پاکستان کے نوجوان ہمیشہ سے تبدیلی، علم اور فکری جستجو کے علمبردار رہے ہیں۔ مگر آج کا نوجوان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف سائنس، ٹیکنالوجی اور عالمی فکری دھارے ہیں، اور دوسری طرف وہ مذہبی بیانیہ جو یا تو جامد ہے یا کردار سے خالی۔ یہی تضاد نوجوان کو مذہب سے دور لے جا رہا ہے، اور اس بےزاری کی سب سے بنیادی وجہ با کردار اور باعمل علما کا فقدان ہے۔ہمارے بچپن کی فضا میں سوال ایک خاموش گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اللہ کی ذات، کائنات کے اسرار اور ایمان کی بنیادوں پر سوچنے کو گستاخی کے مترادف گردانا جاتا۔ والدین کی محبت، اساتذہ کی شفقت اور علما کی تقدیس—سب مل کر سوال کے دروازے بند کر دیتے تھے۔ ہمیں سکھایا گیا کہ ایمان سوال سے نہیں، خاموشی سے بچتا ہے۔
مگر وقت نے کروٹ بدلی۔ آج کا نوجوان خاموش نہیں رہا۔ وہ کائنات کے ذرے ذرے میں سوال تلاش کرتا ہے، وہ خدا کو ماننے سے پہلے سمجھنا چاہتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ نوجوان سوال کرتا ہے، المیہ یہ ہے کہ اسے جواب نہیں ملتا۔جہاں دلیل کی جگہ ڈانٹ، منطق کی جگہ خطابت، اور شعور کی جگہ خوف بٹھا دیا جائے، وہاں ایمان ٹھہرتا نہیں۔ یہی فکری خلا رفتہ رفتہ تشکیک میں بدلتا ہے، اور تشکیک جب تنہا رہ جائے تو الحاد کی دہلیز تک جا پہنچتی ہے۔
دین کا اصل پیغام صرف کتابوں اور منبروں میں نہیں، بلکہ کردار اور عمل میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ نوجوان ان شخصیات کو فالو کرتے ہیں جو علم کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں سچائی، عاجزی، دیانت اور قربانی کا نمونہ پیش کریں۔ مگر آج کا نوجوان جب دیکھتا ہے کہ زیادہ تر دینی قیادت یا تو درباری ہے، یا سیاست اور طاقت کے مراکز کے گرد گھومتی ہے، تو اس کے دل میں دین نہیں، دین کے نمائندوں سے بدگمانی جنم لیتی ہے—اور یہی بدگمانی بالآخر مذہب سے بےزاری میں بدل جاتی ہے۔نوجوان آج کے دور کے سوالات پوچھتا ہے:سائنس کیا کہتی ہے؟ماحولیاتی بحران کا دینی جواب کیا ہے؟
معاشرتی انصاف، صنفی مسائل اور انسانی حقوق پر دین کا فکری موقف کیا ہے؟اگر ان سوالات کے جواب میں صرف صدیوں پرانے فتوے یا سیاق و سباق سے کٹے ہوئے اقوال پیش کیے جائیں، تو نوجوان ذہنی خلا کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور یہ خلا لبرل ازم، سیکولر سوچ اور بعض اوقات الحاد کے لیے زرخیز زمین بن جاتا ہے۔ایسے عہد میں ہمیں ایسے اہلِ علم درکار ہیں جو سوال سے خوف زدہ نہ ہوں، جو نوجوان کے ذہن میں اٹھنے والے طوفان کو کفر نہیں بلکہ جستجو سمجھیں، اور جو سائنسی بصیرت، منطقی استدلال اور فکری وقار کے ساتھ ایمان کو دفاع نہیں بلکہ دریافت کے عمل میں پیش کریں۔ کیونکہ آج ایمان وہی زندہ رہ سکتا ہے جو عقل کے چراغ میں روشن ہو اور سوال کی آنچ پر کندن بنے۔یہاں ذمہ داری صرف علما پر نہیں، ریاست پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ریاست اگر صرف درباری اور سیاسی علما کو فروغ دے گی، تو نوجوان یہی سمجھے گا کہ دین طاقت اور مفاد کا آلہ ہے، زندگی کی رہنمائی کا سرچشمہ نہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ آزاد، باکردار اور فکری طور پر مضبوط علما کو پلیٹ فارم دے، جو نوجوانوں کے قریب ہوں، ان کی زبان سمجھتے ہوں اور ان کے سوالات کا سامنا دلیل سے کریں۔اور نوجوانوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے:ہر داڑھی علم کی علامت نہیں، ہر خطابت ہدایت نہیں۔
ان علما کو فالو کرو جو علم، اخلاق اور عمل—تینوں میں قابلِ تقلید ہوں۔نوجوانوں میں مذہب سے بےزاری کا حل نہ صرف نصاب میں ہے، نہ محض تقریروں میں۔ اس کا اصل حل علم، عمل اور باکردار علما کی زندہ مثال میں پوشیدہ ہے۔ جب نوجوان کو ایسا عالم ملے گا جو سوال سن بھی سکے اور جواب بھی دے سکے، جو خود دین کی چلتی پھرتی تصویر ہو، تب دین دوبارہ دلوں میں اترے گا۔یہی وہ مقام ہے جہاں ریاست، علما اور معاشرہ—تینوں کو مل کر نوجوانوں کے لیے فکری اور عملی رہنمائی فراہم کرنا ہوگی، تاکہ ایمان خوف نہیں، شعور بنے؛ اور دین رسم نہیں، زندگی بن جائے