مغرب کے مادی پیمانوں میں کامیابی کا معیار کچھ اور ہوتا ہے، جہاں دولت، شہرت اور دنیاوی آسائشیں انسان کی عظمت کا پیمانہ بنتی ہیں۔ مگر مشرق کی لغت میں کامیابی کا سفر ان سطحی اقدار سے کہیں آگے ہے۔ یہ سفر کردار کی گہرائی، ایمان کی طاقت اور مقصد پر استقلال کا نام ہے۔ ڈاکٹر میمونہ نورین شہیدہ کی کہانی بھی اسی مشرقی دنیا کا ایک ایسا ہی باب ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اصل عظمت کا معیار مادہ نہیں، بلکہ وہ جوہرِ غیرت ہے جو ہر انسان میں ایک جہانِ نو کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
فاطمہ نوشین زہراء، جو بعد میں ڈاکٹر میمونہ نورین کہلائیں، ایک ایسی ہی شخصیت تھیں جن کی زندگی کا آغاز ایک عام پس منظر سے ہوا۔ ان کے والد جن کا تعلق بنو خزاعہ کے فارسی قبیلے سے تھا، روزگار کی تلاش میں اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر قطر آ بسے تھے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت سے ان کی زندگی کا آغاز ایک فلسطینی مہاجر خاتون کے ساتھ ہوا۔ غربت اور بےسر و سامانی کے اس دور میں شاید کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس جوڑے کے گھر میں ایک ایسی بیٹی جنم لے گی جو تاریخ میں ایک نیا اور سنہری باب رقم کرے گی۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان کی سرزمین روسی جارحیت کے سائے میں تھی اور دنیا ایک نئے سیاسی نقشے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
میمونہ نے اسی ہنگامہ خیز ماحول میں یکم اگست 1988ء کو آنکھ کھولی۔ بچپن سے ہی ان کی ذہانت غیر معمولی تھی۔ والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے قرآن کی تعلیم پر توجہ دی اور دس برس کی عمر میں ہی حافظہ قرآن بن کر قطر کا سب سے بڑا تعلیمی ایوارڈ اپنے نام کیا۔ ان کی تعلیمی جستجو یہیں ختم نہیں ہوئی۔ دوحہ کے ماڈل اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گئیں، مگر وہاں کے کھوکھلے ماحول اور تہذیب نے ان کے حساس دل کو سکون نہ بخشا اور وہ جلد ہی واپس لوٹ آئیں۔ ان کی والدہ کی روایت کے مطابق، وہ بچپن میں دو ہی خواب دیکھتی تھیں؛ یا تو ایک فٹبالر بننا یا ایک سائنس دان۔ ان کے یہ دونوں خواب حقیقت کا روپ دھار گئے، وہ نہ صرف قطر کی نیشنل فٹبال ٹیم کا حصہ بنیں بلکہ علم و تحقیق کے میدان میں بھی ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ وہ ایک ساتھ ایک کھلاڑی بھی تھیں، ایک محقق بھی اور ایک باوقار بیٹی بھی، جو اپنے خاندان کی اقدار اور مشرق کی روایات سے گہرا تعلق رکھتی تھی۔
ایک خوش حال اور پرسکون زندگی گزارنے والی اس لڑکی کی زندگی میں فیصلہ کن موڑ تب آیا جب جنوری 2017 میں ایک اسرائیلی جہاز کی جنین پر بمباری کی ویڈیو اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزری۔ اس ایک منظر نے ان کے دل میں ایک ایسی آگ سلگا دی جس نے عیش و آرام کی تمام دنیاوی زنجیروں کو توڑ ڈالا۔ وہی میمونہ جو اپنے والد کے جہاد پر جانے کی مخالفت کرتی تھیں، وہ خود مزاحمت کی راہ پر چل پڑیں۔ یہ ایک لمحاتی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ایک دل کا فیصلہ تھا جو امت کے درد سے لبریز تھا۔ اس سال انہوں نے اپنے 15 ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک مزاحمتی تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے بالآخر تحریک زنکی کی شکل اختیار کی۔ جن دوستوں نے کبھی ان کا مذاق اڑایا تھا، وہ چند سالوں میں ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو حیرت اور خوف کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔
میمونہ کی بصیرت اور فکری گہرائی اس وقت سامنے آئی جب 2020 میں انہوں نے حلب قدیم پر ایک غیر متوقع حملہ کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے شام کو قابو میں لانا ناگزیر ہے۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی جس کا ادراک بہت کم لوگوں کو تھا۔ تین سو دن کی مسلسل لڑائی کے بعد انہوں نے 35 کلومیٹر کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا، جو 2024 تک ان کے پاس رہا۔ ان کا یہ قدم اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ محض ایک جذباتی مزاحمت کار نہیں تھیں، بلکہ ایک زیرک اور دور اندیش رہنما تھیں۔
ان کی زندگی کے آخری برس بےحد کٹھن گزرے۔ 2023 کے آخر میں انہیں دنیا کے خطرناک ترین زہروں میں سے ایک دیا گیا۔ دو سال تک وہ اس زہر کی اذیت سہتی رہیں، جسمانی بیماریوں اور ناقابلِ برداشت درد میں مبتلا رہیں، مگر ان کے ارادوں میں ذرا بھی کم زوری نہیں آئی۔ وہ اپنی تمام تر جسمانی تکالیف کے باوجود مزاحمت کا علم بلند کیے رکھیں۔
مغربی تہذیب اور جدیدیت کے اس دور میں اکثر پردے کو قدامت پسندی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میمونہ کی زندگی اس نظریے کو مکمل طور پر غلط ثابت کرتی ہے۔ وہ جہاد کے میدان میں ایک مکمل مزاحمتی کردار کے ساتھ ساتھ پردے کی پابند بھی رہیں۔ ان کے لیے پردہ محض ایک ظاہری لباس نہیں تھا، بلکہ ان کے ایمان، وقار اور مزاحمت کا ایک حصہ تھا۔ پردہ ایک عورت کو بےحیا دنیا کی نظروں سے بچا کر اس کے جوہر کو محفوظ کرتا ہے۔ یہ اسے اس کی جسمانیت سے ہٹ کر اس کی فکری صلاحیتوں اور کردار کی بنا پر پہچانے جانے کا موقع دیتا ہے۔ ڈاکٹر میمونہ نورین بزبان حال مسلم عورت کو سمجھاتی ہیں کہ پردہ درحقیقت ایک طاقت ور ڈھال ہے جو ایک عورت کو اپنی اصل شناخت کے ساتھ جینے اور جہاد جیسے عظیم مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے کی ہمت دیتا ہے۔ وہ گھر سے لے کر میدانِ جنگ تک، ہر محاذ پر باوقار اور پردہ نشین رہیں۔ ان کا پردہ ان کی کم زوری نہیں بلکہ ان کی طاقت کا مظہر تھا اور ان کی غیرت مندی پر زبردست گواہ تھا۔
3 ستمبر 2025 کو ترکی کے شہر استنبول میں انڈسٹری روڈ پر ایک اسرائیلی ایجنٹ نے ان کی زندگی کا چراغ بجھا دیا۔ وہ شہید ہوئیں، ان جیسے کئی عظیم افراد شہید ہوئے، لیکن اسلام کی یہی خصوصیت ہے کہ افراد کی شہادت اسے کم زور نہیں، بلکہ افراد کا خون اس کی جڑوں کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ڈاکٹر میمونہ جیسی بیٹیاں اپنی جانیں قربان کر کے ہمیں کس بات کا پیغام دے رہی ہیں؟