تہواراورتلوار

پاک سرزمین سے ناپاک دہشت گردوں کی نجاست اورنحوست کاصفایاکرنے کیلئے ان سے نبردآزما ہمارے فرض شناس اور سرفروش فوجی جانبازہماراسرمایہ افتخارہیں۔پاک فوج کے شیردل جانبازوں نے اپنی بیش قیمت جان ہتھیلی پراٹھائے ہوئے جہاں فتنہ الہند کے کٹھ پتلی خوارج کوبڑی تعداد میں واصل جہنم کیا ہے وہاں ان میں سے نیک ماؤں کے نیک نیت اور نڈرفرزندان دادشجاعت دیتے ہوئے جام شہادت بھی نوش کررہے ہیں۔جومحافظ پاک سرزمین کواپنے خون سے سیرا ب کرے گاوہ پاکستان سمیت پاکستانیوں کامحسن اورمحبوب ہے۔ حالیہ سیلاب کے ساتھ ساتھ پنجاب پولیس اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان حالیہ خونیں تصادم کے نتیجہ میں دونوں طرف سے قیمتی جانوں کاضیاع ہوا ہے اوران کے پسماندگان سمیت”سنجیدہ“ عوام بھی”رنجیدہ“ ہیں،گھر گھر صف ماتم بچھی ہوئی ہے لیکن اس سوگوارماحول میں پنجاب حکومت نے اندرون شہر لاہورمیں دوروز کیلئے بسنت منانے کاپختہ اراہ کرلیاہے۔

رسمی تجاویز کے نام پرشوقین حضرات کوتیاری کاپیغام دے دیاگیا ہے۔ پنجاب کے حکمران یادرکھیں ان کے اعلانات اوراقدامات دھرے رہ جائیں گے کیونکہ نام نہاد محفوظ بسنت ہرگز اندرون شہرتک محدودنہیں رہ سکتی یہ بیرون شہر بلکہ شہرشہر اوریہ جاتے جاتے کئی قیمتی زندگیوں کی ڈورکاٹ جائے گی۔آپ پابندیاں لگالیجئے،پتنگ سازاورپتنگ باز ان کی دھجیاں بکھیردیں گے۔ہمارے ہاں ضابطہ اخلاق کااطلاق صرف کمزوروں پرہوتا ہے،طاقتوراوربااثر افراد ہر بار احتیاطی تدابیر اورقوانین کوہوا میں اڑادیتے ہیں۔پنجاب حکومت کے دیکھادیکھی سندھ حکومت بھی قاتل ڈورسمیت بسنت کی دوڑ میں کودسکتی ہے۔اگرپتنگ سازی کو روزگار اورپتنگ بازی کوتفریح یاشوق کہناجائز ہے توپھرپیشہ ور جسم فروش عورتوں کاگندا دھندہ اوربدقماش ڈاکوؤں کاذریعہ معاش بھی ان کے نزدیک روزگار ہے۔بسنت تفریح یا”تہوار“ نہیں بلکہ دودھاری”تلوار“ ہے، قاتل ڈور کے وارسے متعدد بچے اورشہری قتل ہوئے جبکہ ان کے قاتل ابھی تک آزاد ہیں۔پتنگ بازی سے وزارت بجلی کوبھی شدیدمالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔صحتمند تفریح کیلئے بیسیوں مثبت سرگرمیاں کی جاسکتی ہیں،بسنت ایک فتنہ ہے اسے دوبارہ زندہ نہ کیاجائے۔ مٹھی بھر افراد کے شوق کی خاطر بسنت منانے کیلئے کئی ملین موٹرسائیکل سوارحضرات پرپابندی لگاناایک بھونڈا مذاق اور ان کے بنیادی حقوق سے انکارہے۔

