جب دلیل مر جائے اور گالی زندہ رہے
سیاسی اخلاقیات ،گالی بطور نظریہ، سچ، سیاست اور سوشل میڈیا کی بدزبانی، ٹائم لائن پر تہذیب کا جنازہ، ریاست، سیاست اور ری ٹویٹ شدہ گالیاں، وائرل ہونے کی دوڑ میں اخلاقیات کی ہار، قلم، کیمرہ اور کردار کا بحران، جب قیادت خاموش ہو اورورکرز کی زبان بے لگام، سیاسی ورکر یا لفظی غنڈے، سوشل میڈیا اختلاف نہیں، تذلیل کا میدان ہے شاید۔
چائے خانے میں آج حسبِ معمول کپ کے ساتھ بسکٹ نہیں، بلکہ اخلاقیات ڈبو کر پی جا رہی تھیں۔ سامنے میز پر سیاست، صحافت اور سوشل میڈیا کا ایسا قہقہہ لگ رہا تھا کہ چائے بھی شرما جائے۔ کوئی کہہ رہا تھا: “بھائی اب دلیل کا زمانہ نہیں، گالی فالوور لاتی ہے”، دوسرا فوراً بولا: “اور اگر گالی سیاسی ہو تو ری ٹویٹ بھی قیادت خود کر دیتی ہے۔”
یہ کوئی ایک پلیٹ فارم کی کہانی نہیں۔ ایکس ہو، فیس بک ہو یا انسٹاگرام ہر جگہ الفاظ ایسے برتے جا رہے ہیں جیسے یہ تہذیب نہیں، پتھر ہوں۔ سیاسی جماعتوں کے نام لیوا، خود کو ورکر کہتے ہیں مگر زبان ایسی جیسے کسی گلی کے آخری نکڑ پر کھڑے ہوں۔ اختلاف رائے اب رائے نہیں رہا، ذاتی حملہ بن چکا ہے۔ ماں، بہن، خاندان، کردارسب کچھ ایک کلک کی نذر۔
تشویش ناک پہلو یہ نہیں کہ چند نادان ایسا کر رہے ہیں، اصل المیہ یہ ہے کہ جنہیں روکنا چاہیے، وہی حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ قیادت کے اکاؤنٹس سے لائکس، مسکراہٹیں اور بعض اوقات خاموش رضامندی یہ سب اس بازاری رویے کی آبیاری ہے۔ جب اوپر سے اشارہ ملے کہ “چلو، لگے رہو”، تو نیچے اخلاقیات کے پودے کیسے زندہ رہیں؟
صحافیوں کا ذکر آئے تو چائے ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ تنقید صحافت کا حسن ہے، مگر یہاں حسن کو بدصورتی کا میک اپ پہنا دیا گیا ہے۔ کسی نے خبر دی تو اس پر ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ لغت بھی کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اور پھر ایک نئی قسم سامنے آئی ہے،سیاسی ورکر نما صحافی۔ کیمرہ آن، آواز بلند، باڈی لینگویج جارحانہ، اور الفاظ ایسے کہ ڈگریاں دیوار کی زینت معلوم ہوں۔ دیکھنے والا سوچتا ہے: اگر تعلیم نے یہی سکھانا تھا تو پھر اخلاقیات کہاں پڑھائی جاتی ہیں؟
یہ بھی عجیب تماشہ ہے کہ آزادیِ اظہار کا مطلب آزادیِ بدتمیزی سمجھ لیا گیا ہے۔ اختلاف کا حق ہے، مگر تذلیل کا لائسنس کب جاری ہوا؟ طنز ہو تو شائستہ، تنقید ہو تو باوقار یہ اصول شاید نصاب میں تھے، مگر ٹائم لائن پر نظر نہیں آتے۔ یہاں تو مقابلہ یہ ہے کہ کون زیادہ نیچےگر سکتا ہے، کون زیادہ “وائرل” ہو سکتا ہے۔
ایکس پر روزانہ ایسے ٹویٹس گردش کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہےاور یہ ذمہ داری یہاں لاپتہ ہے۔ فیس بک پر تبصرے، انسٹاگرام پر ریلزہر جگہ چیخ، طنز نہیں بلکہ تضحیک، مزاح نہیں بلکہ زہر۔ اور دلچسپ بات یہ کہ سب خود کو محبِ وطن، نظریاتی اور اصول پسند کہتے ہیں۔
چائے خانے میں ایک بزرگ نے آہستہ سے کہا: “بیٹا، زبان بھی کردار کا تعارف ہوتی ہے۔” میز پر خاموشی چھا گئی، مگر صرف ایک لمحے کے لیے۔ پھر کسی نے فون اٹھایا، نئی گالی ٹائپ کی، اور اخلاقیات دوبارہ چائے میں ڈوب گئیں۔
قائدین سے گزارش ہےنام لیے بغیر، نشان دکھائے بغیرکم از کم اس رویے کی حوصلہ شکنی کریں۔ اختلاف سکھائیں، گالی نہیں۔ دلیل سکھائیں، دھمکی نہیں۔ اگر آپ خاموش رہیں گے تو شور آپ کے نام پر بڑھے گا۔ اور صحافت سے وابستہ احباب سے بھی اتنا ہی کہنا ہے کہ سوال کی دھار رکھیں، زبان کی نہیں۔ باڈی لینگویج سے وقار جھلکنا چاہیے، غصہ نہیں۔
چائے خانہ بند ہو رہا ہے۔ کپ خالی ہیں، مگر سوال باقی ہے: کیا ہم واقعی اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ سچ، اختلاف اور شائستگی ایک ساتھ برداشت نہیں کر سکتے؟ اگر جواب ہاں ہے، تو پھر قصور صرف ٹرول کا نہیں تماشائی کا بھی ہے