روس اور بھارت کا امریکی دباؤ کے باوجود اسٹریٹجک تعاون جاری رکھنے کا عزم

روس اور بھارت نے ماسکو میں دو طرفہ سیکیورٹی مذاکرات کے دوران “اسٹریٹجک شراکت داری” کے عزم کا اعادہ کیا، یہ ملاقات ایک دن بعد ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی تیل کی خریداری پر بھارت سے درآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا۔
بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال نے کہا کہ نئی دہلی رواں سال کے آخر تک صدر ولادیمیر پیوٹن کے دورہ بھارت کا منتظر ہے۔ روس کی سلامتی کونسل کے سیکریٹری سرگئی شوئیگو سے ملاقات کے دوران دونوں جانب سے دو طرفہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

ٹرمپ کی جانب سے بھارت سے درآمدات پر 25 فیصد اضافی ٹیرف کا نفاذ، جو 28 اگست سے مؤثر ہوگا، جنوری میں ان کے دوبارہ منصب سنبھالنے کے بعد امریکہ-بھارت تعلقات میں سب سے بڑی کشیدگی کا اشارہ ہے، جو بھارت کی سب سے بڑی برآمدی منڈی تک رسائی کو متاثر کر سکتا ہے۔

شوئیگو نے دوال سے گفتگو میں کہا کہ “ہم ایک نئے، زیادہ منصفانہ اور پائیدار عالمی نظام کی تشکیل، بین الاقوامی قانون کی بالادستی کے قیام، اور جدید چیلنجز و خطرات کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لیے مزید فعال تعاون کے عزم پر قائم ہیں۔” دوال نے کہا: “ہمارے درمیان بہت اچھے تعلقات قائم ہو چکے ہیں، جنہیں ہم بہت اہمیت دیتے ہیں، ہمارے ممالک کے درمیان ایک اسٹریٹجک شراکت داری موجود ہے۔”

فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر مکمل حملے کے بعد، بھارت اور چین روسی سمندری تیل کے سب سے بڑے خریدار بن گئے، جب مغرب نے روسی معیشت کو نشانہ بنانے کی کوششیں تیز کیں۔ ٹرمپ نے روسی تیل خریدنے والے ممالک کے خلاف اقدامات کی دھمکی دی تھی، اور اب بھارت پر درآمدی ٹیرف بڑھا کر اسے عملی جامہ پہنا دیا ہے۔

کریملن نے منگل کو امریکا پر بھارت پر غیر قانونی تجارتی دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا، اور کہا کہ بھارت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس ملک سے چاہے تجارت کرے ۔ تجارتی ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ نجی ریفائنری کمپنیاں، ریلائنس انڈسٹریز اور نایارا، بھارت میں روسی تیل کی سب سے بڑی خریدار ہیں۔

ایک بھارتی اہلکار نے بتایا کہ دوال ماسکو کے دورے کے دوران روسی خام تیل کی خریداری پر بھی بات کریں گے۔ ان کے دورے کا مقصد بھارت اور روس کے درمیان دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال کرنا بھی ہے۔ بھارت نے 2018 میں روس سے پانچ S-400 ٹرایمف میزائل سسٹمز کے لیے 5.5 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا، جنہیں چین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔

تاہم ان میزائل سسٹمز کی فراہمی میں بارہا تاخیر ہوئی ہے، اور اب توقع ہے کہ روس 2026 اور 2027 میں آخری دو S-400 یونٹس بھارت کو فراہم کرے گا۔ نئی دہلی نے روایتی طور پر روسی ہتھیاروں پر انحصار کیا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس نے روسی درآمدات میں کمی لاتے ہوئے مغربی ممالک سے خریداری کی طرف رجحان بڑھایا ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں