پاک بھارت سرحد پر پایا جانے والا ‘گریٹ انڈین بسٹرڈ’ نامی پرندہ معدومیت کا شکار کیوں؟

تین سے چار فٹ قد، زرافے سی گردن مگر سفید اور آسمان کی اور سیدھ، لمبی ٹانگیں، ہرنی چال، سراغ رسانی میں مگن سنہری اور متجسس آنکھیں، سر پر سیاہی رنگ کا ٹوپی نما داغ، عقابی شان پرواز، پروں کا رنگ بھورا لیکن گردن کے آخری حصے پر سیاہ رنگ کی لکیر ۔۔۔۔یہ پاک بھارت سرحد پر واقع صحرائے چولستان میں پائے جانے والے ‘گریٹ انڈین بسٹرڈ’ نامی پرندے کے خال و خد ہے، جو اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

گریٹ انڈین بسٹرڈ کو مقامی زبان میں بھکڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پرندہ پرواز سے کنارہ کرتے ہوئے زمین پر ہی زیادہ تر رہنا پسند کرتا ہے۔ تاہم، نایاب خصوصیات کے حامل اس پرندے کی چند تعداد باقی رہ گئی ہے۔

پاکستان وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر وسیم احمد خان نے تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘یہ پرندہ اڑنے کے بجائے زمین پر زیادہ تر چلنے کو ترجیح دیتا ہے۔ پرندے کی یہ قسم گھاس اور جھاڑیوں پر مبنی ماحولیاتی نظام میں پایا جاتا ہے، جہاں زمین پر درخت کم ہوتے ہیں۔’

گریٹ انڈین بسٹرڈ دنیا بھر میں صرف پاک بھارت سرحد سے منسلک صحرائے چولستان کے کچھ علاقوں کی مخصوص نسل ہے۔ ڈاکٹر وسیم کے مطابق ‘یہ پرندے صحرائی علاقوں کے علاوہ ریتیلے اور نیم صحرائی میدانوں میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔پاکستان میں ان پرندوں کی کل تعداد پچیس سے زیادہ نہیں ہوگی۔صحرائے تھر چونکہ چولستان ہی کا سندھ کی طرف تسلسل ہے ، اس لیے وہاں بھی اس کی موجودگی کے شواہد ملتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں اس کی کل تعداد سو کے لگ بھگ ہیں، یعنی مجموعی طور پر یہ ڈیڑھ سو کے قریب ہوسکتے ہیں۔’

گریٹ انڈین بسٹرڈ کی معدومیت کی وجوہات کیا ہیں؟

اس پرندے کی معدومیت کی متعدد وجوہات ہیں۔ ڈاکٹر وسیم کہتے ہیں کہ’ بھارت نے حال ہی میں صحرا کے بیچ اندرا گاندھی کے نام سے ایک نہری منصوبے پر کام مکمل کیا ہے۔ جس طرح ایک سڑک کی تعمیر سے اُس علاقے کی صورتحال تبدیل ہوجاتی ہے اور لوگ ارد گرد آکر رہنا شروع کردیتے ہیں، عین اسی طرح نہر بننے کے بعد اُس طرف ماحول یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ سبزے میں اضافے اور زرعی زمین بننے کے بعد بھکڑ کے لیے وہ جگہ رہنے کے لیے موزوں اور فطری باقی نہیں رہی۔’

ڈاکٹر وسیم سمجھتے ہیں کہ’ بھارت کی طرف چرواہیں اور چراہ گاہیں بھی زیادہ ہیں۔ لہذہ، بھیڑ، بکریوں اور بھینسوں کی وجہ سے ان پرندوں کے زمین پر گھونسلے اورانڈےخراب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح وہاں توانائی کا شمسی نظام کافی وسیع کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے بجلی کے کھمبوں اور تاروں سے یہ اکثر ٹکرا جاتے ہیں۔’

ڈاکٹر وسیم نے پاکستان میں اس کی معدومیت کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ’ ہمارے ہاں بےشرمی کے ساتھ لوگ مردانہ کمزوری کے علاج کے لیے اس کا شکار کرتے ہیں۔ اس کمزوری کو ٹھیک کرنے میں اس پرندے کے جسم کے کسی حصے کا کوئی سروکار نہیں، یہ محض ایک افسانہ ہے۔ تاہم، لوگ چھپ کر اس کا شکار کرتے ہیں اور ساٹھ ستر ہزار میں اس مقصد کے لیے فروخت کرتے ہیں۔ ‘

پاکستان میں اس کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات لیے جاتے ہیں؟

گریٹ انڈین بسٹرڈ اپنی نوعیت میں ایک منفرد پرندہ ہے۔ یہاں سے نسل کے خاتمے کے بعد پوری دنیا میں اس کا سراغ پانا مشکل ہوجائے گا۔ تاہم، وائلڈ لائف پاکستان اس کے تحفظ کے لیے ممکنہ اقدامات اٹھا رہا ہے۔

ڈپٹی چیف وائلڈ لائف بہاولپور علی عثمان بخاری نے تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘صحرائے چولستان کے کچھ علاقوں میں ‘گریٹ انڈین بسٹرڈ وائلڈلائف پناہ گاہ’ قائم کی گئی ہے، جہاں چیک پوسٹس اور تحفظی کیمپس سمیت اہلکاروں کی مسلسل مٹرگشت جاری رہتی ہے۔اس نایاب پرندے کے تحفظ کے لیے ہمارا ادارہ دن رات کام کرتا ہے۔’

ان کے مطابق مکمل سیکورٹی کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصے سے اس کے شکار کی کوئی شکایت یا خبر رپورٹ نہیں ہوئی۔ مزید یہاں کچھ کیمپس، گاڑیاں اور اہلکاروں کو بھی تعینات کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس پناہ گاہ کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے خاردار تاریں لگانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔

علی عثمان کہتے ہیں کہ “ہماری اس پناہ گاہ کے اندر کسی انسان، جانور اور گاڑیوں کا آنا مکمل طور پر ممنوع ہوتاہے۔ اس نسل کو بچانے اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے حتی الامکان کوشش جاری رہے گی۔”

Author

اپنا تبصرہ لکھیں