پنجاب پولیس کے اہلکاروں نے شب وروز انتھک محنت اورپیشہ ورانہ مہارت سے بسنت نامی”آدم خور“ بھوت کوبوتل میں بندکیا تھا،لیکن اگر تخت لاہور پربراجمان پنجاب کی نادان اورناتجربہ کار خاتون وزیراعلیٰ کی نادانی اور من مانی سے یہ بھوت بوتل سے باہر آگیا تواسے سنبھالنا اورشہریوں کی جان بچانا بہت دشوار ہوجائے گا لہٰذاء حکمران اپنے خطرناک شوق اپنے پاس اورخونخوار بسنت کاباب بندرکھیں۔ جہاں تک مجھے یادپڑتا ہے مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشورمیں محدود بسنت کی اجازت دینے کاکوئی ذکر نہیں تھا لہٰذاء حکمران جماعت کے پاس اس کا مینڈیٹ نہیں ہے۔راقم نے اپنے ایک کالم میں یہ تجاویزدی تھیں، ہرجماعت انتخابات سے قبل جہاں عوام کی عدالت میں اپنااپنا منشور رکھتی ہے وہاں اپنے اپنے اہم پلیئرز کابھی اعلان کیا کرے۔ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں حکمران جماعت کے صدر،وزیراعظم،گورنرز، وزرائے اعلیٰ،وفاقی وصوبائی وزراء کون کون اوراہم منصوبے کیا کیاہوں گے۔ یہ بات ووٹرز کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے،دوسرا یقینی بنایاجائے کوئی حکمرا ن جماعت اقتدارمیں آنے کے بعد اپنے پارٹی منشور سے انحراف نہ کرے۔میں وثوق سے کہتا ہوں اگرمسلم لیگ (ن) نے بسنت کی اجازت کواپنے پارٹی منشور کاحصہ بنایا ہوتا تواِسے وہ ووٹ بھی ہرگز نہ ملتے جوملے ہیں۔

کوئی زندہ ضمیر انسان قاتل’ڈور‘ کاخونیں ”دور“فراموش نہیں کرسکتا، قاتل ڈورنے بیسیوں بچوں کوماؤں کی نرم وگرم آغوش سے چھین کر بے رحم موت کی آغوش میں پہنچایاہے،شاہراہوں پر بچوں کی دلخراش اموات کے سانحات کو بدنصیب ماؤں میں سے کوئی ماں نہیں بھول سکتی توپھر ”سب کی ماں“ مریم نوازکووہ اندوہناک منظرکیوں یاد نہیں۔خونخواراورقاتل بسنت کافتنہ پھر سے زندہ نہ کیاجائے ورنہ کئی انسان ناحق مر سکتے ہیں۔اس فتنہ کا زندہ ہوناانسانوں کی بیش قیمت زندگی کیلئے خطرہ ہے۔قاتل ڈورکاخونیں دور واپس آنے سے بیگناہ شہریوں کی گردنیں کٹ سکتی ہے۔پتنگ بازی کے دوران کئی بچے اورجوان چھتوں سے گرنے کے نتیجہ میں زخمی،معذور اورفوت ہوجاتے ہیں۔امید ہے ہماراکوئی ممتاز قانون دان پنجاب حکومت کے اس خطرناک اقدام کولاہورہائیکورٹ میں چیلنج کردے گا یااعلیٰ عدالت اپناسوموٹواختیار استعمال کرے گی۔مٹھی بھر افراد کے بیہودہ شوق کیلئے بچوں سمیت شہریوں کی زندگی داؤپرلگانے کی اجاز ت نہیں دی جاسکتی۔

تخت لاہور پربراجمان حکمران شہرلاہورکوتختہ مشق بنانے کے درپے کیوں ہیں،یہ متنازعہ فیصلہ واپس لیاجائے۔اندرون شہرمیں دوروز کیلئے محدود بسنت منانے کی تجویزیاپختہ ارادہ احمقانہ اور عاقبت نااندیشانہ ہے کیونکہ اس صورت میں پتنگ بازی ہرگز اندرون شہر تک محدود نہیں رہے گی۔ ماضی میں بھی ہمیں قاتل ڈور کے ہاتھوں بچوں سمیت کئی شہریوں کی قیمتی جانوں کاضیاع برداشت کرناپڑاتھا۔ پتنگ بازی اب بیگناہ شہریوں کیلئے جان کی بازی بن گئی ہے،حکمران اس باب کوبندرکھیں۔ پولیس اہلکاروں نے شب وروز کی انتھک محنت اورجہدمسلسل سے پتنگ سازی اورپتنگ بازی پرقابوپایا تھا۔ آئی جی پی مشتاق احمد سکھیرا کے دور میں پتنگ بازوں کیخلاف کریک ڈاؤن کی غرض سے ”ڈرون کیمروں“ کے استعمال کاآئیڈیاراقم نے دیاتھا۔میں نے کہا تھا پتنگ بازوں کی شناخت اور گرفتاری یقینی بنانے کیلئے بلندعمارتوں سے ان کی ویڈیوز بنائی جاسکتی ہیں۔میں نے کہا تھا جس عمارت میں پتنگ سازی اور جس چھت پرپتنگ بازی ہوان کے مالکان کوبھی ایف آئی آر میں نامزداور گرفتارکیاجائے،اوربھی کافی کچھ کہا تھا۔ محدود بسنت کی اجازت دینے سے ماضی میں پتنگ سازوں اورپتنگ بازوں کیخلاف درج مقدمات کاکیابنے گا۔ عوام کو بتایا جائے قاتل بسنت کے دوران قیمتی جانوں کے ضیاع کی ایف آئی آر کس کیخلاف درج ہوں گی۔

