‘یہ باہمی برداشت کا مرکز ہے’، اورکزئی ایجنسی میں نوجوانوں کے لیے لائبریری کا قیام

‘پڑھائی کا شوق اس قدر تھا کہ راہ چلتے کسی کاغذ کے ٹکڑے کو اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔ دس پندرہ سال سے اپنے بڑوں کو پڑھتے اور سنتے دیکھ کر خیال آتا تھا کہ کسی روز ایسی جگہ بنائیں گے جہاں ہم سکون سے بیٹھ کر مسائل پر عملی گفتگو کر سکیں۔’

یہ اورکزئی ایجنسی کے دہشت زدہ ماحول میں کتابوں کی بستی سجانے کا خواب لیے محمد نواز کے الفاظ ہیں، جنہوں نے حال ہی میں اپنے تئیں ایک لائبریری قائم کرکے اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بنیاد ڈالی ہے۔

ستر کی دہائی میں وجود میں آنے والی اورکزئی ایجنسی سنی اور شیعہ قبائل پر مشتمل ہے۔ باقی ایجنسیوں کی نسبت یہ علاقے نسبتاً پرامن خیال کیے جاتے تھے، تاہم گزشتہ پندرہ سالوں سے یہ علاقہ بھی دہشت گردی اور اس کے خلاف جاری جنگوں سے شدید متاثر ہوا ہے۔

محمد نواز مقامی حکومت میں ویلیج کونسل کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے علم و امن سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے علاقے کے کمیونٹی سینٹر میں اس نجی اور مختصر لائبریری کو اس لیے قائم کیا ہے کہ یہاں باہمی برداشت کا کلچر پروان چڑھے اور نوجوان اپنے مسائل کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے مخالف رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ہمہ گیر کوشش کریں۔

محمد نواز نے تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘اس کتب خانے سے گزشتہ چار ماہ میں بیس سے پچیس نوجوان جڑ گئے ہیں۔ یہاں سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر نشستیں منعقد ہوتی ہیں، جبکہ ہر ماہ کئی نوجوان کتابیں مطالعے کے لیے بھی لے جاتے ہیں۔’

‘یہاں مطالعے کا کلچر اس قدر عام نہیں تھا۔ مولانا خانزیب کی شہادت نوجوانوں کو کتاب کی طرف راغب کرنے کا موجب بنی۔ ان کی دو کتابیں لوگوں نے بڑی تعداد میں منگوائیں۔’

اس کتب خانے کی بیشتر کتابیں محمد نواز کی ذاتی ہیں، جو انہوں نے مختلف اوقات میں اپنے مطالعے کے لیے پشاور سے منگوائیں، جبکہ علاقے کی علمی شخصیات نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا۔

اس صدی کے پہلے عشرے میں اورکزئی کے چند علاقوں میں کوئلہ دریافت ہوا، جس وجہ سے صوبے کے دیگر علاقوں کے نوجوان یہاں مزدوری کرنے لگے۔محمد نواز کہتے ہیں کہ ‘باہر علاقوں سے آئے ان نوجوانوں کے کرکٹ ٹورنامنٹ میں کتابوں کی شکل میں انعامات تقسیم کیے تو ان نوجوانوں نے بھی دلچسپی دکھانی شروع کی۔ کتاب لے جانے والے نوجوانوں کے ساتھ سوال و جواب کی نشستیں بھی ہوتی ہیں، جس میں وہ اپنا حاصلِ مطالعہ سامنے رکھتے ہیں۔’

اس لائبریری سے کتابیں لے جانے والے نوجوانوں کی کمیونٹی بھی ساتھ بن رہی ہے۔ بعد ازاں واٹس ایپ گروپ کے ذریعے ان کے درمیان متعلقہ موضوعات پر علمی مباحثے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ محمد نواز کے مطابق مطالعے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ہی نئے آنے والے نوجوانوں کو کتابیں تجویز کرتا ہوں تاکہ عادت بننے میں آسانی رہے۔

ماہِ اکتوبر اس لائبریری کے قیام کا چوتھا مہینہ تھا، جس میں کل پچیس کتابیں ایشو ہوئیں اور اتنی ہی تعداد میں نوجوان اس کے ساتھ منسلک ہوئے۔

محمد نواز اس پیش رفت کو اورکزئی ایجنسی میں مذہبی رواداری کی جانب بھی ایک اہم قدم سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کتابیں صبر اور برداشت سکھاتی ہیں۔ اس عمل نے میرے اندر یہ عادت پیدا کی کہ مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کروں۔ آج اورکزئی ایجنسی کے اہلِ تشیع اور سنی نوجوانوں سے برابر کی محبت دل میں محسوس ہوتی ہے۔

نوجوانوں کو سماجی خرابیوں سے دور رکھنے کا مقصد لیے یہ مسکن علاقہ مکینوں کے لیے ایک امید کا پیغام ہے۔ سعید اللہ نامی نوجوان نے تاشقند اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہم اپنے مطالعے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ اوکزئی، پاکستان اور اسلام سمیت اقوامِ عالم کی تاریخ بابت آگاہی ملتی ہے اور سماجی برائیوں کا سدِ باب بھی ہوتا ہے۔

ان کے مطابق یہ عمارت پشتون نوجوانوں کو کارآمد شہری بنانے کا محور بنے گی، جہاں ٹک ٹاک اور نشے کے بجائے نوجوانوں کی علمی اور فکری بحالی پر کام ہوگا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں