مدارسِ دینیہ اور مصنوعی ذہانت:
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مدارسِ دینیہ کے اندر طلبۂ کرام اور ان نونہالانِ قوم کی صحیح پرورش، عقائد کی پختگی، اخلاق کی درستگی، کردار کی بلندی، علمی بالیدگی اور اعلیٰ استعداد پیدا کی جاتی ہے۔ ان اداروں سے ایسی نامور ہستیاں سامنے آتی ہیں جنہیں اسلامی علوم پر مکمل دسترس حاصل ہوتی ہے اور جو دنیا بھر میں مختلف دینی علوم میں گراں قدر خدمات انجام دیتے ہیں ۔ چاہے وہ علمِ تفسیر ہو، کلام، فقہ، حدیث، منطق، اسماء الرجال، صرف و نحو، فلسفہ یا علمِ بلاغت۔
الغرض، مدارسِ دینیہ کے اساتذۂ کرام طلبہ میں مضبوط علمی، فکری، روحانی اور انقلابی صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں۔ انہی مدارس سے عالم، قاری، حافظ، مفسر، محدث، محقق، مدبر، مؤرخ اور ایسے رجالِ کار پیدا ہوتے ہیں جو ہر محاذ پر باطل قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں، خصوصاً عصرِ حاضر کے نت نئے فتنوں، چیلنجز اور امتِ مسلمہ کی نظریاتی، سیاسی اور سفارتی سرحدوں کی حفاظت میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔
ان اداروں کے طلبہ کے بارے میں دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ دیگر تعلیمی اداروں (اسکول، کالج اور یونیورسٹی) کے طلبہ سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کے طلبہ کا مقصد اور ہدف اللہ کی رضا، حسنِ خلق، حسنِ نیت، زہد و تقویٰ، خشیتِ الٰہی، علومِ شرعیہ کی ترویج، حبِّ جاہ و مال سے بے نیازی اور علومِ وحی کا حصول ہوتا ہے۔
اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور مصنوعی ذہانت:
یہ حقیقت کسی ذی شعور انسان پر پوشیدہ نہیں کہ مثالی معاشرے کی تشکیل میں ہمارے عصری تعلیمی اداروں کا کردار گراں قدر رہا ہے۔ ان اداروں سے ایسے اشخاص فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن کے لیے معاشرہ مثلِ مادرِ بے اولاد ترس رہا ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض سائنس دان، ڈاکٹر، وکیل، پائلٹ، محقق، ادیب، مصنف اور فلاحی کارکن بن کر معاشرے میں نمایاں خدمات انجام دیتے ہیں، جنہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھا جاتا ہے۔
ان اداروں کا بنیادی مقصد طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اور انہیں درست سمت میں استعمال کے قابل بنانا ہے، تاکہ وہ اپنے اپنے شعبوں میں تعلیمی و عملی خدمات انجام دے سکیں۔
مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا رجحان:
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل ہمارے تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اب اسباق، مقالہ جات، اسائنمنٹ اور امتحانی پرچے بھی ChatGPT، OpenAI، Google Gemini وغیرہ جیسے جدید ٹولز سے تیار کیے جاتے ہیں، اور طلبہ کو انہی کے مطابق جوابات دینے کا پابند بنایا جاتا ہے۔
زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب دینی مدارس کے بعض طلبہ یا اہلِ علم قرآنِ کریم کی آیات، مسنون دعاؤں، احادیث یا فقہی مسائل کے حوالے کتابوں کے بجائے مصنوعی ذہانت سے لیتے ہیں۔ اکثر اوقات ان جوابات میں غلطیاں پائی جاتی ہیں، مگر پھر بھی انہیں تقریروں، تحریروں یا فتووں میں بطورِ سند پیش کیا جاتا ہے — حالانکہ یہ علمی سرقہ ہونے کے ساتھ ایک سنگین جرم بھی ہے، جو قیامت کے دن وبالِ جان بن سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے نقصانات:
جہاں ایک طرف سائنسی ترقی نے زندگی میں سہولتیں پیدا کی ہیں، وہیں انہی ایجادات نے نئی نسل کے ذہنی و تخلیقی جوہر کو ماند کر دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت دینی و عصری اداروں کے طلبہ میں سستی، کاہلی، غفلت، عدمِ اعتماد اور تخلیقی صلاحیتوں کے زوال کا سبب بن رہی ہے۔
ماہرینِ تعلیم کی آراء اور رہنما اصول:
1. مصنوعی ذہانت سے کسی کتاب یا حوالے کی مدد لینے کے بعد اصل ماخذ سے ضرور رجوع کرنا چاہیے۔
2. مصنوعی ذہانت کو بطورِ معاون اور اصلاحی ذریعہ استعمال کیا جائے، مصنف یا استاد کے متبادل کے طور پر نہیں۔
3. کسی تقریر یا تحریر میں اگر محاورہ، مقولہ یا نیا جملہ درکار ہو تو AI سے مدد لینے کے بعد اصل کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ استعداد میں پختگی آئے۔
مصنوعی ذہانت کے بارے میں عالمی جامعات کی پالیسیاں:
یونیورسٹی آف میلبورن (آسٹریلیا): طلبہ کا جمع کیا گیا کام خالصتاً ان کا ذاتی ہونا چاہیے، بصورتِ دیگر سخت سزا اور جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج (برطانیہ): مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ غیر تسلیم شدہ مواد کو علمی سرقہ سمجھا جائے گا۔
یونیورسٹی آف برمنگھم (برطانیہ): اجازت کے بغیر AI کا استعمال قانونی و اخلاقی جرم ہے۔
یونیورسٹی آف اسٹینفورڈ (امریکہ): اگر AI سے مدد لی گئی ہو تو اس کا واضح اعتراف ضروری ہے۔
یونیورسٹی آف جانز ہاپکنز (امریکہ): امتحان و اسائنمنٹ میں AI کا استعمال ممنوع ہے تاکہ طلبہ کی انفرادی محنت کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔
یونیورسٹی آف شکاگو (امریکہ): AI سے تیار کردہ مواد ناقابلِ اعتماد اور اشاعت کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔
امپیریل کالج لندن (برطانیہ): AI سے تیار شدہ مواد کو اپنا کام ظاہر کرنا سنگین جرم ہے۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا (برطانیہ): مصنوعی ذہانت سے تیار شدہ کام کو تعلیمی بد نظمی تصور کیا جاتا ہے۔
افسوس کہ جہاں دنیا کی بڑی جامعات نے مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں، وہیں ہمارے ہاں بعض دانشور مغرب سے مرعوب ہو کر اپنے طلبہ کو اس کے استعمال کی نہ صرف ترغیب دیتے ہیں بلکہ باقاعدہ کورسز بھی کراتے ہیں۔ پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں میں اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
سب سے زیادہ افسوس دینی مدارس کے طلبہ، علما اور مفتیانِ کرام پر ہوتا ہے جو مصنوعی ذہانت سے تیار شدہ مواد کو پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور کتابوں سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے اداروں سے رجالِ کار پیدا نہیں ہو رہے، اور ہم دن بدن علمی و فکری پستی کی طرف جا رہے ہیں، پھر اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