12اکتوبر1999ء کی شام تک پاکستان کے مرکز میں نوازشریف جبکہ صوبہ پنجاب میں شہبازشریف کے اقتدارکاسورج سوانیزے پرتھا،ان دنوں لاہورسمیت مختلف شہروں میں جہاں ہرسال بسنت کازوروشور کے ساتھ بھرپوراہتمام کیاجاتا تھا وہاں روزانہ کی بنیادپراوربالخصوص اتوارکو ہفتہ وارچھٹی کے روزپتنگ بازی عام تھی اورآدم بیزار پتنگ باز اپنے خونیں شوق کیلئے قاتل ڈور استعمال اوربچوں سمیت شہریوں کی ”شہ رگ“ پروار کرتے تھے۔قاتل ڈور نے لاہور سمیت مختلف شہروں میں ناقابل فراموش دلخراش سانحات کوجنم دیا تھا۔پرویز ی آمریت کے متنازعہ دورمیں انسانیت کیلئے جوچندمستحسن اقدامات اٹھائے گئے ان میں بسنت اورپتنگ بازی پرسخت پابندی کااقدام بھی شامل تھا۔اس کامیابی وکامرانی اورنیک نامی کاکریڈٹ بجاطور پرانسان دوست بریگیڈئیرمحمد شفیع غازی کوجاتا ہے۔نیک نام اورزندہ ضمیر بریگیڈئیر(ر)محمد شفیع غازی جو 12اکتوبر1999ء میں پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کی حیثیت سے پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے تھے۔

افواج پاکستان کے سابقہ سپہ سالار اورپاکستان کے طاقتور چیف ایگزیکٹو جنرل(ر) پرویزمشرف مرحوم نے لیفٹیننٹ کرنل محمدشفیع غازی کو ان کی قائدانہ صلاحیت،انتظامی قابلیت اورفلاحی اقدامات کے سلسلہ میں ان کی کمٹمنٹ دیکھتے ہوئے نومبر1999ء میں پاکستان کے اہم ترین شہرلاہورکاچیف ایگزیکٹومقررکیا تھا۔لیفٹیننٹ کرنل محمدشفیع غازی نے اپنے آفس میں بیٹھتے ساتھ قاتل ڈور سے ہونیوالی دلخراش اموات روکنے کیلئے سخت احکامات صادر کئے اوراس وقت کے ڈی سی لاہور سے پچھلے پانچ سال میں پتنگ بازی اورقاتل ڈور کے نتیجہ میں ہونیوالی اموات کاریکارڈ منگوایا۔

اعدادوشمار کے مطابق ہرسال بچوں سمیت بیس سے تیس شہری قاتل ڈور کانشانہ بن رہے تھے،اس دردناک اورکربناک صورتحال کودیکھتے ہوئے انہوں نے ابتداء میں قاتل ڈور کے استعمال پرقدغن لگائی لیکن مخصوص ملعون پتنگ باز پھر بھی باز نہ آئے توانہوں نے قاتل ڈورکے ہاتھوں ناحق مارے جانیوالے بچوں اورشہریوں کے ورثاکے”بین“ سنتے ہوئے لاہورمیں پتنگ سازی اورپتنگ بازی کو”بین“کردیا،واقعی جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کوبچایا۔بریگیڈئیر (ر)محمدشفیع غازی کے اقدام سے یقینا کئی انسانوں کی قیمتی جانیں بچی ہوں گی۔ان کے بعد پنجاب میں پھر مسلم لیگ (ن) اقتدارمیں آئی،وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اورپی ٹی آئی کے دورمیں سردارعثمان بزدار نے بھی پتنگ سازی اورپتنگ بازی پرپابندی نہیں ہٹائی۔اب صوبہ پنجاب کی باگ ڈور مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف کی بیٹی مریم نواز کے ہاتھوں میں ہے، ان کا خونخوار بسنت پر کئی دہائیوں سے عائدپابندی ختم کرناایک پرخطر اقدام شمارہوگا۔خونخوارپتنگ بازی کے نتیجہ میں کئی انسان جان کی بازی ہاربیٹھیں گے،یادرکھیں کوئی مہذب معاشرہ ایسا خطرہ اورکوئی انسان دوسرے کی جان کابوجھ نہیں اٹھاسکتا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں