہر حق کا اپنا الگ الگ اثر ہوتا ہے اور ان کے نفاذ کےلیے الگ الگ ذمہ داری ہوتی ہے۔ حق جس کا ہوتا ہے معافی کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا ہے۔
سب سے پہلے قاتل ’اللہ تعالیٰ کا حق‘ پامال کرتا ہے کیونکہ اس نے قتلِ انسانی کو جرم قرار دے کر اس سے سب کو روکا ہے اور ایک انسان کے قتل کو سب انسانوں کے قتل کے برابر قرار دیا ہے۔ چنانچہ قاتل اصلاً اور اولاً و آخراً اللہ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حق کی پامالی کی وجہ سے اسے آخرت کی جوابدہی تو کرنی ہی ہوگی لیکن دنیا میں بھی اس کے کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے قانون کی رو سے اس شخص کو مقتول کی وراثت یا وصیت سے کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ اسی طرح خواہ یہ قتل غلطی سے ہوا ہو، اللہ تعالیٰ کے حق کی پامالی کی وجہ سے قاتل پر لازم ہوگا کہ وہ کفارہ ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ اپنا حق معاف کرے گا یا نہیں، یہ تو قیامت کے دن اللہ ہی بتائے گا۔ اس لیے دنیا میں یہ دونوں احکام (میراث/وصیت سے محرومی اور کفارہ) معطل نہیں ہوسکتے۔ ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چاہے قاتل کو مقتول کے ورثا اپنے حقوق معاف کردیں اور اس وجہ سے وہ قصاص یا دیت سے بچ جائے لیکن قانون کی نظر میں اس کا جرم ختم نہیں ہوتا۔ سزا سے بچنا الگ امر ہے، جرم کا مٹ جانا الگ۔
اس کے بعد ظاہر ہے کہ مقتول کا حق پامال ہوا ہے اور اس حق کےلیے قاتل کو قیامت کے دن جواب دینا ہوگا۔ پھر چاہے اللہ اپنی مہربانی سے مقتول کو قائل کردے کہ وہ قاتل کو معاف کردے۔ ظاہر ہے کہ اس کا بڑی حد تک انحصار اس پر ہے کہ قاتل اپنے فعل پر نادم ہے یا نہیں، اس نے توبہ کی یا نہیں، اس نے اپنے فعل کی تلافی کی کوشش کی یا نہیں، وغیرہ۔
تیسرا حق مقتول کے ورثا کا ہے جن کو قتل عمد کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے قصاص کا اور قتل خطا کی صورت میں دیت کا حق دیا ہے اور وہ یہ دونوں حقوق عوض لے کر یا بغیر عوض لیے معاف کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے قتل کے معاملے میں کو بس قصاص اور دیت تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے۔ یہ محض سادگی یا جہل ہے۔
واضح رہے کہ مقتول کے ورثا کے اس حق کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ مقتول کو قاتل کے خوف، دباو اور لالچ سے محفوظ رکھے اور یقینی بنائے کہ وہ اگر عوض لے کر یا بغیر عوض لیے قاتل کو معاف کررہے ہیں تو ایسا وہ اپنی آزادانہ مرضی سے کررہے ہیں۔ قصاص و دیت کے قانون میں تصریح کی گئی ہے کہ عدالت جب تک اس امر پر مطمئن نہ ہو وہ معافی نامہ قبول نہیں کرے گی۔

چوتھا حق مسلمانوں کے معاشرے کا اجتماعی حق ہے کیونکہ قتل سے صرف ایک شخص یا اس کا خاندان ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے مسلمانوں کے اس اجتماعی حق کی تنفیذ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور مسلمانوں کے وکیل اور نمائندے کی حیثیت سے اس حق کی معافی کا فیصلہ بھی حکمران کرسکتا ہے۔ اسی پہلو سے فقہاے کرام اکثر یہ کہتے ہیں کہ حکمران کے پاس اختیار ہے کہ وہ فساد کی روک تھام کے لیے اسلامی قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے مجرم کو مناسب سزا دے سکتا ہے۔ اس سزا کو ’سیاسہ‘ کہتے ہیں اور سیاسہ کا لغوی مطلب گھوڑے کو لگام ڈالنا ہے۔
واضح رہے کہ گھوڑے کو لگام ڈالنے کے اس اختیار کےلیے مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 311 کے تحت عدالت قاتل کو سزاے موت بھی دے سکتی ہے، خواہ اسے مقتول کے تمام ورثا نے معاف کیا ہو کیونکہ مقتول کے ورثا اپنا حق معاف کرسکتے ہیں لیکن معاشرے میں فساد کے روکنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور معاشرے کے حق کی حفاظت بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ حکمران صرف اتنا ہی نہیں کریں گے مقتول کے ورثا کے حق کی حفاظت کریں بلکہ یہ بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ آئندہ کوئی شخص معاشرے کا امن برباد نہ کرسکے۔
قصاص و دیت کا قانون کیسے بنا؟

قصاص ودیت کا قانون پاکستان میں طویل مباحثے اور مذاکرے کے بعد وجود میں آیا ہے۔ یہ کسی ’ڈکٹیٹر کا مسلط کیا گیا قانون‘ نہیں ہے، جیسا کہ بعض ناقدین مسلسل کہہ رہے ہیں۔ شاید یہ پاکستان کا واحد قانون ہے جسے قانون سازی کے مرحلے سے گزرنے میں اٹھارہ سال لگے اور ان اٹھارہ سالوں میں چھ حکومتوں کے ادوار آئے (نگران حکومتیں ان کے علاوہ ہیں) ۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قصاص و دیت کے آرڈی نینس کا پہلا مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود آرڈی نینسز کے مسودات کےساتھ 1979ء میں ہی بنالیا تھا لیکن اس مسودے کو جنرل ضیاء الحق نے آرڈی نینس کی صورت میں نافذ نہیں کیا بلکہ یہ مختلف وزارتوں کے افسران کے درمیان ہی گھومتا رہا۔ پھر 1980ء میں کونسل نے دوسرا مسودہ بنا کے دے دیا ۔ اس پر بھی مختلف وزارتوں کے اعتراضات رہے تو کونسل نے تیسرا مسودہ 1982ء میں تیار کیا۔ وہ مسودہ ’وفاقی کونسل‘ کو (جو اس وقت پارلیمان کا کام کررہی تھی) پیش کیا گیا اور دو سال مختلف کمیٹیوں میں زیربحث رہنے کے بعد بالآخر 1984ء میں منظور کیا گیا لیکن جنرل صاحب نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ 1984ء سے 1989ء تک کے دور میں یہ مسودہ سردخانے میں ہی پڑا رہا لیکن پھر حکومت کو مجبوراً اس پر بحث کرنی پڑی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ پشاور ہائی کورٹ نے 1980ء میں ’گل حسن کیس‘ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان اور ضابطۂ فوجداری کی دفعات کو اس بنیاد پر شریعت سے متصادم قرار دیا تھا کہ ان دفعات کی رو سے قتل کے جرم میں معافی یا صلح کی گنجائش نہیں ہے، جبکہ شرعاً مقتول کے ورثا کو یہ حق حاصل ہے ۔ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے بھی 1980ء میں ’محمد ریاض کیس‘ میں تین – دو کی اکثریت سے یہی فیصلہ سنایا۔ 1989ء میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلے کے ذریعے ان دونوں فیصلوں کو برقرار رکھا اور حکومت کو اس قانون میں تبدیلی کےلیے 23 مارچ 1990ء تک کا وقت دیا گیا ۔ پھر مذکورہ مدت میں حکومت کی مسلسل درخواستوں کے نتیجے میں اضافہ کیا جاتا رہا یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے ہاتھ کھڑے کردیے کہ مزید وقت نہیں دیا جاسکتا۔ چنانچہ ستمبر 1990ء میں ’قصاص و دیت آرڈی نینس‘ جاری کیا گیا۔
اس کے بعد اگلے تقریباً 7 سال تک یہ قانون ہر چوتھے مہینے (اکیس بار) آرڈی نینس کی صورت میں جاری کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ اپریل 1997ء میں بالآخر پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے اسے ایکٹ کی صورت میں منظور کرکے اسے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کا سولہواں باب بنا دیا۔ اتنے طویل مذاکرے، مباحثے اور مکالمے کے دوران میں اس قانون میں مختلف ترامیم بھی کی گئیں ۔ 1997ء کے بعد بھی ترامیم کا سلسلہ جاری رہا جن میں بالخصوص جنرل مشرف کے دور میں 2005ء میں کی گئی ترامیم اہم ہیں۔
”انصاف کی نجکاری“؟

