مہمان نوازی اور مہمان کی عزت و تکریم اسلام کی ان اعلیٰ اخلاقی تعلیمات میں سے ہے جو انسان کے کردار کو سنوارتی اور معاشرے کو محبت و اخوت کی بنیاد پر استوار کرتی ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور مہمان کے ساتھ حسنِ سلوک بھی اسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ مہمان نوازی محض ایک سماجی روایت نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ ہے جس کی جڑیں قرآنِ مجید اور احادیثِ نبوی ﷺ میں گہری پیوست ہیں۔
اسلام میں مہمان کو اللہ کی طرف سے رحمت سمجھا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیمؑ کے واقعے کے ذریعے مہمان نوازی کی عظیم مثال پیش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کے پاس جب فرشتے مہمان بن کر آئے تو آپؑ نے فوراً ان کے لیے بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا، حالانکہ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ فرشتے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ مہمان کی خدمت میں تاخیر، سستی یا بخل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ مہمان نوازی اللہ کے نیک بندوں کی صفت ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: “جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔” (صحیح بخاری و مسلم)۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ مہمان کی عزت و تکریم محض اخلاقی خوبی نہیں بلکہ ایمان کی علامت بھی ہے۔ جو شخص مہمان کی قدر نہیں کرتا، وہ دراصل اپنے ایمان کے ایک اہم تقاضے کو نظر انداز کرتا ہے۔
اسلام ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ مہمان کی عزت اس کی حیثیت، دولت یا منصب کو دیکھے بغیر کی جائے۔ نبی ﷺ کی زندگی اس کی عملی مثال ہے۔ آپ ﷺ غریب، مسافر، یتیم اور اجنبی سب کے ساتھ یکساں شفقت اور احترام کا برتاؤ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ کے دربار میں آنے والا ہر شخص خود کو معزز اور محترم محسوس کرتا تھا۔ یہی حقیقی اسلامی مہمان نوازی ہے جس میں کسی قسم کا فرق یا امتیاز نہیں ہوتا۔
مہمان نوازی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مہمان کو تکلیف کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مہمان کی ضیافت ایک دن اور ایک رات واجب ہے اور تین دن تک مہمان نوازی سنت ہے، اس کے بعد اگر میزبان مزید خدمت کرے تو وہ صدقہ ہے۔ اس تعلیم سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام مہمان نوازی میں اعتدال بھی سکھاتا ہے تاکہ نہ میزبان پر بوجھ پڑے اور نہ مہمان کو شرمندگی ہو۔
مہمان کی عزت و تکریم میں خوش اخلاقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نرم گفتگو، خندہ پیشانی، توجہ سے بات سننا اور اچھا برتاؤ وہ اوصاف ہیں جن پر اسلام بار بار زور دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: “اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔” یہ حکم عام ہے، مگر مہمان کے لیے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ وقتی طور پر ہماری ذمہ داری بن جاتا ہے۔
اسلامی تاریخ ہمیں مہمان نوازی کی بے شمار مثالیں فراہم کرتی ہے۔ صحابۂ کرامؓ مہمان کی خاطر اپنی ضرورت پر بھی اسے ترجیح دیتے تھے۔ قرآنِ مجید میں انصارِ مدینہ کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ خود محتاج ہونے کے باوجود دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے۔ یہ ایثار اور قربانی مہمان نوازی کی اعلیٰ ترین شکل ہے، جو آج کے مادہ پرست دور میں ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے۔
آج کے دور میں اگرچہ زندگی کی رفتار تیز ہو چکی ہے اور لوگ مصروف ہو گئے ہیں، مگر اسلامی تعلیمات کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ مہمان نوازی آج بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی پہلے تھی۔ اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کریں، بلکہ یہ سکھاتا ہے کہ اخلاص، محبت اور خلوص کے ساتھ مہمان کی خدمت کریں۔ سادہ کھانا بھی اگر خوش دلی سے پیش کیا جائے تو وہ اعلیٰ ترین ضیافت بن جاتا ہے۔
مہمان نوازی کا اثر صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ جس معاشرے میں مہمان کی عزت کی جاتی ہے، وہاں آپسی اعتماد، بھائی چارہ اور اتحاد پیدا ہوتا ہے۔ اسلام ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں ہر شخص خود کو محفوظ، معزز اور قابلِ احترام سمجھے، اور مہمان نوازی اس مقصد کے حصول کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
بچوں کی تربیت میں بھی اسلامی مہمان نوازی کی تعلیم دینا بے حد ضروری ہے۔ نبی ﷺ بچوں کو بھی اخلاقِ حسنہ کی تربیت دیتے تھے۔ اگر بچوں کو شروع سے یہ سکھایا جائے کہ مہمان اللہ کی نعمت ہوتا ہے، اس کے ساتھ ادب سے پیش آنا چاہیے اور اس کی خدمت کرنا باعثِ اجر ہے، تو وہ بڑے ہو کر ایک بااخلاق اور ذمہ دار مسلمان بنیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہمان نوازی اور مہمان کی عزت و تکریم اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم ہے جو انسان کو اللہ کے قریب اور انسانوں کے دلوں کے قریب لے جاتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف دنیا میں عزت اور سکون کا سبب بنتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اجر و ثواب کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم قرآن و سنت کی روشنی میں اس صفت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو ہمارا معاشرہ اخلاق، محبت اور اخوت کا بہترین نمونہ بن سکتا ہے