یہ اعتراض کہ اس قانون کے ذریعے مقتول کے ورثا کا حق مان کر انصاف کی نجکاری کی گئی ہے ، اس مفروضے پر مبنی ہے کہ جرم ’ریاست کے حق کی خلاف ورزی‘ کا نام ہے ۔ انگریزی قانون کا یہ مفروضہ اپنی مطلق حیثیت میں اسلامی قانون کی رو سے صحیح نہیں ہے۔
انگریزی قانون میں قانون کی خلاف ورزیوں کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے : فرد کے قانونی حق کی خلاف ورزی (ایسی خلاف ورزی کو ’ٹارٹ‘ اور ایسے مقدمے کو دیوانی مقدمہ کہا جاتا ہے) اور ریاست کے حق کی خلاف ورزی (ایسی خلاف ورزی کو ’کرائم‘ اور ایسے مقدمے کو فوجداری مقدمہ کہا جاتا ہے۔ ) دیوانی مقدمے میں دعوی دائر کرنے کا اختیار متاثرہ فرد کے پاس ہوتا ہے ، ثابت کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا یا اسے معاف کرنے کا اختیار بھی اس کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس فوجداری مقدمے میں مقدمے کا حق ریاست کےلیے مانا جاتا ہے ، جرم کا ثابت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا دی جاتی ہے ، خواہ جرم سے براہِ راست متاثر ہونے والا فرد اسے معاف کرنا چاہے۔ اس تصور کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جرم سے براہِ راست متاثر ہونے والا شخص ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے اور انگریزی قانون اپنی اصل شکل میں اسے پہنچنے والے نقصان کی تلافی کےلیے کوئی راستہ نہیں بتاتا۔
اس کے برعکس اسلامی قانون میں یہ ضروری نہیں کہ ہر جرم کو نظمِ اجتماعی کے حق کی خلاف ورزی قرار دیا جائے؛ بلکہ اسلامی قانون کی رو سے جرم کی تین بنیادی قسمیں ہیں: اللہ کے حق کی خلاف ورزی (ایسے جرائم کی سزا کو ’حدود‘ کہتے ہیں) ؛ فرد کے حق کی خلاف ورزی (ایسے جرائم کی سزا کو ’تعزیر‘ کہتے ہیں) اور نظمِ اجتماعی کے حق کی خلاف ورزی (ایسے جرائم کی سزا کو ’سیاسہ‘ کہتے ہیں) ۔ کبھی ایک ہی جرم سے دو مختلف حقوق بیک وقت متاثر ہورہے ہوتے ہیں تو پھر اسے دیکھا جاتا ہے کہ کون سا حق غالب ہے؟ قصاص کے متعلق فقہاے کرام کہتے ہیں کہ اس میں حق اللہ بھی ہے اور حق العبد بھی لیکن حق العبد اس میں غالب ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ متعلقہ فرد کے پاس مجرم کی معافی کا اختیار ہے لیکن وہ معاف نہ کرے تو پھر اس سزا کا نفاذ لازم ہے۔ (حدود میں کسی کے پاس معافی کا اختیار نہیں ہوتا ، اس لیے انھیں حقوق اللہ کہا جاتا ہے)۔

اسلامی قانون کے ان تصورات کا ایک اہم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فوجداری مقدمات میں بھی متاثرہ فریق کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی مجرم کی جانب سے کی جاتی ہے۔ چنانچہ مجرم (یا اس کے اعوان و انصار کو ، جنھیں ’عاقلہ‘ کہا جاتا ہے) مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ متاثرہ فریق کو دیت ادا کردے، یا اگر زخمی کیا ہے تو ارش ادا کردے۔ واضح رہے کہ اسلامی قانون کا یہ تصور (جرم کے متاثرین کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی) کو اب مغربی ممالک اپنے قوانین میں ، بلکہ بین الاقوامی قانون میں بھی ، رائج کرنے کی سعی کررہے ہیں۔
اسلامی قانون کے ان تصورات کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ مجرم اور متاثرہ فریق کے درمیان مزید دشمنیوں کا سدباب ہوجاتا ہے اور جرم درجرم کا سلسلہ رک جاتا ہے ۔ یہ بھی یاد دلاؤں کہ مغربی ممالک بھی فوجداری قوانین میں plea bargain اور out of the court settlement کے تصورات اگر ایک جانب عدالت میں مقدمات کا بوجھ کم کرنے کےلیے ہوتے ہیں، ویسے ہی معاملہ کسی طرح ختم کرنے کےلیے بھی ہوتاہے۔ تاہم اس میں یہ امکان ہوتا ہے کہ طاقتور فریق نظامِ عدل کا مذاق نہ بنالیں۔ چنانچہ فقہاے کرام کئی صورتیں ذکر کرتے ہیں جن میں وہ قرار دیتے ہیں کہ یہ جرم محض قتل کا جرم نہیں تھا بلکہ عمومی فساد کے زمرے میں آتا ہے اور اس وجہ سے اس جرم پر سیاسۃً سزا دی جاسکتی ہے۔ بلکہ بعض سنگین صورتوں میں وہ تصریح کرتے ہیں کہ ان صورتوں میں سیاسۃً سزاے موت بھی دی جاسکتی ہے۔

پاکستان میں رائج قانون میں بھی یہ اصول مانا گیا ہے۔ چنانچہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 311 میں تصریح کی گئی ہے کہ اگر جرم محض قتل نہیں ہے بلکہ اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے تو عدالت مجرم کو تعزیری سزا دے سکتی ہے، خواہ مقتول کے تمام ورثا نے اسے معاف کردیا ہو۔ 2005ء میں کی گئی ترمیم کے بعد سے عدالت تعزیری سزا کے طور پر سزاے موت بھی سے سکتی ہے۔
اگر اسلامی اور پاکستانی قانون کی رو سے صورتِ معاملہ یہ ہے تو پھر کیسے طاقتور فریق سزا سے بچ جاتے ہیں؟ اس سوال پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مسئلہ قصاص و دیت کے اسلامی یا پاکستانی قانون میں نہیں بلکہ کہیں اور ہے۔
مسئلہ کہاں ہے؟

پاکستان کے قانون میں، جو اسے انگریزوں سے ملا تھا، کسی زمانے میں یہ اصول تھا کہ 7 سال سے کم عمر کے بچے کی کوئی فوجداری ذمہ داری نہیں ہوتی، یعنی اس کی طرف جرم منسوب نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اسے کسی جرم کی سزا دی جاسکتی ہے۔ دوسرا اصول یہ تھا کہ 12 سال سے کم عمر کے بچے کی بھی کوئی فوجداری ذمہ داری نہیں ہے، اگر اس کا ذہن اتنا پختہ نہ ہو کہ وہ اپنے افعال کے عواقب اور نتائج سمجھ سکے۔ گویا یہاں فوجداری ذمہ داری کسی حد تک وجود میں آسکتی تھی، اگر اس میں کسی حد تک ذہنی پختگی ہوتی۔
تاہم بعد میں ہم نے اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے معاہدات کی توثیق کی اور این جی او والی آنٹیاں بھی حرکت میں آگئیں، تو ہم نے ’نوخیز بچوں‘ (juveniles) کےلیے عدل کا الگ نظام Juvenile Justice System کے عنوان سے بنایا، اور اپنے فوجداری قانون کو بھی تبدیل کرلیا۔
اب ہمارا فوجداری قانون یہ کہتا ہے کہ 10 سال سے کم عمر کے بچے کی کوئی فوجداری ذمہ داری نہیں ہے، 10 اور 14 سال کی درمیانی مدت کے بچے کی مشروط اور محدود فوجداری ذمہ داری ہوسکتی ہے، اور 18 سال سے کم عمر کا انسان “بچہ” ہے جن پر عام فوجداری عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا، اور انھیں خصوصی عدالتی نظام میں خصوصی رعایتیں بھی دستیاب ہیں۔

واضح رہے کہ اب 18 سال سے کم عمر کا انسان ’بچہ‘ ہے، خواہ وہ برسوں قبل طبعی بلوغت تک پہنچ چکا ہو۔ اس لیے یہ بات سمجھ لیں کہ دو انسانوں کی موت کا سبب بننے والا یہ لڑکا بھی ابھی ’بچہ‘ ہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس ’بچے‘ کو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 279 کے تحت سزا دینے کےلیے عام فوجداری قانون کے تحت کارروائی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس کے علاوہ قصاص و دیت کے باب کی دفعہ 319 میں تو قرار دیا گیا ہے کہ غیر محتاط ڈرائیونگ کے نتیجے میں کسی کی موت واقع ہو، تو دیت کے علاوہ – جی ہاں، دیت کے علاوہ – اسے 5 سال تک کی سزاے قید بطورِ تعزیر بھی دی جاسکے گی، لیکن اس کی راہ میں یہ بات حائل ہوگئی کہ یہاں تو ملزم ایک نوخیز ’بچہ‘ تھا!
اسلامی قانون کی رو سے طبعی بلوغت کے بعد انسان بچہ نہیں ہے اور اس کی پوری فوجداری ذمہ داری ہوتی ہے، اسے جرم کی سزا کسی بھی دوسرے عاقل بالغ انسان کی طرح دی جاسکتی ہے؛ البتہ طبعی بلوغت سے قبل اس کی فوجداری ذمہ داری نہیں ہوتی اور اسے سزا نہیں دی جاسکتی؛ ہاں، 7 سال کی عمر سے طبعی بلوغت تک اسے ’صبی ممیّز‘، یعنی برے بھلے کی تمیز رکھنے والا بچہ کہا جاتا ہے اور اس عمر میں اسے سزا تو نہیں دی جاسکتی، لیکن اس کی ’تادیب‘ کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی قانون میں سال ہمیشہ قمری سال ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کے فوجداری قانون میں سال ہمیشہ شمسی سال ہوتے ہیں!
پس اگر ’حقوقِ انسانی‘ کے علمبرداروں کی مان لیں تو 18 سال سے کم عمر کا ’بچہ‘ شادی بھی نہیں کرسکتا اور اسےعام مجرموں کی طرح سزا بھی نہیں دی جاسکتی۔
حقیقتاً کر وہ کیا کچھ سکتا ہے، یہ ہم سب نے دیکھ لیا ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں